سیدہ تبسم منظور ناڈکر، ممبئی’
دور کہیں ایک گیت بج رہا تھا۔۔۔۔۔’’ کہ بھولی داستان لو پھر یاد آگئی۔۔۔‘‘
اکیلے پڑے پڑے پریشان ہورہے تھے تو تھکے ہارے قدموں سے لکڑی کے سہارے لڑکھڑاتے ہوئے گیلری میں آ بیٹھے تھے۔۔۔۔۔آسمان پر لالی چھائی تھی۔۔۔۔۔ سورج سمندر کی آغوش میں جانے کے لئے بیقرار تھا۔۔۔۔۔پنچھی اپنے ا?شیانوں کو لوٹ رہے تھے۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ رات کی کالی گھٹائیں پھیلنے لگی۔۔۔۔اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔ کچھ تھا جو اس کی روح تک کو گھائل کررہا تھا۔۔۔۔پر کیا؟؟؟
سمجھ ہی نہیں آتا۔۔۔۔۔کئی سال گزرنے کے باوجود۔۔۔۔ایک درد ایک کسک سی کیوں ہے؟؟؟
کیوں دل بے چین ہے۔۔۔۔۔کیوں سکون نہیں… ہر طرف یاس سی چھائی ہے۔۔۔۔۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔پلکوں کی دہلیز پر کچھ خواب ادھورے۔۔۔۔۔کچھ ادھوری خواہشیں۔۔۔۔۔ کچھ بکھری بکھری تمنائیں۔۔۔۔ قطرہ قطرہ بن کر ٹپکنے لگے۔۔۔۔اور ہم درد کے پیاسے صحرا میں بھٹکنے لگے۔ یادوں کے جھروکوں سے کچھ یادیں ہوا کے جھونکے کی طرح دل کو مسرور کر رہی تھی تو کچھ تپتی دھوپ کی طرح جسم کو جھلسا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ یادوں میں ماضی کے گزرے لمحے صدیاں بن جاتے ہیں۔۔۔۔اور وہ صدیاں ماضی کے اِن ہی دریچوں میں روشن دیوں کی طرح ہمیشہ جلتے ہی رہتے ہیں۔۔۔۔کچھ جانے پہچانے سے ڈراونے چہرے ایک ایک کر کے ابھرنے لگے۔۔۔۔۔ ہم کون ہیں کیا نام ہے ہمارا۔۔۔۔۔ ایک آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔۔
’’شمع!!!! اری او شمع!!! ‘‘
شاید والدین نے نام بھی اس لئے شمع رکھا تھا کہ بس ساری زندگی جلنا ہے۔۔۔۔ جلتے رہنا ہے۔۔۔۔اور روز جل کر قطرہ قطرہ پگھلنا لکھا ہے۔۔۔۔آواز جب ہمارے کانوں سے ٹکرائی تو ہم نے جلدی سے کہا۔۔۔۔’’جی امی ابھی آتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘
ہمارا روز کا معمول تھا کہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم پڑھائی کرنے بیٹھ جاتے۔۔۔۔جس جگہ ہم بیٹھتے تھے وہاں ایک کھڑکی تھی اور وہ مین روڈ کی طرف کھلتی تھی… ہم روزانہ ایان کو صبح وہاں سے گزرتا دیکھتے… آج صبح ہی ایان نے ہمیں گلاب کا پھول دیا۔۔۔ہم نے ان کے ہاتھ سے لیا اور کتاب میں رکھ لیا۔۔۔اور امی کے بلانے پر چلے گئے۔۔۔۔تیار ہوکر کالج جانا تھا۔۔۔۔۔ہمارے بارہویں کے امتحان ہونے والے تھے۔ اور ایان شاید فسٹ ائیر میں تھے. یہاں اب روزانہ ایان کا معمول بن گیا وہ روز ایک گلاب ہمیں دے کر جاتے۔۔۔۔کچھ کہتے بھی نہیں تھے بس مسکرا دیتے۔۔۔۔بدلے میں ہم بھی مسکرا دیتے۔۔۔۔۔کئی دنوں تک یہ سلسلہ رہا نہ انھوں نے کچھ کہا۔۔۔اور نا ہماری کچھ سمجھ آیا۔۔۔۔