دین کو نظریات کے دائرہ میں قید کردیا جارہا ہے

0
0

*
ذوالقرنین احمد
(9096331543)
*
دین اسلام مکمل آفاقی نظام حیات ہے انسانوں کی فطرت کے عین مطابق ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو آپ پر نازل کیا اور نبی کریم نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا زندگی کے ہر شعبے میں امت کی رہنمائی فرمائیں ہے۔ پوری انسانیت کی نجات اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن مجید اور نبی کریم کی احادیث مبارکہ میں ہے۔ آپ نے بھٹکے ہوئے انسانوں کو جو اپنے رب کو بھول چکے تھے اور کفر و شرک بت پرستی ظلم و ناانصافی حرام کاموں، گمراہیوں میں زندگی بسر کر رہے تھے ان کی سامنے نبی کریم نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اللہ کے آخری رسول ہونے کی دعوت پیش کی، کفار و مشرکین نے نبی کی دعوت کا انکار کیا اور آپ کو برا بھلا کہا اور پریشان کرنے لگے لیکن آپ دین کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ آپ کو ہجرت کا حکم ہوا مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد مدینہ کا ماحول سازگار تھا وہاں لوگوں نے آپ کا استقبال کیا اور دین اسلام کو تقویت ملتی رہی۔ آپ نے مختلف محاذوں پر کام کیا اور وہاں صاحبہ کرام کی ایک مضبوط جماعت تیار ہوئی صاحبہ کرام نے بھی تجارت کی معاشرت، معاملات کیے، خبریں حاصل کرنا، خبریں پہنچانے کا کام، حالات حاضرہ کی خبر گری، دین کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں کام کیا بیواؤں یتیموں کی خبر گیری، تعلیم کا نظام، حفاظتی انتظامات، حج کے لیے صفر کی تیاری، امن و امان کے لیے معاہدہ، تجارتی قافلوں کی حفاظت کیلے اقدامات ، جیسے مختلف شعبوں میں کام کیا لیکن آج مختلف مکتب فکر اور جماعتوں کے اپنے اپنے نظریات بن چکے ہیں جنھوں نے ایک اپنا دائرہ کار مختص کر لیا ہے جو اس دائرہ سے باہر نہیں آنا چاہتے اور اگر کوئی شخص اس دائرے کے باہر دیکھائی دیتا ہے تو یہ اسے تعصب کا نشانہ بناتے ہے اور اس پر تعن و تشنیع کرتے ہیں اور ذاتیات پر اتر آتے ہیں اسکے خلاف سازشیں کرتے ہیں غیبتیں کرتے ہیں۔یہاں تک کے انکے تعصب اور نفرت سے مسجدوں کے امام بھی محفوظ نہیں ہے مسجدوں کے ائمہ کرام کو واعظ و نصیحت کیلئے اپنے مکتب فکر اور نظریات میں قید کردیا گیا ہے کوئی امام اگر ان کے نظریات سے ہٹ کر چاہے وہ دین اسلام کا کوئی شعبہ ہی کیوں نہ ہو کام کرنا چاہیں یا اس کی ترغیب خطبوں میں پیش کردیں تو وہاں کے مصلی اس امام کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہیں اور اسکے پیچھے غیبتیں کرتے پھرتے ہیں۔
ملک کے موجودہ مشکل حالات جن میں مسلمانوں اور اسلام کو خاص طور سے نشانہ بنایا جارہا ہیں پھر بھی ملت کی آنکھیں نہیں کھول رہی ہے اور مخلتف مکتب فکر جماعتوں کے ذمہ داروں نے بھی اس تعلق سے اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا جو اپنے آپ کو دین کا ٹھیکیدار سمجتھے ہے اور عوام کے دلوں میں ایک دوسرے مسلک و مکتب فکر کے خلاف نفرتیں پھیلانے کا کام کرتے ہیں حال میں ربیع الول کے جلوس میں ایک نوجوان کی دوسرے مکتب فکر کے خلاف نفرت انگیز ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی ہے اور ایک مکتب فکر کے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہورہے ہیں اپنے نظریات سے اگر کوئی متفق نہیں ہے تو کیا اس کے خلاف اتنی نفرتیں پھیلانا کون سکھاتا ہے ظاہر سی بات ہے کے اس طرح کی نفرتیں جن ذہنوں میں عروج پارہی ہے وہ مسجدوں کے ممبروں سے ہی داخل ہورہی ہے۔ ایک دوسرے مسلک و مکتب فکر کے خلاف ایسی گھٹیا حرکت کرنا بلکل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کوئی اگر آپ کے مسلک یا مکتب فکر نظریہ سے متفق نہیں ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہوگیا یا دین صرف وہی ہے جو آپ نے اپنے نظریات کے مطابق سمجھ لیا ہے دین کے ستر سے زیادہ شعبہ ہے اگر کوئی شخص ملت کی فلاح و بہبود کیلے کام کررہا ہے تو وہ بھی اسلام کا ایک شعبہ ہے، کوئی غریبوں مسکینوں بیواؤں، بے روزگاروں کی مدد کررہا ہے ،کوئی تعلیمی میدان میں کام کر رہا ہے کوئی مخلتف انسانی مفادات کیلئے کوشاں ہے تو وہ بھی دین اسلام کا ہی شعبہ ہے۔ لیکن ہماری تنگ نظری اور نفرت پرستی نے ہمیں ایک دوسرے کا دشمن سمجھ لیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے صحیح عقیدہ نظریات افکار اور دین کے کاموں میں چاہیں وہ کوئی شعبہ ہو
جس کا قرآن و حدیث سے تعلق ہو مدد کرنا چاہیے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مکتب فکر کی ذمہ داروں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے اپنی مساجد میں دوسرے مسالک اور مکتب فکر کے ائمہ کرام کو مدعو کرنا چاہیے جن باتوں میں اختلافات ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے جو معاشرتی مسائل ہے سیاسی میدان میں بے وزنی، تعلیمی پسماندگی، بے روزگاری، نوجوانوں کی بے راہ روی، غیر ازدواجی تعلقات ، سودی کاروبار ، عورتوں کے قرض دے کر کے سودی کاروبار میں اضافہ اور انکی عزت و عصمت کو داغ دار کیا جارہا ہے اسکے خلاف ہمیں مساجد کے ممبروں کے ذریعے دوسرے مکتب فکر کی افراد کو مدعو کرکے واعظ و نصیحت بیانات تقاریر کا اہتمام کرنا چاہیے، اور سبھی مکتب فکر کے ائمہ کرام کو اپنی بستی علاقے کے حالات کے مطابق وہاں لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے جن برائیوں حرام کاموں میں قوم ملوث ہورہی ہے اس کے حل تلاش کرنا چاہیے اور اسکے متبادل پیش کرنا چاہیے جہاں سودی کاروبار ہورہے ہیں ہمیں چاہیے وہاں ہم بلا سودی بینک کام کریں۔ بے روزگاروں کو روزگار سے جوڑنے کیلئے اقدامات کریں، نوجوانوں کو فضول کاموں اور وقت کے ضائع ہونے سے بچانے کیلئے انہوں تعمیری سرگرمیوں میں استعمال کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے والدین ، ملک و ملت کیلئے مفید ثابت ہو۔ خواتین بچوں کے اندر دین کی حمیت و غیرت اور عقائد کی مضبوطی کیلئے مکاتب، دینی مدراس قائم کرنے کی کوشش کریں۔
لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اپنے اپنے علاقے میں اسکول کالج یونیورسٹی قائم کرنے کیلئے کوشش کریں۔ اپنی بستی شہر کی ترقی کیلئے سیاسی میدان میں اچھے تعلیم یافتہ باشعور دین کا علم رکھنے والے مخلص لیڈروں کا ساتھ دے کر انہیں اقتدار میں لانے کیلئے کوشش کریں اور انکے سامنے اپنے مطالبات رکھیں جس سے اپنی قوم کا فائدہ ہو اپنی بستی علاقے کی ترقی ہو۔ اگر قوم اسی طرح سیاسی بے وزنی کا شکار ہوتی رہی تو ہمارا دین پر چلنا مشکل ہوجائیگا اسلام کے خلاف قانون سازی ہوتی رہیں گی ہمیں اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ختم کردی جائیںگی، دینی تشخص کے ساتھ زندہ رہنے کیلئے سیاست میں قدموں کو جمانا انہتائی ضروری ہے
کیونکہ جب اسلامی تعلیمات کے خلاف قانون سازی ہوتی ہے تو کھلے دشمن تو ہمارے خلاف ہوتے ہی ہیں اس کے ساتھ سیکولر لبرل نظریات کے حامی افراد مسلمانوں کے خلاف قانون سازی میں اپنا ووٹ دیتے ہیں اور ہمارے ایک دو ووٹ سے ہم اس قانون کو بننے سے نہیں روک سکتے ہمیں سیکولر لیڈران کو بھی اعتماد میں لیے کر ان کے ذریعے سے ملی مفادات کیلئے تعمیری کاموں کیلئے مجبور کرنے کی ضرورت ہیکیونکہ جب ہمارے ووٹوں سے آپ اعوان تک پہنچتے ہیں تو ہمارے مطالبات کو بھی پورا کیجئے اس طرح کا پریشر بنانا چاہیے اور متحد ہوکر سیاسی میدان میں اپنا وزن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا