زچ باز محبتوں سے شکست خوردہ لوگ اور اس زندگی کے تقاضے

0
0

۰۰۰
غلام سرور شاہین
سرنکوٹ پونچھ جموں وکشمیر
۰۰۰
محبت جو انسانی ساخت میں فطرتی مادہ ہے وہ رنڈ بازی یا پاکستانی ڈراما بازوں کی ڈرامہ بازی نہیں ہے بلکہ انسان سے انسانیت، اخوت، احساس یا ہمدردی اور خالات کی اونچ نیچ میں مراسم نبھائے رکھنا یہ محبت ہے۔ لیکن ہمارے جدید اداراتی تعلیم یعنی اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کے ماحول بلکہ جدید درسگاہیں چاہے دینی ہو یا دنیاوی، سے عشق و عاشقی کے نام پر لٹو بازی، بے غیرتی اور انسیت پرستی جیسی کئی عوامل کی بدبو پنپتی اور جنم لیتی ہے جو (موثئر اصلاح، ذہن سازی اور سخت پکڑ کی غیر موجودگی میں) اس سب کیلئے بعد بڑے سطح کی بدکاریوں کیلئے راہیں ہموار کرتی ہے۔ حال میں ایک سروے کے مطابق 25 سے 30 کی عمر میں %23 نوجوان living relationship میں ہیں جن کی شادی بعد میں کسی دوسرے سے طے پاتی ہے ہیں۔(love affair تے گل ہی کوئے نی) یہ ماحول جب رہائشی یونیورسٹیوں کا دیکھتا ہوں تو یہ اور بھی حیران کن ہے کہ کس طرح یہ معاشروں قوموں اور خاندانوں کا مستقبل جو کبھی ملک و ملت کے دھارے بدل دینے کا عزم رکھتا تھا، ایوانوں اور صاحب اقتداروں کو ہلا دیتا تھا وہ آج غیر مہذب زبان میں لونڈیاں/لونڈا بازی اور میرے نزدیک رنڈ بازی کا ماہر اسکالر اور ہیرو بنا ہوا ہے۔اور اس ماحول سے نابلد نوجوانوں کو نفسیاتی معاشرتی اور پسماندگی کا شکار سمجھا جاتا ہے۔
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ لڑکپن اور حرامی پن دونوں عمر کی تنزولات میں واقع ایک ہی سٹیج ہیں۔ ایسے میں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی دونوں لٹو بازی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ہر عاشق یا معشوقہ یہ مانتی ہے کہ سوا انکے سب رشتے حرام ہیں جبکہ انہیں عاشق معشوقاؤں میں سے کسی ایک کو لٹھ یعنی چھوڑ جانے کے بالکل دوسرے دن یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ حرام بازی کے صحیح مرتکب تو آپ تھے۔ میں بیسوں ایسی مثال دے سکتا ہوں کہ اس شعبہِ عشق بازی نے کس طرح جوانیوں کو کھایا ہے talent کو روندھا اور پڑھنے لکھنے، کچھ کام کاج کرنے کی عمر میں لوگوں کو بکوسیات اور واہیات میں وقت ضائع کرکے اپنے قیمتی لمحات کو خود اپنے ہاتھوں کفن دیا ہے۔ ماں باپ بھائی بہن اور اجتماعی معاشرتی ذمہ داری سے ہٹ کر خود اپنی ہی ذات میں زندہ لاش کی طرح زندگی کا سفر آگے دھکیلتے ہوئے مرجاتے ہیں۔بلکہ آجکل تو ڈرگ کا سارا بیوپار اسی مرض پر منحصر ہے۔
ہم پاگلوں کی اکثریت اس حرام بازی اور گندگی کو پاکیزگی ہونے سمجھنے اور سمجھانے کیلئے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری سے کوالیفائڈ کراتے ہیں۔ اور جناب خوش تو تب کھلتے ہیں جب یہ پری زادہ بستر میں درد سے چاک ہوتا ہے اور وہ جنابِ محبوب جو کبھی اسکی وجہہ حیات و ذات اور کل کائنات تھا وہ کسی دوسرے کی باہوں سے لپٹے بالکل وہی راگ گا رہے ہوتا ہے جو کبھی اسکا سکون نیند چین وغیرہ جیسی کئی اصطلاحات ہوا کرتا تھا وہی شخص اپنے جذبات اور احساسات کا بھیس بدلے کسی دوسرے کو سہلاتا و رقص و سروس میں مگن زندگی رنگ بھر رہا ہوتا ہے۔ اور ادھر جون، نصرت، راحت وغیرہ جیسے کی زچ باز گویا مرشد اعظم ایسوں کی تسلی کا سامان ہوتے ہیں۔
جنابِ عشاق یہ دنیا مشاہداتی جگہ ہے اور یہاں اسباب کی بنیاد پر دن گذرتے ہیں نہ کہ لٹو بازی یعنی عشق بازی سے۔ یہ جو آپ کا محترم محبوب ہے یہ بہتیروں کی آنکھ کا تارا ہوگا۔ ہاں مگر استثنائی مثال بھی ہیں جہاں خاندانی محبت کرنے والے احساس ہمدردی اور یقین کی زندہ مثال بن کر زندگی میں ایک دوسرے کی اونچ نیچ کو سانجھا گذارتے بھی ہیں جو انسانیت کی بہترین مثال ہیں بلکہ وہی کچھ ایک انسان یہاں آباد نظر آتے ہیں باقی تو ایک تماشہِ ہائے ہو میں اپنی تکمیل کر رہے ہیں۔ یہ انسان یا انسانیت کی مثال اسلئے ہوتے کہ انہیں فرق نہیں پڑتا کہ آپکی ذات کیا ہے سٹیٹس کیا ہے مالی حالات کیسے ہیں شکل و صورت میں کیسے نظر آتے ہیں۔گو کہ یہاں بھی حقیقت کچھ افسانوی یا ڈرامائی ہی نظر آتی ہے اور اصل بالکل اسکے برعکس ہے۔ اصل میں یہ سماج آپکو آپکے سٹیٹس دولت اور شکل و صورت کے خودساختہ معیار میں پرکھتا ہے۔کوئی والدین کوئی بہن کوئی بیٹا کوئی بیوی اور کوئی بھائی سماج کہ اس خودساختہ میعار سے کم نظر آنے والے شخص کو حقارت سے دیکھنا گویا خود میں زمانہ شناسی سمجھتا ہے۔اکثریتی ماحول اس قدر مادی پرست ہو چلا ہے کہ اچھے خاصی جان پہچان قرابت اور انسانیت کو دھج کر بلکہ موقع مناسبت سے متبادل کی تلاش میں لوگ کئی ایک کو محبت و پیار کے دانے ڈالنے کو کچھ سنجیدگی اور گھر والوں سے ایمانداری جیسے اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں۔ایسے سنجیدہ اور زمانہ شناس ایک وقت میں چار چار اور آٹھ آپشن لئے best among the given option کی تھیوری سے کام لیتے ہیں۔ آپ ذرہ سی کسی پریشانی یا مشکلات میں پڑھے تو لوگوں کی سب سے بڑی پریشانی آپ کی ذات اور آپکی یہ جذباتیات اور احساسات پر کھڑی محبت بن جاتی ہے اور آپ سے جان چھڑانے کیلئے بڑی دانشمندی سے اپنا پالا ایک دن یہ کہہ کر چھڑا لیں گے کہ ‘پلیز میرے لئے ہماری محبت کیلئے سب کچھ بھول جاؤں آپکا مستقبل بہت روشن ہے ہمارا مقدر اور اللہ کی مرضی یہی تھی’۔ اور یہ مورکھ اسکو جوں کا توں مان کر محترم/محترمہ کو دنیائے محبت کی دیوی دیوتا تصور کئے ماضی کے ناکام لمحوں کی یاد کو محبت کا تاج محل مانتا ہے جو منٹو کی زبان میں "فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے چند بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے”۔
ہٹلر جدید دور میں ظلم و استبداد کی سب سے بڑی مثال تھی مگر مجھے اسکے اس عقدے سے قدرے اتفاق ہے (جو اس نے اپنے مرشد نیطشے سے سیکھا تھا )کہ ان شاعروں اور حسین محبوبوں کے اصنام کو قتل کردینا چاہئے جو نوجوان کو مردہ جذبات اجتماعی معاشرے کی ذمہ داری سے ناواقف اور دنیا سے بدظن کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ہم انسان اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا چاہتے ہیں آسانیوں کو لپک کر آرام کی زندگی کے قریب تر ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے مادے میں نفسیاتی برائیوں کا رجحان اور شر کے امکانات کا پلہ زیادہ بھاری ہوتا ہے، ایسے میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم پر والدین اپنی زندگی اور اجتماعی قوم اور ملت کے معاشرتی طور جو ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں انکے ہم باغی اور مجرم ہیں۔
اگر آْپ یہ ٹھان لیں کہ محبت(جو مذکورہ سیاق میں زچ بازی ہے) اب نہیں ہوگی۔کیونکہ آپ اپنی ذمہ داریوں اور اس زندگی کے تقاضوں سے دور بھاگ کر جو ایسی محبتوں کے پناہ گزین ہونے کے عادی ہوگئے ہیں، اگر ان سے گریز کرنا سیکھ جائیں تو یہ محبتیں جو انسانی قدروں کی دشمن ہیں وہ خود طواف کیوں نہ کرلیں تو بھی آپکو مقصد اور کامیابی سے ہمکنار ہونے سے نہیں روک سکتی۔
مشتاق یوسفی کی الفاظ میں’انسان کو زندگی میں ایک بار محبت ضرور کرنی چاہیے تاکہ وہ یہ جان سکے کہ محبت کیوں نہیں کرنی چاہیے’
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا