راجستھان کی فنی وراثت کو محفوظ کرتی خواتین

0
0
شیفالی مارٹنس
 راجستھان
راجستھان کی مختلف دستکاریوں میں سونے،چاندی اور دیگر اشیاء کے منفرد زیورات سے بہت پہلے لاکھ کی چوڑیاں بنانے کا فن موجود تھا۔ ویدک دور کا یہ تاریخی وراثتی فن نسل در نسل ان تاجر اور فن کارخواتین کے ہاتھوں منتقل ہوتا رہاہے جو مینوفیکچرنگ سے لے کر فروخت تک کے عمل کے لیے اہم حصہ ہیں۔ ہندی میں ’لاکھ‘ کے طور پر تلفظ کیا جاتا ہے، اس کے مختلف رنگوں اور محنتی عمل کے پیچھے ایک بھرپور ثقافتی تناظر شامل ہے۔سلمیٰ شیخ اور ان کی بہو آفرین شیخ پشکر کے باہر گنھیرا گاؤں کی باشندہ ہیں، یہ خواتین لاکھ کی چوڑیاں بنانے کی روایت کو شدومد کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہیں۔ تجارت اور فن کاری ان کے خاندان میں وراثت کے طورپر چلی آ رہی ہے۔ ان کا پورا خاندان چوڑیاں بنانے کےعمل میں شامل ہے، سلمیٰ اور آفرین اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے دو دکانیں چلاتی ہیں۔ خیال رہے کہ راجستھان میں زیادہ تر لاکھ کی چوڑیاں بنانے والے مسلم کمیونٹی کے منی ہار ہیں۔جب آپ شام کو ان کی دکان کے پاس سے گزرتے ہیں، تو آپ سلمیٰ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ کنڈلی کاتتے اور چوڑیاں بناتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ دن کے وقت وہ پشکر کے مین بازار میں اپنی 100 سال پرانی دکان چلاتی ہیں۔ ان کی بہو اپنے گھر کے باہر دکان پر بیٹھتی ہے، جو ان کے ورکشاپ کے برابر میں ہی ہے جہاں وہ چوڑیاں بناتی ہیں۔ وہ اپنی مہارت سے چوڑیاں سجاتی اور گاہکوں کی خدمت کرتی ہے۔
 دیگرتمام قدیم دستکاریوں کی طرح یہ فن بھی استحکام اور قدرتی رنگوں سے بھرا ہوا ہے۔لاکھ ایک قدرتی رال مادہ ہے جو قدرتی طور پر کیڑوں کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی پیداوار جھارکھنڈ جیسی ریاستوں کے درختوں میں کی جاتی ہے۔ سلمیٰ کے خاندان اسے رال کوگچھوں کی شکل میں حاصل کرتے ہیں۔ چھوٹی، چپٹی ڈسکیں جنہیں مقامی لوگ ’چپڑی‘ کہتے ہیں۔ وہ دو دیگر قدرتی اجزاء کے ساتھ اس کو پگھلا کر ایک بنیادی مرکب بناتے ہیں۔ پھر مرکب میں پانی شامل کیا جاتا ہے۔جب یہ سخت گیند بن جاتی ہے اور ٹھنڈی ہو جاتی ہے تو اسے گوندھ کر منحنی خطوط میں گھمایا جاتا ہے۔ وہ کنڈلی کو ایک موٹی گول لکڑی کی چھڑی سے جوڑتے ہیں اور اسے جلتے ہوئے کوئلوں پر گرم کرتے ہیں۔سلمیٰ نے بتایا کہ”ہم چوڑیوں کو مختلف رنگ دینے کے لیے رنگین لاکھ کا پیسٹ استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس کنڈلی کے ایک حصے کو لمبا کرتے ہیں اور اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتے ہیں جن سے چوڑیاں بناتے ہیں۔ آج کل ایک پتلی دھات کی چوڑی کو مولڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن صرف لاکھ سے بنی چوڑیوں کو مطلوبہ شکل دینے کے لیے لکڑی کا سانچہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مکمل طور پر دستکاری سے بنایا گیا، محنت طلب عمل ہے جس کے لیے گھنٹوں گرم کوئلوں کے سامنے بیٹھنا پڑتا ہے“۔سلمیٰ نے یہ فن بچپن سے اپنے والدین کو دیکھ کر سیکھا جبکہ آفرین نے یہ فن بڑی ہونے پر سیکھا ہے۔ ”میں نے ہائی اسکول تک اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے۔ میں مزید تعلیم حاصل کر سکتی تھی، لیکن میں اس کام سے لطف اندوز ہوتی ہوں اور شادی کے بعد بھی اسے کر رہی ہوں۔ میرا ایک پانچ سال کا بیٹا اور دوسری پانچ ماہ کی بیٹی ہے۔ مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوتی ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ ایک ہی وقت میں گھر، بچے اور اپنا کام سنبھال رہی ہوں“۔ 24 سالہ آفرین نے پُر جوش لہجے میں بتایا، جو کہ ایک موثر سیلز پرسن ہے اور ممکنہ خریداروں کو اپنی چوڑیوں کی پائیداری کے بارے میں یقین دلاتی ہیں۔آفرین اپنی آزادی اور اپنے کام سے لطف اندوز ہوتی ہے، بہت سی عورتوں کو شادی کے بعد ایسی خوشی اور آزادی نہیں ملتی۔
