یواین آئی
نئی دہلی؍؍انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کے جنرل ڈائریکٹر ہیمانشو پاٹھک نے آج کہا کہ ملک زراعت کی ترقی کے بغیر ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا ہے۔ڈاکٹر پاٹھک نے کونسل کے 94ویں عام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زراعت کے شعبے میں ترقی کا کام تیزی سے کرنا ہوگا اور اس کے لئے ریسرچ میں تیزی لانی ہوگی تبھی نئی تکنیک تیار کی جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ ریسرچ پر پیسہ خرچ ہوتا ہے تو اس سے دس روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ 2047کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے نئے تجربات شروع ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خالی عہدوں پر تقرری کی جا رہی ہے اور زراعت کی توسیع کے دائرے میںاضافہ کیا جا رہا ہے۔ سائنس کسانوں اور مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ 15تحقیقی ادارے ایک ہب کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تحقیق پر پیسہ کم ہو رہا ہے لیکن 2023-24کے بجٹ میں اسے 17فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ڈاکٹر پاٹھک نے کہا کہ 2047 تک اناج کی پیداوار 52کروڑ تک اضافہ کرنے کا ہدف تعین کیا گیا ہے۔ اسی تناسب میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوارمیں بھی اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی کھیتی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اس کے لئے 40ہزار کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔ کل سولہ ریاستوں میں سائنسی طریقے سے قدرتی کھیتی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار پانچ دہائی کے دوران زراعت کے ہر شعبے میں انقلاب آیا ہے۔ اس بار کھانے کے اناج کا ریکارڈ پیداوار ہونے کی امید ہے۔ باغبانی فصلوں کی پیداوار 34کروڑ ٹن سے زیادہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلینچ سے نپٹنے کے لئے ٹیکنالوجی حاصل کر لی گئی ہے۔ گرین ہاؤس گیس پیداوار گھٹ رہا ہے جو بہت اہم ہے۔ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ بریڈر سیڈ کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے کچھ فصلوں کے بیج کو 90فیصد بدلا جا رہا ہے۔ تلہن میں خود کفالت ابھی چیلنج ہے جس سے نپٹنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔زراعت کا مشینی کاری کی جا رہی ہے اور جانوروں کے صحت کے سلسلے میں ٹیکے تیار کئے جا رہے ہیں۔ ڈرون کا استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے جس سے زراعت کی لاگت کو کم کیا جا سکے۔