محمداعظم شاہد
2024 ء لوک سبھا الیکشن جیسے جیسے قریب ہونے لگا ہے ، ویسے ویسے دھرم کے نام پر اوچھی سیاست ایک بار پھر سر اٹھائے چاروں طرف نفرت کا زہر پھیلانے میں مصروف نظر آنے لگی ہے ۔ اتر پردیش کے ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو لے کر جس طرح سیاست کو گرمایا گیا یہ ہم سب پر واضح ہے ۔ مندر مسجد تنازعہ کو تقریباً تیس پینتیس برسوں تک سیاسی مفادات کیلئے بی جے پی استعمال کرتی رہی۔ مندر کی تعمیر کا وعدہ ان کے ایجنڈے میں شامل رہا ۔ اب کیا ہوا وعدہ پورا کرنے کے کارنامے پر مذہبی جذبات کو بنیاد بنا کر ہندوتوا ووٹ کارڈ کھیلنے کی تیاریاں بھی زوروں پر ہیں، وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف والا معاملہ ہے کہ مندر مسجد تنازعہ کو لے کر نفرت کی آندھی پھیلانے والے لال کرشن اڈوانی کو بھارت رتن سے نوازا جا رہا ہے ۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ملک کے سچے ہیرو ہیں، گیان واپی مسجد پر تنازعہ ، واراناسی ( بنارس ) میں کھڑا کیاگیا ہے تو متھرا میںکرشن جنم استھل مندر کے قریب واقع شاہی عیدگاہ مسجد پر واویلا مچایا جارہا ہے ۔ ان دونوں تنازعات پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بیان دیا تھاکہ مساجد میں مندروں کو تلاشنے کی روش کو ملک میں امن اور بھائی چارے کیلئے ختم کرنا چاہئے ۔ کہنے والے کہتے رہے اور عدالتوں میںدائر مقدمات کے دوران وہی فرسودہ دلائل پیش کئے گئے کہ مندروں کو مسمار کرکے یا پھر مندروں کی اراضی پر قبضہ کرکے مساجد تعمیر کی گئی ہیں۔ پھر سال 1991 ء میں عبادت گاہوں کیلئے خصوصی مراعات قانون منظور کیاگیا تھا جس میں کہا گیاکہ ملک کی آزادی یعنی 15 ؍اگست 1947 ء کو جو عبادت گاہیں مندر ہوں کہ مساجد ، ان کی وہی قانونی حیثیت برقرار رکھی جائے ، مگر انہی دنوں بابری مسجد رام مندر تنازعہ شدت اختیارکرگیا تھا، تبھی کئی ہندو مذہبی تنظیمیں بشمول وشوا ہندو پریشد نے وارانسی اور متھرا کی مساجد پر تنازعہ قائم کرکے عدالتوں تک اس معاملے کی رسائی کیلئے راہیں ہموار کیں، الیکشن کے نزدیک ان معاملات پر یہ کہا جا رہا ہے کہ 1991 ء کے قانون کا ان مساجد پر کوئی اطلاق نہیںہوگا، فرقہ پرست ہندو تنظیمیں اب ملک کے طول و عرض میں وہی بابری مسجدکا تنازعہ الگ الگ رنگ سے تازہ کرنا چاہتی ہیں، برسوں سے قائم مساجد اور مدارس پر مقامی بلدی انتظامیہ ان عمارتوں کو غیر قانونی اور ناجائز قبضے کا لیبل لگا کر بے رحمی سے ان پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔
اترکھنڈ کے نینی تال ضلع کے ہلدوانی میں ابھی چند دن قبل اسی نوعیت کا معاملہ سامنے آیا ہے جہاں مسجد اور مدرسہ کی عمارت کو مسمار کردیاگیا ۔ نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا، اتر کھنڈ میں جب ریاستی حکومت نے یہ اعلان کیاکہ یونی فارم سیول کوڈ کو نافذ کرنے والی یہ ملک کی پہلی ریاست ہے ، تو تنگ نظر فرقہ پرستوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ مذہبی معاملات میں مداخلت کے مترادف متنازعہ یو سی سی پر ملک بھر میں احتجاج ہوتا رہا ہے ۔ کیوںکہ اس قانون کی آڑ میں مذہبی عقائد کو تاراج کرنا عین مقصد ہے ، آسام میں بی جے پی حکومت مسلمانوں کے خلاف نہ صرف غلط بیانی کرتی رہی ہے بلکہ انہیں ہراساں کرنے کے نئے نئے مواقع تلاشتی رہی ہے ۔ ان تمام حالات اور واقعات کے درمیان سی اے اے شہریت ترمیمی قانون کا بھوت وقتاً فوقتاً ڈراتا رہتا ہے ۔
ابھی چند دن پہلے ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا ہے کہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے اس متنازعہ قانون کا نفاذ عملی طورپر ہوکر ہی رہے گا، یعنی جس طرح مسلم مخالف ماحول تیار کیا جانا چاہئے ویسے کوششیں ہوتی رہی ہیں، مذہب کے نام پر ووٹ بٹورنے کا کام پولرائزیشن کا بی جے پی اور اس کے ہمنوا کرتے آئے ہیں، اس کی زندہ مثال سابقہ دو لوک سبھا کے انتخابات (2019-2014 ء ) رہے ہیں، اسی روش اور روایت کو اس بار زوروں سے اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کے بھرپور منصوبہ بند جتن کئے جا رہے ہیں، جس شدت کے ساتھ بی جے پی آر ایس ایس کی سرپرستی اور اپنے ہمنوا صنعتکار سرمایہ داروں کی حمایت سے مجوزہ الیکشن کی تیاریاں کر رہی ہے ، اس کے موازنہ میںاپوزیشن میں ابھی تک وہ حرارت اور جستجو نظر نہیں آرہی ہے ۔
حکومت کی جانب سے جاری تمام اشتہارات ، کیلنڈر یہاں تک کہ تمام احکامات اور اسناد اور ضروری دستاویزات میں بھی مودی کی برانڈنگ کی جا رہی ہے۔ ہر جگہ مسکراتی ہوئی مودی کی تصویر، حیرت انگیز طورپر اپنے منصب کا بے جا استعمال ہو رہا ہے اور سب خاموش ہیں۔
خاموش رہنے اور تماشائی بنے رہنے ہی میں عافیت محسوس کرنے والے عوام کی اکثریت Silent Majority بن کر رہ گئی ہے ۔ جو سامنے آئے ، نظر آئے وہ منظور کرلیا جاتا رہا ہے۔ ملک میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو اندھی تقلید میں دھرم کی سیاست کو بڑھاوا دینے والے ہیں، ہندی بیلٹ میںہوئے ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں یہی سب کچھ تو ہوا ہے اور یہی کچھ اس بار بھی لوک سبھا انتخابات میںاگر دہرایاگیا تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ با شعور احباب کرسکتے ہیں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے آخری سیشن کے دوران مودی نے جس طرز کا لہجہ اپنایا اور سابقہ حکومتوں پر جس نوعیت کی الزام تراشی کی اور اپنی میعاد کو نئے بھارت کی تعمیر و تشکیل سے جوڑ کر لن ترانیاں کیں، اس پر کیا کہیں، ملک میںمرکز اور ریاستوں کے درمیان بڑھتے فاصلے بھی ترقی کے حوالے سے تشویش کا باعث ہیں، حالات کس رخ کروٹ لیتے ہیں ،اس کے آثار ہلکے ہلکے ظاہر ہونے لگے ہیں۔