سیدہ تبسّم منظور ناڑکر
ممبئی 9870971871
- عصر کی نماز ادا کرکے مجھے اپنی سہیلی کے گھر جانا تھا – گھر سے باہر نکلی تو ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ سہیلی کے گھر پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہونے لگا کہ شام رات کی آغوش میں جانیکے لیے بے تاب ہوگئی ہے۔ سہیلی کے گھر پہنچ کر سب سے پہلے مغرب کی نماز ادا کی اور ہم دونوں سہیلیاں باتوں میں مشغول ہوگئیں۔ چائے ناشتہ کرکے میں نے اپنی سہیلی سے کہا ، ’’ چلو رخسار ! ذرا باہر چہل قدمی کرکے آتے ہیں۔‘‘ اس نے بھی فوراً حامی بھر لی اور ہم باہر نکل آئے۔ رات ہر طرف اپنا پہرا لگا نے لگی تھی مگر افق سے ابھرتا چودھویں کا چاند ہر طرف اپنا نور بکھیرنے لگا تھا۔ جس جگہ ہم چہل قدمی کر رہے تھے اس کے عین سامنے سڑک کے اس پار ایک خوبصورت اور عالیشان درگاہ بنی ہوئی تھی۔ درگاہ سے مسجد جڑی ہوئی تھی اور اس کے باہر بڑا سا صحن بھی تھا۔صحن میں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اْن میں مرد ، عورتیں ، بچے سب شامل تھے۔ بچے کھیل کود میں مصروف تھے اور مائیں اپنی سہلیوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔ لوگ درگاہ کے اندر جا رہے تھے اور باہر نکل رہے تھے۔ میری نظریں اسی طرف لگی ہوئی تھیں اور میں ہر چیز کا جائزہ لے رہی تھی۔ اچانک میری نظر گیٹ کے باہر کھڑے ایک ضعیف ا?دمی پر پڑی۔ سفید داڑھی ، نورانی چہرہ والا وہ آدمی سفید رنگ کا کرتہ پائجامہ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ان کے لباس اور چہرے کی وجاہت بتارہی تھی کہ وہ کسی اچھے خاندان سے ہیں۔ وہ ہر آے جانے والے سے کچھ کہہ رہے تھے پر کوئی بھی ان کے پاس نہیں رک رہا تھا۔ بس لوگ آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی مانگنے والے ہوں اس لئے لوگ ان کی باتوں کو ان سنی کر کے آگے بڑھ رہے تھے۔ میں دور کھڑی تھی اس لیے ان کی آواز مجھ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔مجھے بڑا تجسس ہوا مگر میری سمجھ نہیں ا? رہا تھا کہ وہ لوگوں سے کیا کہہ رہے ہیں۔ عصر کی نماز ادا کرکے مجھے اپنی سہیلی کے گھر جانا تھا – گھر سے باہر نکلی تو ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ سہیلی کے گھر پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہونے لگا کہ شام رات کی آغوش میں جانیکے لیے بے تاب ہوگئی ہے۔ سہیلی کے گھر پہنچ کر سب سے پہلے مغرب کی نماز ادا کی اور ہم دونوں سہیلیاں باتوں میں مشغول ہوگئیں۔ چائے ناشتہ کرکے میں نے اپنی سہیلی سے کہا ، ’’ چلو رخسار ! ذرا باہر چہل قدمی کرکے آتے ہیں۔‘‘ اس نے بھی فوراً حامی بھر لی اور ہم باہر نکل آئے۔ رات ہر طرف اپنا پہرا لگا نے لگی تھی مگر افق سے ابھرتا چودھویں کا چاند ہر طرف اپنا نور بکھیرنے لگا تھا۔ جس جگہ ہم چہل قدمی کر رہے تھے اس کے عین سامنے سڑک کے اس پار ایک خوبصورت اور عالیشان درگاہ بنی ہوئی تھی۔ درگاہ سے مسجد جڑی ہوئی تھی اور اس کے باہر بڑا سا صحن بھی تھا۔صحن میں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اْن میں مرد ، عورتیں ، بچے سب شامل تھے۔ بچے کھیل کود میں مصروف تھے اور مائیں اپنی سہلیوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔ لوگ درگاہ کے اندر جا رہے تھے اور باہر نکل رہے تھے۔ میری نظریں اسی طرف لگی ہوئی تھیں اور میں ہر چیز کا جائزہ لے رہی تھی۔ اچانک میری نظر گیٹ کے باہر کھڑے ایک ضعیف ا?دمی پر پڑی۔ سفید داڑھی ، نورانی چہرہ والا وہ آدمی سفید رنگ کا کرتہ پائجامہ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ان کے لباس اور چہرے کی وجاہت بتارہی تھی کہ وہ کسی اچھے خاندان سے ہیں۔ وہ ہر آے جانے والے سے کچھ کہہ رہے تھے پر کوئی بھی ان کے پاس نہیں رک رہا تھا۔ بس لوگ آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی مانگنے والے ہوں اس لئے لوگ ان کی باتوں کو ان سنی کر کے آگے بڑھ رہے تھے۔ میں دور کھڑی تھی اس لیے ان کی آواز مجھ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔مجھے بڑا تجسس ہوا مگر میری سمجھ نہیں ا? رہا تھا کہ وہ لوگوں سے کیا کہہ رہے ہیں۔ مجھے مسلسل اس طرف دیکھتے دیکھ میری سہیلی بولی،’’ شمع ! آپ مسلسل اس طرف کیوں دیکھے جا رہیں ہیں ؟‘‘ ’’کچھ نہیں رخسار۔ آپ گھر جائو۔ میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں ! ‘‘ ’’ جی اچھا۔ آپ جلدی آجانا۔‘‘ کہتے ہوئے رخسار چلی گئی۔میں روڈ کراس کرکے درگاہ کے گیٹ تک جا پہنچی اور ان بابا کے قریب کھڑی ہو گئی۔ مجھے بڑا تجسس ہو رہا تھا کہ آخر وہ کہہ کیا رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ ان کے آنسو رخساروں سے ہوتے ہوئے ان کی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔ ان کے چہرے کی وجاہت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ وہ کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پتہ نہیں کون سی بات مجھے ان کی طرف کھینچے لے گئی۔ ’’ اللہ کے واسطے میری مدد کرو۔ میری بیٹی کو کینسر ہے۔ میری بیٹی کے علاج کے لیے میری مدد کرو۔ رحم کرو مجھ پر۔ کوئی تو سنو !کوئی کوئی تو رکو ! میرے اللہ ! میری مدد فرما۔‘‘ میں نے یہ جملے بابا کے منہ سے سنے تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ ہر آنے جانے والا ان کی ا?واز سن رہا تھا پر کوئی بھی ان کے پاس نہیں رک رہا تھا۔ جن کو سننا ہی نہ ہو تو وہ کسی کی چیخ و پکار بھی نہیں سن سکتے۔ کئی لوگ مزار پر چڑھانے کے لئے پھولوں کی چادر ، نذرانہ لے کر جا رہے تھے لیکن افسوس ایک زندہ ، بے بس، لاچار انسان کی چیخ اور بہتے ہوئے آنسو کسی کو بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ میں ان کے قریب جا پہنچی اور بولی، ’’ بابا ! لیجئے آپ تھوڑا پانی پی لیجئے۔‘‘ انھوں نے میرے ہاتھ سے پانی کی بوتل ایسے لی جیسے وہ بہت دیر سے پیاسے ہوں اور پانی کی تلاش میں ہوں۔ انہوں نے پانی پیا ، رب کا شکر ادا کیا اورمجھے جزاک اللہ کہہ کر پانی کی بوتل واپس کردی۔ میں نے پوچھا، ’’ بابا ! آپ کچھ کھائیں گے؟ ‘‘ انہوں نے تشکرانہ نظروں سے مجھے دیکھا اور صرف اثبات میں سر ہلادیا۔ پاس میں ہی دوکانیں تھیں۔ میں جاکر وہاں سے ان کے لیے کچھ کھانے کی چیزیں لے آئی۔میرے ہاتھوں سے چیزیں لے کر وہ پاس ہی ایک جگہ بیٹھ گئے۔ جب انہوں نے کھاکر پانی پی کر رب کا شکر ادا کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں۔ انہوں نے کہا ، ’’ جی بیٹی پوچھو۔‘‘ ’’ بابا آپ مجھے بتائیے کہ آپ یہاں ایسے کیوں مانگ رہے ہیں۔ آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ اللہ اور رسول پر پورا یقین رکھتے ہیں۔آپ کو یقین ہے کہ دینے والی ذات تو صرف وہی ہے۔ یہ انسان کسی کو کیا دے سکتے ہیں۔ آپ کی بیٹی کہا ہے ؟ آپ کوئی مانگنے والے یا فقیر تونہیں لگتے ! پھر کیا وجہ ہے ؟ رہی علاج کی بات تو کئی ایسے ہسپتال ہیں جہاں پر کم داموں میں یا کہیں کہیں تو مفت میں بھی غریبوں کے علاج کئے جاتے ہیں۔ ‘‘ بابا نے ایک لمبی سانس لی اور بولے، ’’ بیٹی ! سچ کہتی ہو۔ میں ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور میں باہر سے اس شہر میں اپنی بیٹی کے علاج کے لیے آیا ہوں۔ میری ایک ہی بیٹی ہے۔ اس کی شادی ہونے کے تین سال کے اندر ہی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ وہ اپنے ننھے سے بیٹے کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر آکر رہنے لگی۔ اس کی ماں یعنی میری بیوی اپنی بیٹی کو روزانہ گھٹ گھٹ کر جیتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں۔ وہ اپنی بیٹی کے دکھ برداشت نہیں کر پائیں اور بیٹی کا دکھ سینے میں لیے اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ جیسے تیسے ہم باپ بیٹی اس بچے کو لے کر جی رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دکھوں کو یہیں ختم نہیں کیا۔ اچانک میری بیٹی بیمار رہنے لگی۔ جب بہت دنوں تک علاج کے بعد بھی صحت یاب نہ ہوسکی تو میں نے ایک بڑے ڈاکٹر کو بتایا۔ بہت سارے ٹیسٹ کرنے پر پتہ چلا کہ وہ کینسر کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ میرے پاس جو جمع پونجی تھی وہ وہاں پر اس کے علاج میں لگا دی۔فائدہ نہیں ہوا تو جیسے تیسے بیٹی کو اپنے ساتھ اس شہر میں علاج کے لیے لے آیا۔ میری بیٹی کا علاج تو ہو رہا ہے لیکن میرے نواسے کی ضرورتیں ، ہمارا کھانا پینا وغیرہ بڑے خرچ ہیں۔ کبھی کچھ ڈاکٹر دوائیاں وغیرہ بھی باہر سے لکھ دیتے ہیں۔اس کے لیے تو پیسوں کی ضرورت ہے نا ! یہ سب میں کہاں سے لائوں۔ ان بوڑھی لاچار ہڈیوں میں اب اتنی طاقت نہیں ہے کہ کہیں کام کر سکوں۔ اس طرح مانگنے میں بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے پر کیا کرو ں بالکل مجبور ہوگیا ہوں۔ مجھے اپنے رب سے کوئی شکایت نہیں۔وہ جس حال میں رکھے میں راضی ہوں۔ بس اپنی بیٹی کی دوائیوں اور نواسے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ شام میں ایسی ہی کسی جگہ مانگنے کے لیے کھڑا ہوجاتا ہوں۔‘‘ بابا کی درد بھری داستان سن کر بہت دکھ ہوا۔ اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا اور جتنا تھا سب نکال کر بابا کے ہاتھ میں رکھ دیا۔اتنے میں موذن کی صدائیں چہار جانب گونجنے لگیں۔ بابا نے میرے سر پر ہاتھ رکھا ، دعائیں دیں اور مسجد کی طرف چل پڑے۔میں سوچتی رہ گئی کہ وقت کیا ہے ؟ انسان کو کہاں سے لا کر کہاں لا کھڑا کرتا ہے۔