پر جب بھی ہم ان کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے تو جسم میں ایک لہر سی دوڑ جاتی۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا…دونوں طرف خاموشی تھی…. ہمارے امتحانات بھی ختم ہوگئے…. پھر وہ امتحان میں مصروف ہوگئے. ہمارے یہاں ہمارے بہن بھائیوں کے امتحانات ختم ہونے کے بعد ہم سب اپنے ننہیال جاتے۔ پوری چھٹی وہیں گزرتی….کالج اسکول کھلنے سے ایک ہفتہ پہلے آجاتے. سب کے رزلٹ لگ چکے تھے…ہمارا بورڈ تھا اس لئے رزلٹ آنے میں وقت تھا.ایان بھی چھٹی میں اپنے ماما کے پاس گئے تھے…. اسکول کالج شروع ہوگئے سب اپنے اپنے ٹھکانے واپس آگئے…. ہمارا رزلٹ بھی آ گیا… ہم سیکنڈ کلاس سے کامیاب ہوئے تھے… جس کالج میں ایان پڑھتے تھے ہمارا داخلہ بھی وہی ہوا… اب یوں ہونے لگا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہوتا… دعا سلام ہوتی…..آہستہ آہستہ دونوں میں دوستی ہونے لگی….ہم تو انہیں اپنا دوست ہی سمجھتے رہے لیکن ان کے دل میں کچھ اور تھا… وہ دور سے بھی ہمیں دیکھا کرتے ہماری ایک ایک بات ایک ایک حرکت… ہماری پسند نا پسند سب پتہ کر لی. ہمیں کچھ نوٹس تیار کرنے تھے…
ہم کالج کی لائبریری میں کافی دیر تک بیٹھے تھے… کالج کے باہر ایک چھوٹا باغیچہ تھا… وہاں بیٹھنے کے لئے جگہ جگہ بینچ تھے… ایان وہیں پر ہمارا لائبریری سے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے…. جیسے ہی ہم لائبریری سے نکلنے انہوں نے آکر راستہ روکا… اور ہم سے کہا. ’’شمع!! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
’’ ہاں کہئیے… کیا کہنا ہے آپ کو؟‘‘
’’یہاں نہیں… چلو تھوڑی دیر وہاں چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔ ہمیں پہلے ہی دیر ہوگئی ہے۔‘‘
’’صرف پانچ منٹ شمع! میری بات سنو پھر چلی جانا.”
’’اوکے ٹھیک ہے… چلیں ‘‘
’’ شمع۔۔۔۔۔!! ‘‘آواز میں اتنا درد تھا کے ہم ان کے چہرے کے طرف دیکھے بنا نہیں رہ سکے. ’’شمع !میں گھما پھرا کر کوئی بات نہیں کرونگا… میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں.!! پاک اور سچی محبت… مجھے تمہاری روح سے محبت ہے۔‘‘
’’ کیا؟؟؟ ‘‘شمع کے منہ سے چیخ نکل گئی۔‘‘
’’ہاں شمع! میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں… آج سے نہیں پانچ سال سے لیکن کبھی کہہ نہیں پایا…. آج ہمت کرلی۔‘‘
’’دیکھیں ایان! ابھی ہمیں پڑھائی پر دھیان دینا ہے… پیار محبت۔۔۔۔۔ان چکروں میں پڑ کر ہم اپنا کیرئیر برباد کریں گے. ہم سے نہیں ہوگا یہ سب… ‘‘
’’شمع!! کوئی جلدی نہیں سوچ لو… لیکن اگر تم مجھے نہیں ملی تو میں پاگل ہو جائوں گا… یا مر جائوں گا. ‘‘
’’یہ کیسی باتیں کررہے ایان آپ؟ ‘‘
’’نہیں جانتا!!‘‘
’’ہم ابھی جارہے ہیں!!!‘‘
’’چلی جائو مگر مجھے جواب چاہیے ورنہ میں خود کو ختم کردوں گا.!!! ‘‘
شمع نے ایک نظر ایان پر ڈالی اور وہاں سے چل دی… کیا بلا کا درد تھا آواز میں… چہرے پہ ایک اداسی تھی. گھر پہنچے تو امی نے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھی. تو ہم نے کہہ دیا لائبریری میں تھے. ہمیں رہ رہ کر ایان کی باتیں یاد آرہی… ایک بے چینی سی تھی… ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا…بہت تذبذب میں تھے. دوسرے دن کالج پہنچے تو سامنے ہی ایان اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے… لیکن ہم نظریں بچا کر نکل آئے… مگر پھر بھی ایان نے ہمیں دیکھ لیا….اسی طرح دو تین دن گزر گئے… آج پھر ایان نے ہمارا راستہ روکا اور ہم َسے جواب طلب کیا…
’’ایان!!! ہم…. ہم… آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے…. اسے وقت کے حوالے کر دیں۔‘‘
’’نہیں شمع۔ میں نے پانچ سال تمہارا انتظار کیا ہے اب اور میرا امتحان نا لو…. میرے لیے تم بہت خاص ہو… تم واحد وہ لڑکی ہو جس کے لیے مجھے رات بھر جاگنے میں کوئی اعتراض نہیں…. ہاں صرف تم جس سے میں بات کرتے ہوئے کبھی تھک نہیں سکتا… تم کو کھونے سے میں ڈرتا ہوں تمہارا خیال میرے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے…تمہارے بغیر میں جینے کا سوچ بھی نہیں سکتا… تمہارے ساتھ میں آخری سانس تک سفر کرنے کا خواہشمند ہوں. پلیز شمع منع مت کرنا. ‘‘
ہم ایان کی بات چپ چاپ سنتے رہے اور اندر ہی اندر موم کی طرح پگھل رہے تھے….اور کب ایان ہمارے دل کے سارے دروازے کھول کر سب سے اونچی مسند پر جا بیٹھے… بنا پوچھے، بنا بتائے، بس آئے اور پورے وجود پر چھا گئے….اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا۔ آہستہ آہستہ ہم ایکدوسرے کے قریب آگئے….ہر آتے دن کے ساتھ ہماری محبت بڑھتی رہی ہماری ملاقات صرف کالج میں ہوتی….کالج سے باہر نہ ہم کبھی ملے نا انہوں نے کبھی کہا….دن بھر ایک دوسرے سے باتیں کرنا یا ملنا ضروری نہیں… ہم ایک دوسرے کے دل میں بسے تھے… ہمیں اپنی حد پتہ تھی اور انہیں اپنی…. وہ کبھی بھی ہماری بدنامی نہیں چاہتے تھے…لیکن پیار اور خوشبو کہاں چھپتے ہیں….دن ہفتے مہینے سال گزر گیا… ہمارے پیار کی خوشبو دور تک پھیلنے لگی… اور یہ خوشبو ہمارے گھر تک پہنچ گئی…. ہم سیکنڈ ائیر میں اور ایان فائنل میں تھے… ایان تو نہ کسی سے ڈرتے نہ کسی کی پروا تھی… ان کے ماں باپ کے بعد ان کی دنیا ہم پر ختم ہوجاتی… انہوں نے اپنی امی سے ہماری بات بھی کر لی…..لیکن جب ہمارے گھر میں پتہ چلا تو….امی نے کچھ کہا تو نہیں مگر ہم پر زیادتی شروع ہوگی… نظر رکھی جانے لگی…ہم دونوں اپنی آنے والی زندگی کے سپنے بننے لگے….اور ہمارے گھر میں ہماری بربادی کی تدبیریں شروع ہوگئی… ایان ہمیشہ ہم سے کہتے تم میری زندگی ہو… میں تمہیں بے شمار خوشیاں دونگا…. کبھی تمہارے پیر زمین پر نہیں پڑھنے دوں گا۔
اب ہمارا کالج میں آخری سال تھا اور ایان نے دوسری یونیورسٹی میں داخلہ لیا… اب ہماری باتیں ملاقاتیں نہیں ہو پاتی تو ہم ایک دوسرے کو کاپیاں پاس کرتے جس میں ہم ان سے وہ ہم سے دل کی بات کہتے… کئی قسمیں وعدے ہوئے….وقت کے تیز دریا میں دونوں کے پیار کا سفینہ ابھی کچھ ہی دور چلا تھا کہ اچانک طوفان کی لپیٹ میں آگیا۔ حالات نے ایک کروٹ لی۔…ہماری پڑھائی روک دی گئی…ہمارے امتحانات ختم ہوتے ہی فرمان جاری کردیا گیا کہ تمہارے لئے رشتہ دیکھ لیا گیا ہے… مہینے بعد شادی ہے…اس وقت شادی بیاہ کے بارے میں لڑکیوں کا کچھ کہنا معیوب سمجھا جاتا….ہم بہت روئے ،بہت تڑپے منتیں کی پر ہماری ایک نہ سنی کسی نے…..اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر دعائیں مانگیں. جانے اللہ کو بھی کیا منظور تھا… ہم مچھلی کی طرح تڑپتے رہ گئے…. ایان کو جب پتہ چلا تو انہوں نے بھی ہمارے گھر والوں سے بہت منتیں کی پر کسی کے دل میں ذرا سا بھی رحم نہ آیا….اور وہ دن بھی آگیا جب ہم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے…اور ہماری شادی ہم سے دس سال بڑے آدمی سے کر دی گئی….دوسرے شہر شادی ہوکر گئے تھے اس لئے پگ پھیرے کی رسم چار دن بعد ہوئی تھی…چار دن تک ہم جب سسرال میں تھے… تو ہم نے شوہر سے کہا کہ ہم ناپاک ہیں…اس لئے وہ ہمارے قریب نہیں آئے…
چار دن بعد شوہر لینے آنے والے تھے. ادھر شادی کی بات سننے کے بعد سے ہی ایان ڈیپریشن میں چلے گئے تھے…. شادی کے بعد تو ان پر دوڑے پڑنے لگے…نہ دن کو سکون تھا نا راتوں کو نیند تھی… بس وہ پاگلوں کی طرح ہمارا نام لیتے….جب ہمیں اس بات کا علم ہوا ہم افسوس کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔۔۔ہمارے شوہر ہمیں کار لے کر لینے آئے…دوپہر کے کھانے پر پہنچے تھے…کھانا وغیرہ کھا کر باتوں میں مصروف ہوگئے… ہم کسی بھی طرح ان کے ساتھ جانا نہیں چاہتے تھے… ہمیں سب سمجھا رہے تھے… ہمیں کہاں کچھ سمجھ آرہا تھا… ہمیں سب سے نفرت سی ہونے لگی…. ہمیں لگا کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں ہے ہمارے ساتھ… مگر اللہ نے بھی تو اس شادی کو ہونے دیا تھا… پھر بھی ہم نے اللہ کا دامن نہیں چھوڑا ہم گڑ گڑا کر اللہ سے دعائیں مانگتے رہے…عصر کی نماز پڑھ کر نکلے… سردی کا موسم تھا۔رات بہت جلدی ہوجاتی ہے….رات نے اپنی کالی گھٹائیں چاروں طرف پھیلا دی…. ہم باہر ہی دیکھے جارہے… شہر سے باہر نکلے تو اسٹریٹ لائٹ بھی نہیں تھی… دونوں ہی خاموش تھے… ہم اپنی سوچوں میں گم اور وہ اپنی…. اچانک ایک تیز رفتار ٹرک آکر کار سے ٹکرایا….. اس کے بعد جو ہوا….. رات کا وقت تھا اندھیرے میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا….ہمیں تھوڑا سا ہوش تھا… ہمیں اتنا یاد ہے کے کافی وقت گزرنے کے بعد ہم دونوں کو دوچار لوگوں نے مل کر اسپتال پہنچایا تھا.
چھ ماہ تک ہم کومامیں رہے ہماری سب سے عزیز ،ہماری راز دار سہیلی ہر وقت ہمارے ساتھ تھی.جب ہمیں ہوش آیا تب ہماری سہیلی اور ہماری بہن ہماریپاس تھے… اسی وقت ہمیں پتہ چلا کہ چھ ماہ سے اسپتال میں ہیں..ہماری سہیلی رخسار دوڑ کر گئی اور ڈاکٹر کو بلایا انہوں نے چیک آپ کیا اور بتایا کہ اب ہم خطرے سے باہر ہیں…. مگر ہم بہت کمزور ہوگئے تھے. ہم نے اپنی سہیلی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا مگر انہوں نے نظریں چرالی اور ہم سے گلے لگ کر خوب روئی… ہم سے کچھ چھپانا چاہتی تھی…. ہوش میں آتے ہی سب دیکھنے اارہے تھے. مگر ہم تو کچھ اور جاننا چاہتے تھے…ہمیں سب کی جھوٹی ہمدردی نہیں چاہیے تھی… امی بھی گلے لگ کر روئی ،بہنوں نے بھی گلے لگایا… لیکن ہمیں کسی سے مل کر کوئی خوشی نہیں ہوئی….جب ہماری نظر ابو پر پڑی تو ہم اٹھنا چا رہے تھے ،دوڑ کر گلے لگ کے خوب رونا چاہتے تھے… مگر ہمارا پیر…. اف خدایا… یہ کیا ہوا… کبھی ہم اپنے پیر کو دیکھتے ،کبھی ابو کی طرف دیکھتے۔ وہ خود آئے اور ہمیں گلے لگایا… ہم ابو کے گلے لگ کر خوب روئے… ساری شکایتیں ان سے کر لی…بس ابو نے اتنا کہا.. ’’بیٹی صبر کرو…اللہ سب جاننے والا ہے۔‘‘ ہمارے ابو افریقہ میں جاب کرتے تھے۔ انہیں ان سب باتوں کی کوئی خبر نہیں دی گئی تھی…یہ سب ہماری امی اور کچھ رشتے داروں کا کیا دھرا تھا. ابو نے ہمیں دلاسہ دیا کہ اب میں آگیا ہوں سب ٹھیک کردوں گا. تم بس ٹھیک ہوجائو. کافی دیر تک سب تھے… پھر سب ایک ایک کر کے چلے گئے. دوسرے دن جب ہماری سہیلی رخسار ہم سے ملنے آئی اس وقت ہم کمرے میں اکیلے تھے اسی وقت بہن آکر ناشتہ وغیرہ کرا کے چلی گئی تھی۔
"السلام علیکم میری جان!!! کیسی ہو؟”
"وعلیکم السلام رخسار!! ٹھیک ہیں بہت کمزوری محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
’’ رخسار! کل آپ نے نظریں کیوں جھکالی تھی؟ ‘‘
’’نہیں کچھ نہیں شمع! بس یوں ہی… تم اتنے مہینوں کے بعد ہوش میں آئی تو ہمارا دل بھر آیا!! ”
’’ نہیں رخسار !آپ ہمیں اور ہم آپ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں… کوئی بات ہے جو آپ ہم سے چھپا رہی ہیں…اب آپ ہمیں سب کچھ سچ بتائیں گی کہ ان چھ مہینوں میں کیا ہوا؟؟ ایان کہاں ہیں؟؟ کیسے ہیں؟ ہمارے شوہر کہاں ہیں؟ ‘‘
’’کیا بتائوں؟ کیسے بتائوں؟ قسمت کی ستم ظریفی کہوں یا۔۔۔۔۔‘‘
بات ختم ہونے سے پہلے ہی شمع نے پوچھا… ’’کیا بات ہے رخسار؟ ہمیں بتائیں جو بھی ہے. ہم سنیں گے…َاور اب ہمیں کچھ نہیں ہوگا جو ہونا تھا ہوچکا…..ہمارا ایک پیر کٹ چکا….اس سے برا اور کیا ہوگا رخسار!!!‘‘
رخسار، شمع کے سرہانے کرسی پر بیٹھی تھی… اس کی نظریں نیچی تھی… ’’کیسے شروع کروں اور کہا ںسے… جب تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا… تم نیم بے ہوشی میں تھیں۔ تمہارا پیر کافی زخمی تھا اور تمہارے سر پر گہرا زخم تھا… تمہارے شوہر کی حالت تشویشناک تھی…. بہت علاج ہوا مگر ان کو نہیں بچا سکے۔ دو دن بعد ہی انہوں نے دم توڑ دیا… ‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
’’ہاں شمع!! ‘‘رخسار نے کہا، ’’اللہ ان کی مغفرت کرے۔‘‘
شمع نیپوچھا، ’’ ایان کہاں ہیں؟‘‘
’’ تم چھ مہینے بے ہوشی میں تھیں مگر صرف تمہاری زبان پر ایان کا نام تھا… تم بے ہوشی میں بھی اس کو ہی یاد کر رہی تھی… ڈاکٹر نے کئی بار تمہارے گھر والوں سے کہا کہ یہ جن کو یاد کر رہی ہیں ان کو بلایا جائے… مگر تمہارے گھر والوں کی انا ،ان کا غرور کہاں اجازت دیتا. ایک دن میں ایان کے گھر گئی…کہ ایان کو تمہارے پاس لاسکوں مگر وہ بستر پر تھے….بالکل لاغر سے۔۔۔۔مجھے بھی نہیں پہچانا۔بس وہ ایک ہی بات کہہ رہے تھے… میری شمع کہاں ہے؟ مجھے میری شمع کے پاس جانا ہے…ان کی ماں بتا رہی تھی کہ یہ نہ کچھ کھاتے نہ سوتے ہیں… ڈاکٹر علاج کر کے تھک چکے… روزانہ دو دو تین تین نیند کے انجیکشن لگتے ہیں. وہ لانے کی حالت میں نہیں تھے. یہاں تمہاری حالت خراب تھی… تم ایان کو یاد کر رہی تھی اور ایان تم کو….‘‘
’’رخسار! ہمارے ابو تو ایسے نہیں ہیں… کیا وہ نہیں گئے ایان کے پاس؟ ‘‘
’’ تمہارے ابو یہاں نہیں تھے ان کے آنے سے پہلے ہی… ایک ماہ پہلے نیند کا اوور ڈوز ہونے کی وجہ سے ایان بھی اس ظالم دنیا کو چھوڑ گئے۔‘‘
شمع کا رو رو کر برا حال ہو رہا تھا
. جب ایان کے جانے کی خبر سنی تو پاگل سی ہوگئی اور پھر بے ہوش ہوئی….. رخسار ڈر گئی… فوراً ڈاکٹر کو بلایا… ڈاکٹر نے چیک کیا انجیکشن لگایا… وجہ پوچھی بے ہوشی کی تو رخسار نے بتا دیا. ڈاکٹر نے کہا ڈرنے والی کوئی بات نہیں ہے انہیں گہرا صدمہ لگا ہے۔ہو سکتا ہے دوچار گھنٹے میں ہوش آجائے یا پھر ہمیشہ کے لئے کوما میں چلی جائے۔ رخسار ڈر گئی تھی کہ اب اس کے گھر والوں سے کیا کہیں گی۔
’’شمع۔۔۔۔۔۔ شمع!!!!! ‘‘رخسار نے آکر اسے جھنجھوڑا تو شمع کو لگا تب کی بے ہوش ہوئی ابھی ہوش میں آئی۔۔۔۔۔۔
’’ یہاں کب سے بیٹھی ہو… رات ہوگئی…. ملازمہ نے آکر بتایا کہ تم بہت دیر سے گیلری میں بیٹھی ہو… اس نے تم کو کئی بار آواز لگائی۔جب تم نے کوئی جواب نہیں دیا تو مجھے آکر بتایا تو میں دوڑی چلی آئی۔ ‘‘
’’ہاں رخسار !ہم اپنے ماضی میں کھو گئے تھے….پندرہ سال ہوگئے ہم ابھی تک زندہ ہیں… ایک ایان تھے جو ہمارے بغیر چھ ماہ بھی نہ رہ سکے…اور ہم یہاں تنہا زندگی بتا رہے ہیں… وہ تو بھلا ہو…ساس سسر کا جو انہوں نے ہمیں یہ گھر دیا رہنے کے لئے ہمارے نام اکائونٹ میں رقم سیو کی اور ہر ماہ خرچہ دے رہے ہیں… جب کہ ہم چار دن کی دلہن تھی… کسی پر ہمارا نام نہیں تھا….پھر بھی ان نیک لوگوں نے ہمارے شوہر کی جائیداد میں سے اتنا تو ہمارے لئے کیا. اور تم نے اتنے سالوں تک ہمارا ساتھ دیا… یہاں تک ہمارے بازو والا فلیٹ خرید لیا تاکہ ہمارے ساتھ رہ سکو…اپنوں سے تو ہمیں نفرت ہوگئی ہے. صرف ہمارے ابو ہمارے غم گسار تھے… وہ بھی ہمیں چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے۔
ہم پوچھنا چاہتے ہیں ان سب میں قصور کس کا تھا؟
ہم نے کیا گناہ کیا؟
ایان نے کیا گناہ کیا؟
کیا کسی سے سچی محبت کرنا اور پھر اس سے شادی کی کوشش کرنا گناہ ہے؟ ‘‘
٭٭٭٭٭