 یہ کام ہمیشہ سے خواتین انٹرپرینیورشپ کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ راجستھان میں نسلوں پہلے ہر گاؤں میں ایک منیہار خاندان ہوا کرتا تھا جنہیں وہاں رہنے کے لیے ایک خاص جگہ دی جاتی تھی۔ منیہارن لوگوں کے گھر گھرجاکر چوڑیاں فروخت کرتی تھیں اور بدلے میں چاندی یا سونے کی انگوٹھیاں، چھلے اور گندم وصول کرتی تھیں۔ صرف عورتیں چوڑیاں بیچتی تھیں کیونکہ نئی دلہنیں اور گاؤں کی دوسری خواتین بھی ان خواتین کے ساتھ سکون سے چوڑیاں پہناکرتی تھیں۔ ان دنوں اس کام کی بہت مانگ تھی ہمارے پیشے میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں اپنے والدین کو دیکھ کر یکساں طور پر یہ فن سیکھتے ہیں لیکن عام طور پر خواتین ہی دکانیں چلاتی ہیں اور دیگر خواتین کو چوڑیاں پہناتی ہیں۔ سلمیٰ کے شوہر محمد شریف شیخ نے آگ پر چمکدار گلابی اور سبز لک کنڈلی لپیٹتے ہوئے بتایاکہ”مرد زیادہ تر چوڑیاں بنانے کے بنیادی کاموں میں شامل ہوتے ہیں۔“ سلمیٰ نے اپنے بنائے ہوئے ایک نئے ڈیزائن کو دکھاتے ہوئے بتایاکہ ”تقریباً 20 سال پہلے تک عورتیں ہمارے پاس آتی تھیں اور اپنی کلائیوں کے سائز کی چوڑیاں گرم کر کے بنواتی تھیں، جو ایک بار پہن لیں تو اتاری نہیں جا سکتی تھیں۔ وہ اسے ایک یا دو سال بعد ہی ہٹا یاکرتی تھیں۔مگر آج کل ہر خاتون چاہتی ہے کہ چوڑیاں ان کے کپڑوں سے ملیں اس لیے ہم انہیں مزید رنگوں میں بناتے ہیں۔ پہلے چوڑیاں موٹی ہوتی تھیں، اب خواتین پتلی چوڑیاں پہننا پسند کرتی ہیں۔ راجستھان میں ہندو شادیوں کی رسومات لاکھ چوڑیوں کے بغیر ادھوری تسلیم کی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے ہرتہواروں کے دوران بھی ہماری چوڑیوں کی فروخت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی“۔ موجودہ زمانے میں فیشن کا لحاظ اور تجارت کے فروغ کے لئے وہ لاکھ چوڑیوں پر تصویریں بھی لگاتی ہیں اور نام بھی لکھتی ہیں، خاص طور پر شادیوں کے لیے تیار کردہ چوڑیوں کے سیٹوں پر۔ دو چوڑیوں کے سیٹ کی قیمت 40 روپے سے لے کر 2500 روپے تک ہے۔ آفرین نے بتایاکہ”سستی رینج کی چوڑیاں زیادہ مقبول ہیں۔ ہم انہیں بنانے میں ایک معمولی مارجن شامل کرتے ہیں، اس لیے زیادہ مول تول کی گنجائش نہیں ہوتی۔“
مڈل اسکول تک تعلیم حاصل کرنے والی سلمیٰ کا خیال ہے کہ دکان چلانے سے انہیں بہت سی نئی چیزیں سیکھنے میں مدد ملی ہے۔انہوں نے بتایاکہ”میں گاہکوں سے بات کرتی ہوں اور مختلف پہلوؤں کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہوں۔ میں شروع میں مارواڑی بولنا نہیں جانتی تھی کیونکہ میں مدھیہ پردیس کے اندور شہر میں پلی، بڑھی ہوں،لیکن اب میں اس میں روانی حاصل کر رہی ہوں۔اس لئے کہ دکان پر مجھے زیادہ تر دیہی گاہک اور مقامی خواتین ہی ملتی ہیں۔ بیرونی ریاست یا بیرونی ممالک کے سیاح جو باقاعدگی سے پشکر سے آتے ہیں،وہ ہماری دکان پر کم ہی آتے ہیں۔“دورِ حاضر میں ان کے فن کو دھات، سیپ اور پلاسٹک کے سستے اور شاندار متبادل سے خطرہ لاحق ہے۔سلمیٰ نے لاکھ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ”لاکھ کی چوڑی پر بنائے گئے ایک ڈیزائن کی قیمت 100 روپے ہے، پلاسٹک کی چوڑی کی قیمت 20 روپے ہے۔ جبکہ پلاسٹک کی چوڑیاں کچھ خواتین کو الرجی کا باعث بن سکتی ہیں،مگر لاکھ کی چوڑیاں پہننے میں زیادہ آرام دہ ہوتی ہیں۔ نیز پرانی لاکھ کی چوڑیوں کو پاؤڈر میں ری سائیکل کیا جا سکتا ہے“۔
 سلمیٰ کے شوہر محمد شریف شیخ ایک دن میں تقریباً 150سے180 چوڑیاں بناتے ہیں۔ سلمیٰ نے کاغذ سے لپٹی ان چوڑیوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا جو سجانے کے لیےخواتین کے گھروں کو بھیجی جائے گی۔اس کے شوہربتاتے ہیں کہ”ہم اس پورے خطے میں تنہاں لاکھ کی چوڑیاں بنانے والے ہیں۔یہ فن ان خواتین کو بھی روزگار فراہم کرتا ہے جو گھروں میں بیٹھ کر چوڑیوں پر نگ جڑھاتی ہیں۔ یہ ان کے لیے گھر بیٹھے پیسے کمانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ ہماری چوڑیاں پشکر اور اجمیر شریف کے ناگفانی کے علاقے کی خواتین کے پاس جاتی ہیں“۔ وہ جن خواتین سے کام لیتی ہیں، وہ چوڑیوں میں نگ اور دیگر خوبصورتی کی چیزیں ڈال کر روزانہ تقریباً 100سے150 روپے کما لیتی ہیں۔ اس خاندان کا خیال ہے کہ وہ مقابلے میں اس لیے کامیاب ہیں کہ وہ خود تیار کرتے ہیں اور خاندان کے تمام افراد اس کام میں حصہ لیتے ہیں۔ اگر وہ صرف چوڑیاں بیچنے والے ہوتے تو یہ ممکن نہ ہوپاتا۔ سلمیٰ نے کہاکہ”یہ مشکل ہے، موسم کچھ بھی ہو، گھنٹوں کوئلوں کے سامنے بیٹھنا واقعی تھکا دینے والا ہے۔ لیکن چونکہ یہ میرا اپنا کام ہے، اس لیے میں نہ صرف اپنی خاندانی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے، بلکہ اپنا پیسہ کمانے میں بھی خوشی محسوس کرتی ہوں۔ آفرین کو اپنے اخراجات کے لیے بھی پیسے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے“۔سلمیٰ نے گزشتہ دو سالوں سے اپنے کاروبار کو واٹس ایپ گروپس کے ذریعے آن لائن پروموٹ کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
 اگرچہ اسے ای کامرس سائٹس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے، لیکن وہ سوچتی ہیں کہ اگلی نسل اس راستے کو اپنا سکتی ہے۔ سلمیٰ کہتی ہیں کہ”میرا چھوٹا بیٹا ابھی طالب علم ہے، اور میرے دو چھوٹے پوتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور زندگی میں آگے بڑھیں، اور اگر وہ اپنے علم کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے فن کو ٹیکنالوجی سے جوڑیں، تو یہ ایک بہت بڑی مدد ہوگی۔ اس وقت ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہیں، لیکن ٹیکنالوجی ہمیں زیادہ کمانے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہی چیز ہمارے خاندان میں چلتی ہے، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ میرے پوتے پوتیاں اس فن کو سیکھیں۔“ دیہی گھرانوں میں جب مٹی کے برتنوں میں شگاف پڑ جاتے ہیں، تو اس کی مرمت پرانی یا ٹوٹی ہوئی لاکھ کی چوڑیوں کو پگھلا کر موٹے محلول سے کی جاتی ہے۔ یہ شگاف کو بند کردیتا ہے، برتن کی زندگی کو طول دیتا ہے اور نیا برتن حاصل کرنا غیر ضروری بنا دیتا ہے۔ یہ اپنے پہننے والوں کے لیے محفوظ اور آرام دہ ہیں،علاوہ ازیں ان چوڑیوں کو بنانے والے ہاتھوں کے لیے روزی کا ایک پائیدار فن اور تحفظ وراثت کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2022 کے تحت لکھا گیا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا