جیوتسنا ڈامور
ادے پور، راجستھان
خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے حوالے سے دنیا بھر میں وقتاً فوقتاً تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ سیاست میں ان کی نمائندگی ہو یا سماجی اور معاشی میدانوں میں ان کی شرکت۔ سبھی جگح انہیں اہمیت دی جا رہی ہے۔ اب اس کا وسیع اثر بھی نظر آرہا ہے۔ اس وقت دنیا کی تمام حکومتوں نے خواتین کو مرکز میں رکھ کر پالیسیاں اور منصوبے بنانا شروع کر دیے ہیں۔ ہندوستان میں بھی خواتین کے حقوق سے متعلق کئی تحریکوں نے اس سمت میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ آج تمام حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے خواتین کے مسائل کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھنا شروع کر دیا ہے۔ صحت کا مسئلہ ہو، سماجی حیثیت کا ہو یا روزگار کے ذریعے ان کو بااختیار بنانے اور خود انحصاری کا، حکومت نے تمام مسائل کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔اس کا وسیع اثر نہ صرف شہروں بلکہ ملک کے کئی دیہی علاقوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔ جہاں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو پنچایت سطح پر کئی طرح کی سہولیات ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ دیہی خواتین اب اپنے حقوق سے آگاہ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ایسا ہی راجستھان کے گاؤں لویارا کا ہے۔ جہاں آنگن واڑی کے ذریعے نہ صرف خواتین کو غذائیت جیسی سہولیات کا فائدہ مل رہا ہے بلکہ اسکولی سطح پر نوعمر لڑکیوں کو اسکالرشپ بھی فراہم کی جاتی ہے اور ماہواری کے دوران پیڈ بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ راجستھان کے سیاحتی شہر کے طور پر مشہور اودے پور میں واقع یہ گاؤں ضلع ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بڈگاؤں پنچایت سمیتی کے تحت آنے والے اس گاؤں کی آبادی تقریباً ڈھائی ہزار ہے۔
اس درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے اکثریتی گاؤں میں 450 مکانات ہیں۔ گاؤں میں زیادہ تر گیمٹی اور ڈانگی برادریوں کے لوگ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں او بی سی کمیونٹی کی بھی اچھی آبادی ہے۔ باقی عمومی برادری کے کچھ خاندان بھی یہاں آباد ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر مرد مزدوری کرنے کے لیے ادے پور شہر جاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر معمار کاریگروں، بڑھئیوں، ماربل فٹنگ یا ماربل پیسنے کا کام کرتے ہیں، جبکہ خواتین شہر کے بڑے گھروں میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں اور کچھ کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔اگرچہ یہ گاؤں معاشی طور پر مضبوط نہیں ہے لیکن بیداری کے لحاظ سے اس گاؤں میں پہلے کے مقابلے بہتری آئی ہے۔ گاؤں کی خواتین نے حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی اسکیموں کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ایک طرف جہاں انہیں منریگا کے تحت کام ملنا شروع ہو گیا ہے وہیں دوسری طرف آنگن واڑی کے ذریعے سپلیمنٹری نیوٹریشن پروگرام کے تحت سہولیات دستیاب ہونے لگی ہیں۔ گاؤں کی 34 سالہ گنگا دیوی کا کہنا ہے کہ ”روزگار کے معاملے میں خواتین کی صورتحال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے۔ گاؤں میں جب بھی منریگا کے تحت کام ہوتا ہے، خواتین بھی اس میں حصہ لیتی ہیں۔ لیکن یہ مسلسل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین بڑے گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہیں اور کچھ کھیتوں میں مزدوری بھی کرتی ہیں تاکہ گھر کی ضروریات پوری کر سکیں۔“ وہ کہتی ہیں کہ خواتین ملازمت کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہیں۔ اگر گاؤں میں سیلف ہیلپ گروپوں کے تحت روزگار کے مواقع دستیاب ہو جائیں تو یہ لوئیرا گاؤں کی خواتین کے لیے ایک اعزاز ثابت ہو گا۔ اس وقت منریگا کے تحت ہونے والے کاموں میں خواتین کی کافی شرکت ہے۔
گاؤں میں چلائے جانے والے آنگن واڑی مرکز کی تعریف کرتے ہوئے 35 سالہ پریما بائی کہتی ہیں کہ یہ مرکز نہ صرف بچوں کو بلکہ حاملہ خواتین کو بھی وقت پر اضافی خوراک فراہم کرتا ہے۔ سنٹر کی ملازمین تمام ضرورت مند خواتین کو وقت پر غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ حاملہ خواتین کی تمام ویکسین وقت پر کی جائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آنگن واڑی کے ذریعے گاؤں کی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو مفت پیڈ فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ وقتاً فوقتاً یہ معلومات بھی فراہم کرتے ہیں کہ اس عرصے میں خود کو صحت مند کیسے رکھا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ آنگن واڑی سنٹر نوعمر لڑکیوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ جہاں وہ ان تمام چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی ہیں جو وہ گھر میں بھی کسی سے پوچھنے میں جھجک محسوس کرتی تھیں۔ 40 سالہ دھولی بائی کا کہنا ہے کہ پہلے گاؤں کی خواتین کو حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی اسکیموں کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ لیکن اب آنگن واڑی سنٹر کے ذریعے خواتین نے نہ صرف ان اسکیموں کے بارے میں جاننا شروع کر دیا ہے بلکہ ان کا فائدہ بھی اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ تاہم اب بھی کچھ خواتین ایسی ہیں جو مناسب شناختی کارڈ اور دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں۔اگر ہم دیہات میں تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کی بات کریں تو اس میں بھی پہلے کے مقابلے بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔
گاؤں میں، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی زیادہ تر لڑکیوں نے 12ویں تک تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔ وہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی مراعات اور وظائف کا بھی صحیح فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ساتھ ہی اسکولوں میں انہیں نہ صرف ماہواری سے متعلق تمام معلومات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ انہیں پیڈ بھی دستیاب کرائے جاتے ہیں۔ گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول لوئیرا میں نویں جماعت کی طالبہ اوما بتاتی ہیں کہ جب وہ ساتویں جماعت کی طالبہ تھیں تو سکول ٹیچر نے انہیں ماہواری سے متعلق موضوع اور پیڈ استعمال کرنے کا طریقہ بتایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اسکول میں طالبات کے لیے پیڈ دستیاب ہیں۔ 13 سالہ کیتکی، جو اوما کے ساتھ پڑھتی ہے، کہتی ہے،”اسکول کی اساتذہ ہمیں نہ صرف ان مضامین کے بارے میں بلکہ حکومت کی طرف سے طالبات کے مفاد میں چلائی جانے والی کئی دیگر اسکیموں کے بارے میں بھی بتاتے رہتی ہیں۔“ وہ بتاتی ہے کہ اس کے والد یومیہ اجرت پر مزدور ہیں۔ ایسی حالت میں وہ اپنی تعلیم کا متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن حکومت کی طرف سے ملنے والی اسکالرشپ کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ حکومت خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے مفاد میں اسکیمیں نہیں بناتی۔ اولڈ ایج پنشن اسکیم ہو، ایکل ناری سمان اسکیم ہو یا آئی ایم شکتی اڑان اسکیم ہوں۔ یہ سب خواتین کو بااختیار اور خود انحصار بنانے کے مقصد سے شروع کیا گیا ہے۔ لیکن شعور کی کمی کی وجہ سے خواتین اس سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ہیں۔ ایسے میں لوئرا گاؤں کی خواتین کی بیداری اور سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کی تیاری دوسرے دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے یقینی طور پرتحریک کا ذریعہ بنے گی۔ (چرخہ فیچرس)