لکشمی دیوی
گیا، بہار
ہمارے ملک کو جن بنیادی ضروریات کا سامنا ہے ان میں روزگار ایک بڑا مسئلہ ہے۔ خاص طور پر ہمارے دیہی علاقے اس سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ جس کی وجہ سے دیہی لوگوں کی بڑی تعداد شہروں، میٹرو اور صنعتی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔خاندان کے لیے دو وقت کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے لوگ اپنے گاؤں چھوڑ کر دوسرے شہروں اور ریاستوں میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں وہ کھیتوں، کارخانوں اور یومیہ اجرت پر 16 سے 17 گھنٹے محنت کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی وہ بمشکل 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ کما پاتے ہیں۔ نقل مکانی کے سب سے زیادہ اعداد و شمار اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور اتراکھنڈ میں دیکھے گئے ہیں، جہاں ہرسال لاکھوں لوگ روزگار کے لیے اپنے گاؤں چھوڑ کر، کبھی اکیلے یا کبھی اپنے خاندانوں کے ساتھ، دہلی، نوئیڈا، پنجاب، ہریانہ، سورت، ممبئی اور کولکتہ جاتے ہیں۔ گاؤں میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔بہار میں ایسے بہت سے گاؤں ہیں جہاں ہر سال گاؤں والوں کی ایک بڑی آبادی روزگار کے لیے ہجرت کرتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل، او بی سی اور پسماندہ طبقات سے ہے۔ جو مالی طور پر بہت کمزور ہیں۔ ان میں ایک اچھلا گاؤں بھی ہے۔ بودھ گیا سے تقریباً 54 کلومیٹر دور بانکے بازار بلاک کے روشن گنج پنچایت میں واقع اس گاؤں کی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں کے زیادہ تر خاندانوں کا کوئی ایک فرد روزگار کے لیے ہجرت کر چکا ہے۔
اس حوالے سے 45 سالہ سیتا دیوی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر اور بیٹا اتر پردیش کے صنعتی شہر نوئیڈا میں مختلف فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ پہلے شوہر اکیلے کمانے جایا کرتے تھے۔ لیکن اس سال ان کے 4 بچوں میں سے 2 بیٹے 18 سال کی عمر کے بعد اپنے والد کے ساتھ کمانے کے لیے گاؤں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک بیٹا بارہویں تک پڑھا ہے، اس لیے اسے اپنے باپ اور دوسرے بھائیوں سے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ اس سے گھر کی مالی حالت بہتر ہونے کی امید ہے۔ سیتا دیوی بتاتی ہیں کہ 12ویں کرنے کے بعد ان کے بیٹے نے گیا میں ہی کام تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کوئی کامیابی نہیں ملی، اس لیے اب وہ باہر جا کر پیسے کمائے گا۔ کولکتہ میں ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے 27 سالہ شیام رجک کا کہنا ہے کہ 12ویں کے بعد وہ بھی گاؤں میں رہنا چاہتے تھے اور روزگار کا کوئی ذریعہ تلاش کرنا چاہتے تھے، تاکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہ سکیں۔ لیکن جب اسے کامیابی نہ ملی تو اس نے پیسہ کمانے کے لیے ہجرت کرنا ہی بہتر سمجھا۔اس گاؤں میں اعلیٰ طبقے اور درج فہرست ذات کی مخلوط آبادی تقریباً 350 خاندانوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اگرچہ اعلیٰ طبقہ کاشتکاری کے لیے کافی زمین اور روزگار کے مقامی ذرائع کے ساتھ معاشی طور پر خو شحال ہے، لیکن زیادہ تر درج فہرست ذات کے خاندانوں کے پاس اپنے خاندان کی روزی روٹی برقرار رکھنے کے لیے کافی قابل کاشت زمین نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اس برادری کے زیادہ تر مرد گاؤں چھوڑ کر شہروں اور صنعتی علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور مزدور یا یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔
سنتوش پاسوان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں درج فہرست ذات پاسوان برادری کی اکثریت ہے۔اس ذات کے تقریباً 60 فیصد مرد اپنی روزی کمانے کے لیے باہر گئے ہیں، اور ان میں سے تقریباً 10 فیصد خواتین بھی ہیں۔ جو خواتین خاندان کی دیکھ بھال کے لیے گاؤں میں رہتی ہیں وہ بھی خاندان کے لیے اضافی آمدنی حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ طبقے کے کھیتوں میں روزانہ مزدوری کرتی ہیں۔ سنتوش کا کہنا ہے کہ ”گاؤں میں رہتے ہوئے روزگار کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ یہاں کوئی چھوٹی صنعت یا کوئی سیلف ہیلپ گروپ نہیں چلایا جا رہا ہے تاکہ لوگ گاؤں میں رہتے ہوئے اس میں شامل ہو کر کام کر سکیں۔ منریگا کے تحت بھی مساوی کام دستیاب نہیں ہے۔ کچھ خاندانوں کے مرد گیا شہر میں پرائیویٹ بس سروسز میں شامل ہوتے ہیں اور ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد بہت برائے نام ہے کیونکہ گاڑی چلانے کا کام ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔“
ہجرت سے صرف مرد ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کا پورا خاندان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ گاؤں میں ایسے بہت سے گھرانے ہیں جہاں مرد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ روزگار کے لیے ہجرت کر چکے ہیں اور گاؤں میں صرف ان کے بوڑھے والدین رہ گئے ہیں۔ 76 سالہ بندیشوری رجک اوران کی بیوی 70 سالہ جگنا رجک کا کہنا ہے کہ ان کے دونوں بیٹے اپنے اہل خانہ کے ساتھ نوئیڈا اور لدھیانہ گئے ہیں۔ جہاں ان دونوں کی بیویاں بھی فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ وہ خاص تہواروں میں ہی گھر آتے ہیں۔ ان کے پیچھے یہ بزرگ کسی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ وہیں 68 سالہ سنجے پاسوان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ سورت کی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں بھی کام کر چکے ہیں اور اب ان کا بیٹا بھی اپنے خاندان کے ساتھ اسی فیکٹری میں کام کرتا ہے، جب کہ بڑھتی عمر کی وجہ سے سنجے اب گاؤں میں صرف اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”گاؤں میں کوئی بھی گھر چھوڑ کر پیسہ کمانے کے لیے باہر جانا نہیں چاہتا، لیکن جب گاؤں میں روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں، کھیتی باڑی کے لیے زمین نہیں، تو وہ اپنے خاندان کا پیٹ کیسے پالے گا؟ یہ وہی مجبوری ہے جو یہ انہیں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر حکومت ایسی سکیم بناتی ہے کہ لوگوں کو گھر میں رہ کر ہی روزگار مل سکے تو ہجرت کا یہ مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔“
گاؤں میں راشن ڈیلر کے طور پر کام کرنے والے 47 سالہ پنکج کے مطابق، ‘350 خاندانوں میں تقریباً ایک ہزار لوگوں کے نام راشن میں درج ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر خاندانوں کے مرد گاؤں سے باہر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں بہت کم لوگ ہیں جو باہر جانے سے پہلے پنچایت میں مہاجرین کی فہرست میں اپنا نام درج کراتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں کی صحیح تعداد درج نہیں ہے۔ پنچائت میں نام درج نہیں کرانے کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں انہیں کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔ پنکج بتاتے ہیں کہ ریاستی حکومت کے قواعد کے مطابق اگر کوئی شخص کمانے کے لیے ریاست سے باہر جاتا ہے تو اسے پنچایت کی مائیگریشن لسٹ میں اپنا نام درج کرانا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کے حادثے کی صورت میں وہ یا اس کے اہل خانہ کومناسب معاوضہ مل سکے۔ لیکن بیداری کی کمی کی وجہ سے لوگ ایسا نہیں کرتے ہین۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر گاؤں میں اس کا پرچار (تشہیر)کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ پنکج کا خیال ہے کہ منریگا دیہی علاقوں میں روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ جس کے تحت سال میں 45 دن روزگار دینے کا انتظام ہے۔ لیکن کئی خاندان ایسے ہیں جن کے نام رجسٹرڈ ہیں لیکن اس کے تحت بھی انہیں کام نہیں مل پا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہجرت ہی ان کا واحد آپشن ہے۔
درحقیقت ہمارے ملک میں روزگار ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ بہت سے شہری علاقوں میں روزگار کے مواقع کم ہیں۔ ایسے میں دیہی علاقوں کا کیا حال ہوگا؟ اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج بھی ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں مقامی سطح پر روزگار کی شدید کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرتے ہیں۔تاہم، سال 2024-25 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے، مرکزی حکومت نے تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ اس میں منریگا سمیت روزگار کے کئی شعبوں میں بھی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔محکمہ دیہی ترقی کا بجٹ پچھلے سال کے 1.71 لاکھ کروڑ روپے کے نظرثانی شدہ تخمینہ سے بڑھا کر1.77 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی، مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی پروگرام (منریگا) کا بجٹ سال 2023-24 کے 60 ہزار کروڑ روپے کے مقابلے 2024-25 میں بڑھا کر 86 ہزار کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس بجٹ میں روزگار کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جس میں مہارت کی نشوونما خاص طور پر اہم ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے ہجرت کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ درحقیقت ہمارے ملک میں ہنر کی کوئی کمی نہیں، چاہے وہ دیہی علاقہ ہی کیوں نہ ہو۔اس لئے ایسا منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہجرت کے بجائے اس ہنر کو گاؤں میں ہی رہ کر روزگار کا موقع ملے کیونکہ دو وقت کی روٹی کی خاطر ہجرت موقع نہیں مجبوری ہوتی ہے۔(چرخہ فیچرس)