- مالی برس کے اختتام سے چندہی ماہ یاکہہ لیجئے محض ایک ماہ قبل سرکاری محکموں کی سرگرمیاں تیزہوجاتی ہیں ،خرچ نہ کی جاچکی رقومات کوتیزرفتاری کیساتھ کاغذوں میں خرچ کرکے اِدھراُدھرکیاجاتاہے،ایسی شکایات کے انباررہتے ہیں لیکن کوئی جوابدہی نہیں کوئی شفافیت نہیں ،سرکاری مشینری میں موجودکورپٹ عناصراعلیٰ سے ادنیٰ عہدے تک سرگرمیاں تیزکرتے ہیں اورکسی نہ کسی طرح فرضی بلیں بنواکرخزانہ عامرہ سے رقومات کونکلوانے کے جتن کرتے ہیں، مجموعی طورپران سے کے سامنے31مارچ یعنی مالی سال کے ختم ہونے کی تاریخ ہوتی ہے،اس سے پہلے جتنا’خرچ ‘کرلیاجائے بڑی محنت کی جاتی ہے لیکن یہ محنت ہرسال جنوری یافروری میں شرو ع ہوتی ہوجو31مارچ قریب آتے آتے ڈبل شفٹ یاٹرپل شیفٹ میں ہونے لگتی ہے،کچھ ایسے محکمے ہوتے ہیں جنہیں اپنی سرگرمیاں عوامی مفادات کیلئے چلانے کیلئے اورسال بھرسرگرم رہنے کیلئے رقومات بہم پہنچائی جاتی ہیں، ان کے پاس فنڈزعوام کی جیب سے کسی نہ کسی طرح آتی ہے لیکن سرگرمیاں ناکے برابرہوتی ہیں،عوامی مفادات کاکوئی پاس نہیں رکھاجاتامحض مقصد سال کے قریب10ماہ آرام سے یعنی خوابِ خرگوش میں مبتلارہنااورفروری مارچ میں سرگرم ہوجاناہوتاہے جوخودبخود شک کے گھیرے میں آجاتی ہے، مختلف محکمے نمائش کے نام پرلاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں اور نمائشوں کے مقاصدحاصل نہیں ہوتے ،نمائشیں ،ورکشاپ وغیرہ محض رقوما ت کوخزانہ عامرہ سے نکلوانااورہڑپنازیادہ رہتاہے، یہاں یہ معاملہ آج ایک مرتبہ پھر زیربحث لانے کی ضرورت ریاسی میں منعقد روزگارمیلے سے محسوس کی گئی، یہ میلہ روزگارکامیلہ تھالیکن منظراس کاخود بے روزگاروں جیساتھا، یعنی اس میلے میں لگی کرسیاں خالی تھیں، ریاسی سے تعلق رکھنے والے وزیرمملکت اجے نندہ وہاں مہمان خصوصی نظرآئے لیکن ان کے سامنے ان کابھاشن سننے کیلئے کرسیاں خالی تھیں، اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ محکمہ روزگارکی نیت میں کتناکھوٹ ہے، اس نے میلہ منعقد کرنے سے پہلے عوام اور خاص طورپربے روزگاروں تک کیسی اپروچ اپنائی، انہیں میلے سے متعلق پیشگی اطلاع کیسے دی؟خالی کرسیوں سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ میلہ لگائو…31مارچ سے قبل بچاکھچاپیسہ خرچ کردکھائو!وزیرمملکت اجے نندہ کواس معاملہ کاسنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے ریاست بھرمیں ایسے محکموں کی اس روش کاآپریشن کرناچاہئے تاکہ عوام تک اسکیموں کافائدہ پہنچ سکے اورخزانہ عامرہ کی لوٹ کھسوٹ پرقدغن لگایاجاسکے۔