شہراز احمد
منڈی، پونچھ
ایک صحت مند دماغ کیلئے صحت مند جسم کا ہونا بھی لازمی ہے۔ کھیل جسمانی صحت مندی کے علاوہ تفریح کا ایک ایسا طریقہ ہے جس سے نظم وضبط رکھنے کا درس ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ انسان میں قوت برداشت اور اتفاق کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔مشہور مثال ہے کہ ایک صحت مند جسم میں صحت مند دماغ پایا جاتا ہے اور ایک کمزور جسم کمزور دماغ کا مالک ہوتا ہے۔صحت مند جسم کے لئے ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔بغیر ورزش کے ہمارا جسم سستی، کاہلی اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔تعلیم کا مقصد ایک ہمہ جہت شخصیت کو پروان چڑھانا ہوتا ہے ۔معیاری تعلیم کے لئے جسم اور دماغ کی نشوو نماکو لازمی تصور کیاگیا ہے۔جسمانی ورزش اور کھیل کود سے احتراض کی وجہ سے کئی جسمانی اور ذہنی عوارض جنم لینے لگتے ہیں۔
تعلیم کا مقصد صرف دانشمندی کا حصول نہیں ہے بلکہ زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے اچھی صحت اور تندرست جسم کی تیاری بھی مقصود ہے۔اسی لئے جسمانی تعلیم اور کھیل کود تعلیمی نصاب کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے۔جسمانی تعلیم یعنی کھیل کود کے بغیر تعلیمی نصاب کوو ادھورا ہی کہاجاتا ہے۔اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھارت سرکار کی جانب سے بھی ملک بھر میں مختلف قسم کے پروگرام چلائے جارہے ہیں۔جن میں ’کھیلو انڈیا‘ مہم بڑی تیزی سے چل رہا ہے۔ کھیل کود کو فروغ دینے کے لئے مرکز سے لیکر ریاستی حکومت اور یوٹی انتظامیہ میں بھی ایک محکمہ مختص کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد ہی نوجوانوں کو کھیل کود میں مصروف کرنا،انہیں کھیلوں کی طرف راغب کرنا، ان کی تربیت کا بندوبست کرنا اوران کے لئے کھیل کا میدان فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے۔ غرض کہ اس کے ذریعہ ہر قسم کی سہولیات دیکر نوجوانوں کو کھیل کود میں اپنی صلاحتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
ملک بھر میں یوتھ سروس اینڈ سپورٹ کے نام سے منسوب محکمہ کام کررہاہے۔جموں وکشمیر کے نوجوانوں کے لئے بھی اب حالیہ سالوں سے اس شعبہ میں کام کیا جارہا ہے تاکہ ملک کی دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو بھی کھیل کود کے شعبہ میں آگے لایاجا سکے۔لیکن پھر بھی دیہی علاقوں میں نوجوان میدان کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔جموںکے سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل ہیڈکوارٹر منڈی سے قریب 8کلومیٹر کی دوری پر پنیچائت فتح پور واقع ہے۔ جس کے ارد گرد پانچ پنچائیتیں ہیں جن میں دھڑہ، ڈنہ دھکڑاں، کہنوں کلانی ، سیڑھی خواجہ ، بائیلہ، و ہاڑی بڈھا پنچایتیں موجود ہیںجو کہ کثیر آبادی پر مشتمل ہے۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کسی پنچایت میں نوجوانوں کیلئے کھیل کا میدان میسر نہیں ہے۔جس کی وجہ سے کرکٹ سے رغبت رکھنے والے نوجوان کرکٹ کی پیاس بجھانے کیلئے دھان اور مکئی کے کھیتوں کو اپنے کھیل کے میدان بناتے ہیں اور بے ترتیب کھیتوں میں کھیلی جانے والی کرکٹ سے کسی نوجوان میں موجود پیشہ ورانہ کرکٹ کے ہنر کو نکھارنا اور ابھارنا ناممکن بن جاتا ہے۔
مذکورہ پنچایتوں کے نوجوانوں میں اگر کھیل کود کے بڑے مقابلے کروانے ہوں تو پنچائیت کلانی میں جاکر ایک کسان کی دھان کی کھیت میں کھیلنا پڑتا ہے۔جس کی اجرت نوجوان مشترکہ طور پر ہر بار فصل کے مطابق ایڈوانس جمع کرواتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیشتر پنچایتوں میں نوجوان قدرتی میدانوں، دھان اور مکئی کے کھیتوں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں کے بیشتر بڑے تعلیمی اداروں میں بھی کھیل کود کیلئے میدان نہیں ہیں ۔ وہیں فتح پور میں صرف ہائیر سیکنڈری اسکول کے پاس ایک میدان ہے جہاں بیرونی لوگوں اور ٹیموں کی بلا خلل آنے جانے اور ادارے پر پڑنے والے منفی اثرات کے بعد ہائیر سیکنڈری میں کھلاڑیوں کے کھیلنے پر بھی پابندی عائید کر دی گئی ہے۔ یعنی مجموعی طور سے کھیل کا کوئی میدان موجود نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کو پہاڑوں، قدرتی میدانوں، دریا اور نالوں کے کناروں اور بیکار کھیتوں میں کرکٹ میں اپنا ہنر آزمانے پرمجبور ہیں۔
کھیلوں کی افادیت پر جب ہم نے فتح پور کے موجودہ سرپینچ ’اختر کرمانی‘ سے بات چیت کی جو محکمہء تعلیم میں بطور ٹیچر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پرانے وقت گزر گئے۔ اب حکومت عوام کو ڈیجیٹل انڈیا کا خواب دیکھا رہی ہے۔اس دور میں جب یہ نوجوان کھیل کود کی طرف راغب نہیں ہونگے تو بظاہر اپنی ناقص سوچ اور سمجھ سے وہ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں گے جس سے قوم وملت کو بجاے نفع کے نقصان ہوگا۔ اگر حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے جوانوں کو کھیل کود کے مختلف شعبوں میں مصروف نہ کیا گیا تو منشیات کو مزید فروغ ملنے اور نوجوانوں کا قوم وملک کی شناخت کو برباد کرنے کا اندیشہ ہے۔ مزید بات کرتے ہوئے ’ہاشمی یوتھ کلب‘ کے صدر ’سرفراز احمد‘ نے کہا کہ کھیتوں میں کھیلنے پر مجبور مقامی نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ یہاں کے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کو ابھارنے کیلئے کھیل کے میدانوں کو تعمیر کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سے ابھرنے والے کرکٹروں اور دیگر کھیلوں کے کھلاڑیوں کا تمام ہنر کھیلنے کے میدان نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ مشترکہ پنچایتوں میں کھیل کا کوئی میدان موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے شائقین کرکٹ کی آرزوئیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ان پانچ پنچائیتوں کے کئی ابھرتے کرکٹر آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں۔اس تعلق سے انصاف موومنٹ کے چیئرمین ’جاوید ریشی‘ نے بتایا کہ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی جائے تاکہ یوتھ کے لئے سرکار کی کوششوں کو برویکار لاتے ہوے متعدد مقامات پر کھیل کے چھوٹے چھوٹے پنچائیت سطح کے میدان تعمیر کئے جائیں۔پنچائیتوں میں وسیع رقبہ ہے جو سرکاری اراضی ہے ۔جس پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کو چاہیے وہ ٹیم بھیج کر جائیزہ لیں اور کھیل کیلئے میدان بنائیں۔
فتح پور کے نوجوان کرکٹ کھلاڑی’ آزاد قریشی‘ نے کہا کہ اگر چہ نوجوان اس وقت منشیات کے لت میں ملوث ہوکر اپنی قیمتی جانوں کا زیاں کررہے ہیں۔جس کو دیکھتے ہوے سرکار نے کھیل کود کے متعلق مختلف قسم کے پروگرام متعارف کرواے ہیں۔ جن سے خاطرنوجوان مردوخواتین کھیلوں کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ نوجوان نسل کھیل کا شوق تو رکھتی ہے مگر ان دیہی علاقاجات میں کھیل کا میدان نہ ہونے کی وجہ سے اس نوجوان نسل کو بہتر مواقع فراہم نہیں ہورہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے مرکزی حکومت و یو ٹی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ ان علاقاجات کی جانب خصوصی توجہ دی جائے اور ان علاقوں میں کھیل کے میدان فراہم کئے جائیں تاکہ نوجوانوں کو اپنا ہنر نکھارنے کا موقع مل سکے اور وہ بھی ملکی اور بین اقوامی سطح پر اپنے علاقے اور ملک کا نام روشن کر سکیں۔ (چرخہ فیچرس)