رکاوٹوں کو پیچھے چھوڑ کر، ہم اصلاحات کے زور پر ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنائیں گے: مودی

0
0

نئی دہلی، 15 اگست (یو این آئی) وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ریاستی حکومتوں، پنچایتوں اور عوامی نمائندوں اور عام لوگوں تک سبھی سے ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک اور عالمی رہنما بنانے کے لئے سخت محنت کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ ان کی حکومت تمام مسائل پر قابو پالے گی۔ رکاوٹوں اور منفی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر اصلاحات کے رتھ پر سوار ہو کر اس مقصد کو حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

بدعنوانی، اقربا پروری، ذات پرستی اور سابقہ ​​سیاسی قیادت کے جمود کو برقرار رکھنے کے رجحان کو ملک کی ترقی کے سفر میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مسٹر مودی نے ملک میں موجودہ سول کوڈ کی جگہ ایک سیکولر سول کوڈ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ تخریبی سوچ رکھنے والے لوگوں پر سخت حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو ان کی منفی ذہنیت سے خود کو بچانا ہو گا۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں ہندو برادری اور اقلیتوں کی سلامتی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی برادری سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی ترقی دنیا کے لیے کوئی بحران نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بنے گی۔

وزیراعظم نے مسلسل تیسری بار ملک اور عوام کی خدمت کا موقع دینے پر ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی امنگوں کی تکمیل کے لیے دن رات تین گنا زیادہ محنت کریں گے۔ سیاست کو کنبہ پرستی اور ذات پات کی بھول بھولیوں سے نکالنے کے لیے انہوں نے ایک لاکھ ایسے نوجوانوں کو سیاست میں لانے پر زور دیا جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہ ہو۔

مسٹر مودی نے 78ویں یوم آزادی کے موقع پر تاریخی لال قلعہ سے ہم وطنوں سے اپنے 11ویں خطاب میں سال 2047 تک وکست بھارت کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کے مستقبل کا خاکہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکست بھارت محض تقریری الفاظ نہیں ہیں بلکہ ملک کے کروڑوں لوگوں کا خواب اور عزائم ہیں۔ ملک کو آزادی دلانے میں عظیم ہستیوں کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت 40 کروڑ اہل وطن ملک کو آزاد کرا سکتے تھے تو آج کی 140 کروڑ کی آبادی ملک کو خوشحال اور ترقی یافتہ کیوں نہیں بنا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے لیے مرنے کا عزم آزادی دلوا سکتا ہے تو ملک کے لیے جینے کا عزم ایک ’خوشحال ہندوستان‘ کی تعمیر بھی کر سکتا ہے۔

ملک میں اصلاحات کے عمل کے تئیں گہری وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کو وکست بھارت کی تعمیر کے لیے 25 سے 30 لاکھ اصلاحات کرنا ہوں گی، جس کے بعد عام شہریوں کی زندگی آسان ہو جائے گی اور لوگوں کی زندگی کے کاموں میں حکومتی کم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اصلاحات سے ملک کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد 70 سال تک ملک کی قیادت میں جمود کو برقرار رکھنے کا رجحان رہا۔ اس سے ملک کی ترقی کے سفر میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا عام شہری چاہتا ہے کہ ان کی مشکلات دور کرنے کے لیے سخت ترین اصلاحات کی جائیں۔ انہوں نے کہا “اصلاحات کے لیے حکومت کا عزم پنک بک کے صفحات کے لئے یا چار دن کی واہ واہی لوٹنے یا کسی سیاسی مجبوری نہیں، بلکہ ملک کو مضبوط بنانے کے لیے ہے۔ ترقی کا بلیو پرنٹ اصلاحات کے ذریعے ہی تشکیل پاتا ہے۔ ہمارا عزم ملک سب سے پہلے ہے۔

وزیر اعظم نے بینکنگ سیکٹر، ایم ایس ایم ، مالیاتی شمولیت سمیت مختلف شعبوں میں اصلاحات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے ملک میں ’مائی باپ کلچر‘ کو تبدیل کیا ہے اور گورننس کا ایک نیا ماڈل تیار کیا ہے جس میں حکومت خود ضرورت مندوں تک جاتی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ آج حکومت ککنگ گیس، پانی، بجلی اور مالی امداد عوام کی دہلیز پر دی جا رہی ہے۔ ملک کے ہر شعبے میں نظام میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ سو سے زیادہ خواہش مند اضلاع اپنی ریاست کے دیگر اضلاع کے برابر آ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اصلاحات سے ملک میں امکانات میں اضافہ ہوا ہے اور کئی شعبوں میں اس کی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ ملک کے نوجوانوں کی خواہش یہ ہے کہ اصلاحات کی رفتار میں بتدریج اضافہ ہو۔ اس کے ذریعے گولڈن انڈیا کا مقصد حاصل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 2047 کے وکست بھارت میں 25 سے 30 لاکھ اصلاحات کی جائیں تو لوگوں کی پریشانیاں کافی حد تک کم ہو جائیں گی۔ اس تبدیلی کے لیے اہل وطن کو آگے آنا ہو گا۔

وزیر اعظم نے ہر پارٹی اور ہر ریاست کے عوامی نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے مشن میں حکومت کا ساتھ دیں۔ انہوں نے شہریوں سے بھی اپیل کی کہ ’’چھوٹے مسائل کے لیے بھی حکومت کو تجاویز دیں، حکومت اس پر کام کرے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عالمی ترقی میں ہندوستان کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ حکومت فی کس آمدنی کو دوگنا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ بینکوں میں اصلاحات سے تمام شعبوں کو فائدہ ہوا ہے۔ ملک نئی بلندیوں کو چھونا چاہتا ہے اس لیے حکومت ہر شعبے میں تیز رفتاری سے کام کرے گی۔

مسٹر مودی نے کہا ہے کہ ہم ہندوستان میں ایسا تعلیمی نظام بنا رہے ہیں تاکہ ملک کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ بیرون ملک سے بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ہنر کی اہمیت بڑھ گئی ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت بڑے پیمانے پر مہارتوں اور صلاحیتوں کو بڑھانے کے پروگرام چلا رہی ہے۔ بہار کی نالندہ یونیورسٹی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نالندہ کی پرانی شان کو لوٹانے کی سمت کام کر رہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ کنبہ پرستی اور ذات پرستی کی سیاست ہمہ جہت ترقی کے لیے مہلک ہے، اس لیے ملک کو جلد از جلد ان سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے وہ ایک لاکھ ایسے روشن خیال نوجوانوں کو آگے لانا چاہتے ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہ ہو اور وہ معاشرے اور ملک کی غیر جانبداری سے خدمت کریں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اکثر انتخابات ہوتے ہیں اور اس سے ملکی ترقی متاثر ہوتی ہے، اس لیے اب پورے ملک کو ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے سب کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔

ہم وطنوں کو منفی ذہنیت والے لوگوں سے بچنے کا مشورہ دیتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ یہ لوگ ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو اپنی فلاح کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو ملک کی ترقی کو نہیں دیکھ سکتے، جو ہندوستان کی فلاح کے بارے میں نہیں سوچ سکتے جب تک کہ وہ ان کی اپنی بھلائی کے بارے میں نہ ہو۔ ملک کو ان سے بچنا ہو گا۔ ان کی منفی ذہنیت سے بچنا ہوگا۔

ملک کی ترقی کے سفر میں بدعنوانی کو ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس نے ملک کو توڑ دیا ہے، لیکن وہ اس کے خلاف سخت کارروائی جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی نے ملک کو توڑ دیا ہے۔ میں نے بدعنوانی کے خلاف جنگ چھیڑی ہے، اس سے میری ساکھ کو بھی ٹھیس پہنچی ہے، لیکن میری شہرت ملک سے بڑی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں تبدیلی ایک چیلنج ہے لیکن وہ بدعنوانوں کے لیے خوف کا ماحول پیدا کرتے رہیں گے۔

موجودہ سول کوڈ کو فرقہ واریت اور امتیاز پر مبنی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ پورے ملک میں سیکولر سول کوڈ کو نافذ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر بارہا بحث کی ہے اور احکامات دیے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’سپریم کورٹ نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں بار بار بحث کی ہے اور حکم دیا ہے اور ملک کے ایک بڑے طبقے کا ماننا ہے کہ سول کوڈ ایک طرح سے فرقہ وارانہ سول کوڈ ہے اور اس میں سچائی بھی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آئین کو 75 سال مکمل ہونے کو ہیں اور سپریم کورٹ اور آئین میں بھی ایک ہی روح ہے اس لیے آئین بنانے والوں کے خوابوں کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم آئین کے 75 سال مکمل کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ بھی یہی کہہ رہی ہے اور آئین کی روح بھی یہی کہہ رہی ہے تو آئین بنانے والوں کے خواب کو پورا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت کی ضرورت ہے کہ اس پر پورے ملک میں بحث کی جائے اور ملک میں سیکولر سول کوڈ کو نافذ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک نے فرقہ وارانہ سیول کوڈ میں75 سال گزارے ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس امتیازی قانون کو تبدیل کیا جائے۔ انہوں نے کہا ’’میرا ماننا ہے کہ اس سنگین مسئلے پر ملک میں بات ہونی چاہیے۔ اس پر وسیع بحث ہونی چاہیے اور سب کو اپنی اپنی تجاویز پیش کرنی چاہیے اور جو قوانین مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرتے ہیں اور جو اونچ نیچ کا سبب بنتے ہیں، ان قوانین کی جدید معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی اور اس لئے میں کہوں گا، اب وقت کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک سیکولر سول کوڈ ہو۔ ہم نے فرقہ وارانہ سول کوڈ میں 75 سال گزارے ہیں، اب ہمیں سیکولر سول کوڈ کی طرف بڑھنا ہوگا تب ہی ملک میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک سے عام شہری کو آزادی ملے گی۔

موجودہ سول کوڈ کو فرقہ واریت اور امتیاز پر مبنی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے آج کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ پورے ملک میں سیکولر سول کوڈ نافذ ہو۔

عصمت دری کے واقعات پر رنج کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ ایسے گناہ کرنے والوں میں خوف پیدا کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غصہ ہے، عام لوگوں میں غصہ ہے۔ میں اس غصے کو محسوس کر رہا ہوں۔ ملک، سماج، ہماری ریاستی حکومتوں کو اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ خواتین کے خلاف جرائم کی جلد از جلد تحقیقات کی جائیں۔ جن لوگوں نے بھیانک جرائم کئے ہیں ان کو جلد از جلد سخت سزا دی جائے۔ یہ معاشرے میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جب خواتین پر زیادتی جیسے مظالم کے واقعات ہوتے ہیں تو اس کا بہت چرچہ ہوتا ہے، اس کی بہت پبلسٹی ہوتی ہے، میڈیا میں اس کی کوریج ہوتی ہے، لیکن جب ایسے شخص کو سزا دی جاتی ہے تو وہ خبروں میں نظر نہیں آتی، کہیں کونے میں پڑی ہوتی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اب وقت کی ضرورت ہے کہ ایسے گناہ کرنے والوں کو دی جانے والی سزا کے بارے میں وسیع بحث کی جائے تاکہ ایسے گناہ کرنے والوں میں خوف پیدا ہو کہ ایسا گناہ کرنے والوں کی ایسی حالت ہوتی، انہیں پھانسی پر لٹکنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں جرائم کرنے والوں میں خوف پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

بنگلہ دیش میں ہونے والی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہاں حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔ انہوں نے وہاں کی ہندو برادری اور اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا