دیہی خواتین کی تعلیم سے دوری لمحہ فکریہ

0
0

شازیہ اختر شاہ
چکھڑی منڈی،پونچھ

حکومت ہند نے ملک بھر میں تعلیم کے شعبہ کو فعال بنانے کیلئے مختلف قسم کے اقدام اٹھائے تاکہ اس سے مقدم شعبہ کو اس کے قد کے مطابق ترقی دی جاسکے۔شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی عوام تک بھی تعلیم کی سہولیات فراہم کی جاسکے کیونکہ تعلیم یافتہ ملک ہی کامیاب ملک ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو زمینی حقائق اس کے بلکل برعکس نظر آتے ہیں۔چونکہ تعلیم کا نظام فعال ہونا بہت ضروری تھا۔لیکن اگر یہ نظام شہروں میں بہتر ہو تو اس کادیہی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ایسا ہی کچھ حال جموں و کشمیرکے دیہی علاقوں کا ہے۔یہاں کے متعدد اضلاع کے دیہی علاقے محکمہ تعلیم کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔ضلع پونچھ،جس کو جموں و کشمیر کا سرحدی اور پسماندہ ضلع کہا جائے تو بے جاں نہ ہو گا۔اسی ضلع پونچھ سے 30کلو میٹر دور پنچایت چکھڑی بن ہے۔جو آج بھی محکمہ تعلیم کی جانب سے توجہ کا منتظر ہے۔ اس پر مذید بات کرتے ہوئے مقامی معمر قریب 17 سالہ ارفانہ کوثر جنہوں نے اٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے میری تعلیم ادھوری رہ گئی۔ یہاں سے 10 کلو میٹر دور ہائی اسکول پلیرہ یا اڑائی میں جاکر تعلیم حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ ہم لڑکیاں اکیلی دور نہیں جا سکتی ہیں۔ اسکول کا راستہ دور دراز ہے اور ہمیں اس راستے سے جاتے ہوئے بہت مشکلات آتی ہے۔ اس لئے ہم تعلیم حاصل نہیں کر سکتی۔ ہماری مانگ یہ ہے کہ ہماری علاقے میں ایک ہائی اسکول ہونی چاہئے تاکہ ہماریے علاقے کی لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کر سکیں۔
وہیں فازیہ صدیقی،جن کی عمر 17سال ہے، کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل انڈیاہونے کے باوجود بھی دیہی علاقوں کی لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ فازیہ نے بھی اٹھویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا کہناہے کہ ایک طرف عورت کو برابری کے حقوق دیئے جانے کی بات کی جا رہی ہے اور دوسری طرف پنچایت چکھڑی بن کی خواتین تعلیم کے میدان میں بے بس اور لاچار نظر ا رہی ہیں۔ چکھڑی کی پنچایت بہت بڑی آبادی پر مشتمل ہے۔ ایسے میں یہاں ہائی اسکول کا نہیں ہونا افسوس کی بات ہے جبکہ یہاں ایک ہائی اسکول نہیں بلکہ دو ہائی اسکول کی ضرورت ہے۔ ایک چکھڑی کے لئے اور دوسرا بن اور ناگاناڑی کے لئے کیونکہ ناگاناڑی سے ہائی اسکول پلیرہ،ہائی سکول اور ہائیر سیکنڈری اڑائی یا ہائی سکینڈری لورن میں جاکر تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ بہار کے موسم میں ان راستوں سے گزرنا مشکل ہوتاہے۔ اس راستے میں ں جنگلی جانور بھی ہوتے ہیں اور بھی بہت ساری پریشانی دیکھنی پڑھتی ہے اور ہم غریب غرباء لوگ روز مرہ انے جانے کا کرایہ بھی میسر نہیں کر سکتی ہیں۔ ایک غریب ادمی دن کا 100 یا 200 روپئے کہاں سے لائے گا؟ اور اپنی بچیوں کو کیسے پڑھائے گا؟ ایک غریب باپ کے لئے یہ کام بہت مشکل ہے۔ اس لئے یہاں کی لڑکیوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ اگر ہمارے یہاں ہائی اسکول ہوتا ہمیں اتنی پریشانی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس لئے انتظامیہ سے ا پیل ہے کہ ہماری آواز کو بلند کیا جائے تاکہ ہمیں ہائی اسکول مل جائے اور ہماری غریب بہنیں بھی آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔اس حوالے سے شافیہ صدیقی،جن کی عمر 15 سال ہے، ان کا کہناہے کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ایک پڑھی لکھی عورت ہی اپنے گھر اور معاشرے کو سدھار سکتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ اور ڈیجیٹل ملک ہونے کے باوجود بھی ہمارے یہاں دیہی علاقوں کی عورتیں ان پڑھہ ہیں۔ ان پڑھہ عورت اپنے معاشرے کوبہتر نہیں بنا سکتی ہے۔ اسلئے پڑھی لکھی عورتوں کا معاشرے میں ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ہی اپنے معاشرے کو سدھار نے کی قوت رکھتی ہے۔ اس لئے دیہی علاقوں میں ہائی اسکول کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اسکول نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقے کی عورتیں کسی بھی قسم کی ترقی نہیں کر سکتی۔علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ علم انکھوں کی روشنی ہے جبکہ علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو روشنی کہا سے آئے گی؟ اس لئے دیہی علاقے کی لڑکیاں کواندھیرے سے نکل کر أجالے میں لایا جائے تاکہ ان کی بھی جہالت اور غربت ختم ہو سکے۔
نازمین اختر جن کی عمر 27 سال ہےِ ان کا کہناہے کہ دیہی علاقوں میں دن بہ دن جہالت اور غربت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہماری پنچایت چکھڑی بن میں ایک بھی ہائی اسکول نہیں ہے جہاں ایک نہیں بلکہ دو ہائی اسکول کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہماری پنچایت بہت بڑی ہے۔ ہماری پنچائت 9 وارڑوں پر مشتمل ہے جہاں 6پرائمری اسکول اور 2 میڈل اسکول ہے۔ ایک طرف یہ نعرے عام ہو چکے ہیں کہ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاوں‘تو دیہی علاقوں کی بیٹیاں کیسے پڑھ پائیں گیں،جب انہیں اسکول ہی میسر نہیں ہے؟جیسے بن بالہ درمیان بن،بن اول بن اور ناگاناڑی یہاں کی لڑکیاں یہ کٹھن راستہ طے کر کے پلیئرہ اڑائی یا لورن نہیں پہونچ سکتی۔ گرمیوں کے موسم میں بھالوں جیسے جنگلی جانوروں کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔ اس خطرے کے بیچ والدین اپنی بچوں کو تعلیم نہیں دے پاتے۔ بچیاں گھر پر رہ گھریلو کام ہی کرتی ہیں۔ گھاس کاٹتی ہیں، گوبر اٹھاتی ہیں،مال و مویشی کو چرہاتی ہیں اور بھی گھر کا بہت ذیادہ کام کرتی۔ دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو غریبی نے بھی ستایا ہے اور گھر کے کاموں نے بھی اس مسائل کے بیچو بیچ گھر والے شادی کروا دیتے ہیں۔ اس وقت لڑکیوں کی زدندگی کی بربادی کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے۔ دیہی علاقوں کی لڑکیاں بہت تنگدستی سے زندگی گزارتی ہیں۔ انتظامیہ کو چاہے کہ وہ ان بیٹیوں کی زندگی کی بربادی تباہی کو مد نظر رکھتے ہوے دیہی لڑکیوں کو انصاف نعروں کے ساتھ ساتھ حقیقی انصاف کا معاملہ کرے۔ تبھی یہ بیٹی بچاو نعرہ بھی سچ اور بیٹی پڑھاؤنعرہ بھی سچ ثابت ہوگا۔
(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا