زندگی سنوارنے والی ’اُمید اسکیم‘سے بے خبر دیہی خواتین

0
0

منیما اختر
منڈی، پونچھ

نیشنل رورل لاویولی ہوڈ مشن کی’اُمید اسکیم‘ کے ساتھ اس وقت جموں وکشمیر کی 6 ہزار سے زائد خواتین جڑی ہوئی ہیں اور2024 کے آخر تک یہ تعداد 9 ہزار تک اور پہنچنے کی توقع ہے۔ اس اسکیم سے دیہی خواتین سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے نہ صرف خود روزگار کما رہی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کر رہی ہیں۔لیکن ابھی بھی یہاں کے کچھ ایسے بھی دیہی علاقیں ہیں جہاں کی خواتین اس اہم اسکیم سے بے خبر ہیں۔انہیں اس سے فائدہ اٹھانے کی بات تو دور، اس کے بارے میں مکمل معلومات بھی نہیں ہے ۔ ایسا ہی ایک علاقہ پونچھ ضلع کی تحصیل منڈی کے گاؤں بایلہ ہے۔ جہاں کی خواتین سے اس اسکیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیاانہیں’اُمید اسکیم‘ کے بارے میں کچھ جانکاری ہے؟ جواب میں آیا کے ہمیںاس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ ہم جاننا چاہتی ہیں کہ یہ اسکیم کیا ہے؟جبکہ اُمید کے بارے میں لوگوں کو خصوصاً خواتین کو جانکاری ہونی بہت ضروری ہے ۔اس اسکیم سے خواتین اپنی بے روزگاری دور کر سکتی ہیں۔اس کے ذریعہ وہ اپنے گھر میں ہی مرغی پالن، گائے، وغیرہ رکھ سکتی ہیں اورنہ صرف روزگار چلا سکتی ہیں بلکہ اچھے روپہ بھی کما کر خودمختار بن سکتی ہیں ۔ تحصیل منڈی میں امیدا سکیم 2016 سے چل رہی ہے۔ اس اسکیم کا دیہی عوام کو بہت فائدہ ہوا ہے ۔ مختلف گاؤں کی عورتوں نے اس اسکیم کا بہُت فائدہ اٹھایا ہے۔بائلہ کی کچھ خواتین اس اسکیم کا فائدہ اٹھا رہی ہیں جبکہ بیشتر عورتیں ایسی ہیں جنہیں ابھی تک اس اسکیم کے بارے میں پتہ تک نہیں ہے۔حالانکہ حکومت کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس اسکیم کے ساتھ جڑیںتا کہ انہیں اسکے بعد کوئی معاشی دشواری نہ اٹھانی پڑے۔

اس سلسلے میں منڈی بائلہ کی رہنے والی متینہ اختر جن کی عمر 18 سال ہے، ان کا کہنا ہے’’ ہمیں اس اسکیم کے بارے میں آج تک معلوم نہیں ہے حالانکہ میں منڈی سے دو کیلومیٹر کی دوری پر رہتی ہوں۔ منڈی کے ان پچھڑے علاقوں کو کون بتانے آئے گا کہ یہ اسکیمیں چل رہی ہیں، چلو آپ بھی انکا فائدہ اٹھا لو؟ محکمہ کی بے حسی کی وجہ سے دوردراز علاقہ کی ہم خواتین اس کا فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ہمیں تب پتہ لگتا ہے جب اسکیم کا خاتما ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘ایک خاتون جنکا نام صایمہ اختر ، عمر 23سال ہے،کا یہ کہنا ہے کہ ’’ہم نے اس سکیم کے بارے میں آج تک کسی سے نہ سنا اور نہ ہی ہمیں اس سکیم کا نام تک بھی معلوم ہے۔ تو پھر ہمیںپتہ کیسے ہوگا؟ گاؤں میں کوئی ٹیم آئے گی بتائے گی کہ آپکے لئے یہ اسکیم آنے والی ہے آپ اسکا بھر پور فائدہ اٹھانا، لیکن یہاں تو کبھی کوئی ٹیم نظر نہیں آئی۔ کیسے آئے گی نظر؟ جب سارا نظام یہاں کا بگڑا ہوا ہے۔‘‘اسی کے ساتھ فریدہ اختر جن کی عمر 37سال ہے، انہوں نے اپنی باتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جب مجھے اپنی کرانے کی دکان کے لیے سامان لانا تھا تو میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ پھرمیں نے اپنے گھر کی کچھ لکڑیاںبیچ کر اپنی دکان کے لیے سامان لائی تھی۔ اگر مجھے پہلے اس اسکیم کے بارے میں پتہ ہوتا تو مجھے یہ لکڑیاں نہ بیچنی پڑتی۔ اتنی نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ مجھے لکڑیاں بیچنی پڑی۔ اس سوال کہ کیا آپکو اس اسکیم کا کچھ ڈر ہے جسکی وجہ سے آپ اس سے جڑ نہیں رہی ہو؟ جواب میں بائلہ کی 19 سال کی سلمہ اختراس سے انکار نہیں کرتی ہیں۔ان کے دل میں یہ خوف ہے کہ ہمیں اس سکیم سے شاید کوئی نقصان ہوگا کہ اگر میں یا میرے گاؤں کی لڑکیاں اس اسکیم کے تحت کوئی لون لیں گی تو اگر ہم منافع نہ کما سکی تو کیا پتہ بینک ہمارے گھر کی زمین لکھ کر لے جائیگا کیونکہ آپ بخوبی جانتی ہیں کہ دیہی علاقوں کی خواتین کیسے لون لے کر روز گار کو بڑھاوا دے سکتی ہیں؟حالانکہ اگراُمید اسکیم کی ٹیم ہر گاؤں میں جا کر لوگوں کواس اسکیم کے بارے میں بیدار کرے تو ان کا سارا خوف نکل جائے گا جو انکو خوف آج تک انکے دلوں سے نہیں نکل رہا ہے ۔

کیا آپکو کسی بھی اسکیم کے بارے میں معلوم نہیں ہے؟اس سوال کے جواب میں مقامی زرینہ اختر عمر 23 سال، کا کہنا ہے کہ یہاں پر آ نگن واڑی سینٹر کے علاوہ کسی بھی اسکیم کے بارے لوگوں کو جانکاری نہیں ہے۔ منڈی بائلہ کے لوگوں میں اس سکیم کو لے کر بہت زیادہ خوف ہے اگر ان سب خواتین کو اس اسکیم کے بارے میں مکمل طور پر اطلاع دی جائے تو شاید وہ بھی اپنے اندر کی خوبی کو باہر نکالیں گی جو خوبی انکے اندر چھپی ہوئی ہے تا کہ وہ اس اسکیم کی وجہ سے آگے جاسکیں اور اس سے ان کی بے روزگاری بھی دور ہو جائے گی۔ انہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے گی۔ ہمیں ان عورتوں کے دلوں سے اس ڈر کو نکالنا ہے اور انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کرنی ہے کہ اس سکیم کی وجہ سے تمہیں کوئی بھی نقصان نہیں ہوگابلکہ اس کا فائدہ ہوگااور تمہاری زندگی میں تبدیلیاں آئنگی۔انہیں یقین دلانا ہوگا کہ یہ اسکیم خواتین کی اُمیدوں کو مکمل کرنے والی ہے۔ اگر ہم انہیں بہت ہی اچھے انداز سے اس سکیم کے بارے بتائیے تو شاید وہ بھی سمجھ جائیں گی اور وہ اس بے روزگاری سے دور ہو سکتی ہیں۔ اپنے بچوں کا مستقبل سنوار سکتی ہیں۔ نعیمہ اختر جو منڈی تحصیل میںاُمیداسکیم کی کلسٹر ہیں، انہوں نے اس ا سکیم کے بارے میں کئی عورتوں کوبیدار کر انہیں اس سے جوڑا ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ نہ صرف منڈی تحصیل بلکہ پورے جموں کشمیر میں منڈی سے اُمید اسکیم کے تحت گھر پر تیار کیا گیا سامان اچھے داموں پر فروخت ہو رہا ہے۔ جس سے خواتین کواچھی رقم بھی حاصل ہو رہی ہے۔

نعیمہ کے مطابق اس سکیم میں بہت فنڈ بھی آتا ہے۔ میں باقی عورتوں سے بھی گزارش کرتی ہوں کہ جنہیں اس سکیم کے بارے میں پتہ نہیں ہے وہ آئیں اور ہمارے ساتھ جڑیں۔ منڈی لورن کے علاقے میںکئی لوگوںاور خواتین نے اُمید اسکیم سے بہت اچھے اچھے روزگار شروع کیا ہے۔ لوگ اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ اب انہیں باہر جا کر مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بائلہ کی خواتین کو اس بہترین اسکیم کی جانکاری بھی نہیں ہے۔ جبکہ دیگر علاقہ کی خواتین اس کا بھرپورفائدہ اٹھا کر ترقی کی سیڑھی چڑھ رہی ہیں اور نہ صرف معاشی طور پر مضبوط ہو رہی ہیں بلکہ خود انحصار بھی بن رہی ہیں ۔اُمید کی جانی چاہئے کہ پسماندہ گھرانوں کی زندگی سنوارنے والی’اُمید اسکیم‘سے بائلہ کی خواتین کی زندگی میں بھی اُمید سے بھری تبدیلی آئے گی۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا