ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)
موبائل و واٹس اپ نمبر:9903651585
Email:[email protected]
’’یہ ہزار لوگوں کا جتھا خطرناک ہتھیاروں سے لیس اس گائوںمیں کیا کر رہا ہے!؟‘‘ رات نے آسمان پر روشن چندرما سے سوال کیا۔ ’’تمہیں نظر نہیں آرہا ہے کہ یہ خوںخوار جماعت انسانوں کی ہے جو ایک گائوں کو گھیر ے ہوئے ہے‘‘ چندر ما نے اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا’’ہاں میں بھی دیکھ رہی ہوں ، وہ سب کافی غیض و غضب میں نظر آرہے ہیں، آخر یہ بھی تو انسانوں کی ہی بستی ہے ، پھر یہ انسان، انسان کا اتنا دشمن کیوں بنا ہوا ہے!؟‘‘ ۔رات نے ذرا خوف زدہ ہو کر پھر چندرما سے سوال کیا’’تم نے انسانوں کی فطرت کو نہیں جانا ہے، وہ اپنی مفاد اورخود غرضی کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے، ایک دوسرے کا خون بہانے میں انہیں ذرا بھی عار نہیں ہوتا ہے‘‘ چندر ما نے انسانی تلخیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔
ایک نا موافق رونما ہونے والے خدشات کے خوف سے متاثر ہو کر رات اور چندرما کے درمیاں انسانوں کی بے رحمی و بے رخی پر گفتگو ہو رہی تھی کہ اتنے میں یہ بندوق بردار اور کٹاریوں سے بھری بھیڑ نے اچانک اس گائوں میں سونے والے مکینوں پر سفاکیت سے حملہ کر دیا۔’’ ارے یہ کیا ہو رہا ہے !؟ یہ تو اپنے بھائیوں کو قتل کرنا شروع کر دیئے ، انہیں ذرا بھی رحم نہیں آرہا ہے‘‘۔ رات نے دہشت زدہ ہو کر چندر ما کو کہا’’ تم خاموشی سے آگے دیکھتی جائو، یہ انسان اپنی استعماریت اور جارحیت کے لئے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہے‘‘۔ چندر ما نے خشمناک ہو کر کہا’’ یہ کو ن سی لڑائی ہے !؟جہاں انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بن گیا ہے‘‘ رات نے مایوسی سے کہا’’ اقتدار اور طاقت کی جنگ ہے، غاصبانہ قبضہ کرنے کی لالچ ، غلامی اور مطیع بنانے کا ناپاک ارادہ، حقدار کو حق سے محروم کرنے کی سازش، انصاف کا گلا گھونٹنے کا ایجنڈا، یہ زمین ان مظلوموں کی ہے، یہ پہاڑ، یہ گھنے جنگل ، یہ خوب صورت وادیاں، یہاں کی معاشی آمدنی میں پیدا ہونے والی قیمتی اشیائ، یہ سب ان قبائیلوں کا ہے ، یہ لوگ ان ہی جنگلوں اور پہاڑوں میں پیدا ہوئے ہیں، ان کی بنیادی شناخت کوہدف بنایا جا رہا ہے‘‘۔ چندر ما نے تلخ بھرے لہجے میں کہا۔
ان ہی چند لمحوں میں یہ جتھا آگ کی بھٹی کی طرح دہک اٹھا تھا۔ وہ چاروں طرف سے ان بستی والوں پر جان لیوا ہتھیاروں سے حملہ کر رہے تھے۔ آن کی آن میں خون کے فوارے ان معصوم سوئے لوگوں کے جسم سے نکل کر دھرتی کو لال کر دیا۔ کسی کو ایک کروٹ بھی لینے کی مہلت نہیں ملی۔ جو لوگ جاگ پڑے وہ اپنی جانیں بچانے کے لئے اس خوفناک اندھیرے میں گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے۔ تیز خنجروں نے ان کی گردنیں کاٹ ڈالیں۔ کچھ گولیوں کے شکار ہوئے۔ ساری بستی لاشوں کا ڈھیر بن گیا۔ ان پھوس کے مکانوں پر کسی نے بے رحمی سے ماچس کی تیلی دے ماری۔بچی کچی کسر نکل گئی۔ سارا گائوں دہکتا ہوا آگ کا دریا بن گیا۔ رات اور چندرما اس حیوانیت کے کھیل کو دیکھ کر زارو قطار رو رہے تھے۔ اچانک ان کی نگاہیں اس کالے اندھیرے میں رینگتے ہوئے چند سائے پر جا پڑیں جو اپنی جان بچا کر اس قیامت خیز حالات سے باہر نکلنا چاہتے تھے۔ رات اس کشت و خون کے ماحول میں اس بچی ہوئی فیملی کو دیکھ کر ٹھٹھک پڑی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا ۔اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو کچھ لمحوں کے لئے تھم گئے۔ بڑی امیدوں سے اس نے اپنے بہتے ہوئے آنسوئوں کو پونچھااور اپنے چندرما بھائی سے مخاطب ہو کر بولی’’دیکھو اتنی بڑی آفت میں اللہ تعالیٰ نے اس خاندان پر کسی طرح سے اپنی رحمت فرمائی ہے، یہ بیچارے اپنی جان بچائے بھاگے جا رہے ہیں، دعا کرو ان کے لئے ان غنڈو ں و موالیوں سے وہ کسی طرح بچ جائیں۔‘‘ ’’ہاں بہن! میں بھی تو یہی چاہتا ہوں کہ ان کالے ناگوں سے انہیں اللہ تعالیٰ اپنے امان میں رکھے‘‘ چند ر ما نے ایک انجانی امید سے کہا۔ دونوں مل کر اس چھوٹے سے کنبے کی زندگی کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ یہ کنبہ تھوڑی دیر میں ان خونخوار بلوائیوں سے آزاد ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ فیملی بھاگتی ہوئی کسی طرح سے محافظ دستوں کی نگرانی میں پہنچ گئی۔ پولیس انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر تھانے لئے جا رہی تھی۔ رات اور چندر ما دونوں اب بھی اپنی آنکھیں گڑائے انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ جنگل میں لگی آگ سے ایک سوکھی ٹہنی بھی بچ جائے تو قدرت کی طرف سے یہ ایک بہت بڑا کرشمہ ہے۔ پولیس وین میں یہ اجڑی ہوئی فیملی اب سکون کی سانس لے رہی تھی۔ ان کے چہرے پر ثبات جھلک رہے تھے۔ رات اور چندرما کو بھی اطمینان محسوس ہو رہا تھاجیسے آبی ہلکوروں میں کوئی ڈوبتا ہوا بچہ زندہ بچ جائے ۔
اپنی منزل پر گامزن یہ تیز رفتار چلتی ہوئی پولیس وین اچانک ایک پکی سڑک پر رک گئی۔ سامنے خوںخوار بھیڑیوں کا ہجوم کھڑا نظر آیا۔ جس کو دیکھ ر رات اور چندرما کی روح کانپ اٹھیں۔ ’’یہ کیا ہو گیا!؟ یہ کون سی نئی مصیبت اس کنبے پر آن پڑی۔ اللہ تو رحم فرما، ان انسانی بھیڑیوں پر تو عتاب نازل کر دے‘‘ یہ رات کے دل سے نکلنے والی بددعا تھی۔ پولیس اور شرپسندوں کے درمیان کھینچاتانی شروع ہو گئی۔ شر پسندوں نے ان محافظ دستوں پر اپنی بندوقیں تان لیں۔ انہوںنے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس مظلوم کنبہ کو پولیس کی گرفت سے چھین لیا۔ رات اور چندرما یہ منظر دیکھ کر ایک بار پھر رو پڑے۔ دونوں کے دلوں میں ہذیانی کیفیت پیدا ہو گئی وہ ایک ساتھ دعا کر رہے تھے۔ ’’اللہ تعالیٰ! ان معصوموں پر رحم فرما، ان کی جان بچالے۔‘‘ مگر قسمت منفی تھی۔ یہ انسانی بھیڑیئے اس خاندان کے دو خواتین پر اچانک جھپٹ پڑے۔انکے کپڑوں سے کھیلنا شروع کردیا۔ انہیں زبردستی برہنہ کرنا چاہا۔ رات یہ منظر دیکھ کر بے ساختگی سے چیخ پڑی جیسے اس کا وجود کا ستر کھُل رہا ہو۔ اس نے چندرما سے کہا’’ بھائی! یہ کیا ہو رہا ہے؟چند لمحوں میں یہ لڑنے والی پولیس،اب کیوں بے بس تماشائی بنی ہوئی ہے!؟ـ یہ تو بربریت کی انتہا ہے، کیا اس دیس میں ناریاں اتنی بے بس ہیں!!، لعنت ہے یہاں کی اقتدار حکمراں کے نظم و نسق پر‘‘۔
ابھی رات کا یہ جملہ پورا نہیں ہو اتھا کہ اس کنبہ کے باپ کو جو اپنی جواں سالہ بیٹی کی عزت و آبرو کو بچانا چاہتا تھا۔ موقع واردات پرہی ان قاتلوں نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسری مزاحمت بھائی کی جانب سے ہوئی اس بھی قتل کر دیا گیا۔ وہ سڑک ان مظلوموں کے خون سے رنگ گئی۔ آگے کا منظر نہ رات دیکھ سکی اور نہ چندرما اور نہ کائنات کی ہر ذی روح۔ اس جتھا نے ان دونوں خواتین کے ساتھ اجتماعی آبرو ریزی کی۔ انہیں برہنہ راستے پر پریڈ کرایا۔ رات اس قدر مغموم تھی کہ اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ اس نے بڑ ی مشکلوں سے چند رما کی طرف دیکھا اور کہا’’ بھائی ! کیا یہ وہی سیکولر ملک ہے جسے بابائے قوم نے اپنے لہو سے سینچا تھا، جہاں ہر ذات و ملت کے لوگوں کو جینے کی پوری پوری آزادی دی گئی تھی۔‘‘ رات کے اس سوال پر چندرما کے آنسوئوں سے بھری آنکھیں اُبل پڑیں۔ اس نے اپنی بہنا ، رات سے کہا’’ تم نہیں جانتیں اس ملک میں کیا کیا ظلم و ستم ہو رہے ہیں، انسانوں کی درندگی، حیوانوں کو بھی بیچ کر دی ہے، آئو میرے ساتھ ایک اور دل دہلانے والا سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، اس دیس میں منافرت وتعصب کی طاقتوں کی کس طرح سے پشت پناہی کی جارہی ہے جو اپنی درندگی و حیوانیت گہرے پنجے گاڑے ایک مانسٹر (Mosnter)بنتا جا رہا ہے، یہ دیکھو یہ زمین بھی اسی ملک کا ہی ایک انگ ہے، یہاں ایک قوم مندر میں گھنٹا بجا کر پوجا کرتی ہے، دوسرے مذہب کے لوگ اذان دیکر اپنی مسجدوں میں عبادت کیا کرتے ہیں، دونوں صدیوں سے اس ملک میں اخوت و محبت کے ساتھ مل جل کر رہتے چلے آرہے ہیں۔دیس کی آزادی کے بعد فرقہ واریت کی زہریلی کھیتی بھی یہاں کی نفرت کی جماعتوں نے خوب کی۔ آزادی کے ان چھہتر سالوں میں فرقہ پرستی کا پودا اب اس قدر مضبوط و تناور ہو چکا ہے کہ ان کی جڑوں سے گھن و عناد کی مسموم رسیں سارے ملک کو پراگندہ کر چکی ہیں، ہر طرف جئے شری رام، ایک ملک، ایک قانون کا نعرہ گونج رہا ہے، ایک خاص فرقہ جو کبھی اس دیس کی آزادی میں خون زار بنی ہوئی تھی، اس کی ہست و بود کو مٹانے کے لئے نفاق وعداوت کی بڑی بڑی فصیلیں چنی جارہی ہیں۔ اس بستی کے ہندو مسلم اب دو دھاروں میں بٹ چکے ہیں، ایک تنائو کا ماحول ہے، یہاں کی اذانی جماعتوں نے ملک سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے ، سینہ سپر ہو کر لڑیں تھیں، انگریزوں کے دانت کھٹے کر دیئے تھے، اپنی بہادری اور جانبازی کیلئے ایک لڑاکو قوم کی حیثیت سے اس ملک میں مشہور ہوئی۔ دین کی ہدایت پر چلنے والی سب بڑی اور استقامت پسند جماعت اسی مٹی کے کوکھ سے پیدا ہوئی جو ساری دنیا میں دین کی دعوت کیلئے اپنی پیٹھ پر لوٹا ،برتن، جانماز، معمولی سا بستر لادے، خاکساری کے لباس میں گھومتی رہتی ہے۔ اللہ کے دین پر عمل کرنے والوں سے یہاں کی مسجدیں مشک بار بنی رہتی ہیں، اپنے اپنے دین پر قائم رہنے کے باوجود یہاں ہندو مسلم سماج میں بڑا ہی یکتا تھا، ایک دن گنگا جمنی تہذیب کا یہ تمتما ہوا سورج فسطائی طاقتوں کی نذر ہو گیا۔ کچھ دن پہلے یہاں گئو رکھشکوں نے مسلم فرقوں کے دونوںنوجوانوں کو گائے تسکری کے الزام میں زندہ جلا دیا تھا، میری پیاری بہن! ایک ذرا مڑ کر دیکھو یہاں اکثریتی فرقہ کا ایک ’مذہبی یاترا‘ نکلا ہوا ہے، یہ ہجوم خنجر، بھالے، ترشول، لاٹھی اور ڈنڈے سے چمچما رہا ہے۔ ان کے نعروں میں صرف نفرتیں اور بغض و عناد کی گونج ہے جو مسلم فرقہ کوا گھات پہنچارہی ہے۔‘‘ رات ان انتہا پسندوں کے جوشیلے جلوس کو دیکھ کر ذہنی طور پر پریشان ہو گئی اسے سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ یہ یاترا چند لمحوں میں خون کی ہوتی کھیلنے والی ہے۔ چندر ما اور رات دونوںہی اس شدت پسند ہتھیار بند جلوس کے ہر بڑھتے ہوئے قدم پر اپنی تجسس بھری نگاہیں ڈالے ہوئے تھیں۔ ایک چوراہے پر پہنچ کر ان جتھوں کے نعروں نے آگ پر گھی کا کام کر ہی ڈالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ یاترا شعلوں میں بدل گئی۔ سڑکوں پر پڑی گاڑیاں دکانیں اور بازار پل بھر میں دھواں دھار جلنے لگیں۔ دونوں فرقوں میں دو بدو کی لڑائی شروع ہو گئی۔ رات نے بڑی درد سے کہا ’’ میرے چندرما بھائی !یہ ہمارے دونوں بھائی تو اسی ملک کے رہنے والے ہیں،ا سی مٹی میں ان کا جنم ہوا ہے ، ایک ہی گنگا کا جل دونوں ہی پیتے ہیں، دونوں کا رہن سہن بھی ایک سا ہے، کبھی اپنے ملک کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے کے لئے انہوں نے ایک بازو بن کر جنگ لڑی تھی، پھر یہ منافرت کی کیسی لڑائی لڑی جا رہی ہے!؟ یہ کسے قتل کرنا چاہیے ہیں؟!۔ کون ان کا دشمن ہے!؟، بھائی تو بھائی ہوتا ہے، ذرا دونوں اپنے خون کے رنگ کو ملا کر تو دیکھیں ،ان میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا‘‘۔’’ تم نہیں جانتی بہن!ایک طبقہ جس نے ملک کی تقسیم کو اس معنی میں قبول کرتا ہے کہ یہ ملک اب صرف اس کی اکثریت ذات کا ہے، وہی اس دیس کے مالک ہیں ،کسی دوسرے مذاہب والوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے، وہ انہیں ملک چھوڑنے کی دھمکیاں دیتے ہیں ان کاکہنا ہے انکا ٹھکانہ سر حد پار ہے، دراصل یہ اس ملک کی اقلیتوں پر ایک غیر منصفانہ اور تشدد آمیز نشانہ ہے، ملک کی تقسیم کے بعد ایک آئینی دستور میں یہاں سبھی مذاہب کے لوگوں کو جینے کا حق حاصل ہے، یہ ملک سیکولر قانون کی ترجمانی کرتا ہے، کسی بھی فرقہ کی بنیادحقوق کی پامالی نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ اس کی نسل کشی کی جا سکتی ہے!!، لیکن یہ سب حقوق اور آئین کی باتیں قانون کی کتابوں میں بند ہو کر رہ گئیں ہیں، ابھی دیکھو رات کے اندھیرے میں یہ جتھا کون سا گل کھلاتا ہے!؟چندر ما نے رات کو اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ یہ دہکتا ہوا شہر، اتنی املاک کا نقصان ، کیا پھر بھی ان خون کے پیاسوں کا دوزخ بھرا نہیں!؟‘‘ رات نے گھبرا کر چندرما سے سوال کیا’’ تمہاری آنکھوںنے اس سے پہلے ایک خونی تماشہ دیکھ چکا ہے۔ ایک ہجوم نے دو خواتیں کا کھلے عام ریپ کیا، انہیں ننگا پریڈ کرایا، یہاں تو تم نے ابھی آتش زنی اور املا ک کازیاںدیکھی ہو، اس طرف تھوڑی نگاہ ڈالو، یہ ہتھیاروں سے تیار بھیڑ کتنی جوش و خروش سے اپنی منافرت کے نعروں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے‘‘۔چندرما نے اس خوفناک جلوس کا محاسبہ کرتے ہوئے کہا’’ارے یہ تو بلوائی کسی خاص فرقہ کے مذہبی عبادت گاہ کی طرف جا رہے ہیں، اچھا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، اس عبادت گاہ کے ارد گرد پولیس والے پہلے ہی سے پہرہ دے رہے ہیں۔‘‘ رات نے کچھ امید سے یہ بات کہی ’’ہاں قانون کا انتظام تو ٹھیک ہے، اللہ نہ کرے کوئی بڑی مصیبت ان پر آن کھڑی ہو جائے!‘‘چندرما نے کچھ گھبراہٹ سے کہا ’’ہائے یہ تو غضب ہو گیا!، یہ پولیس والے کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں، پتھر کی مورت بنے چپ چات کھڑے ہیں ، یہ دیکھو مسجد کی کرنٹ کاٹ دی گئی، اس کا گیٹ توڑ دیا گیا، وہ سب اندر گھس گئے ، مجھے اس اندھیرے میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے، یا اللہ رحم فرما اس مسجد کے رکھوالوں پر ، چندرما میرے بھائی!۔۔۔میں یہ اندوہ ناک منظر نہیں دیکھ سکتی ہوں ، انہوںنے مسجد کے امام کر پکڑ لیا ہے،ارے کوئی ہے جو انہیں بچائے!؟،یا اللہ رحم فرما۔۔۔یا اللہ رحم فرما۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رات زارزار رونے لگی۔
دوسگے دن صبح کے اخبار میں یہ خبر جلی حرفوں میں چھپی ہوئی تھی۔ دو فرقوں کے تصادم میں ایک مسجد کے امام کو چھرا گھونپ کر شہید کر دیا گیا۔ رات و چندرما کے آنسوئوں نے اس ملک کے اعتدال پرست اور بھائی چارہ کے علم برداروں کو ماتم کناں بنا دیا۔
ان سانحات کے بعد ایک دن،غم سے نڈھال رات اور چندر ما نے اس شب خون کے بارے میں اپنے بھارت ماتا سے سوال کیا ’’ کیا تونے اسی ظلم و استبداد کے لئے انگریزوں کی غلامی سے اپنی آزادی حاصل کی تھی، ان چھہتر سالوں میں تیرا وجود فرقہ واریت کے کشت و خون سے لہو لہان ہو چکا ہے، ہمیں یقین ہے اگرتو انگریزوں کی غلامی کے طوق میں ہوتی تو شاید اتنی نفرتوں اور شعبدہ بازیوںکی طاقتوں کو اپنی گود میں پنپتی ہوئی نہیں دیکھتی، آج بے گناہوں کے قتل سے تیرا دامن خون سے رنگ چکا ہے، نہ جانے تیرے ماتھے سے ان فسطائی طاقتوں کا چپکا ہوا سیندور کب اجڑے گا!!، اگر تیری گود میں عدل کا ویر پیدا نہیں ہوا تو ایک دن تو بھی ویسے ہی برہنہ ہو جائو گی جیسے تمہاری ماں ، بہنیں اور بیٹیا ںاس دیس میں حیوانی طاقتوں کے تلے بے ستر ہوئی جارہی ہیں‘‘۔
ان چبھتے سوالوں کا جواب بھارت ماتا کے پاس نہ تھا۔ اس نے بس دست بستہ یہی کہا’ میں ایک آہ بھری جمہوریت ہوں!!‘