دور دراز کے گائوں میں نیٹ ورک بھی مشکل ہے

0
0

 

 

 

 

 

 

 

نشا دانو
کپکوٹ، اتراکھنڈ

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ایک ہندوستان میں ہی دو ملک ہیں۔ ایک ہندوستان جو شہری ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ تمام سہولیات موجود ہیں، جہاں زندگی کی تمام بنیادی ضروریات میسر ہیں۔ جہاں تمام ضروری چیزیں جیسے جدید سڑکیں، ہسپتال، بچوں کے لیے اسکول، ٹرانسپورٹ کے تمام ذرائع، بجلی اور پانی دستیاب ہیں۔ جہاں نیٹ ورک اتنا تیز ہے کہ آپ صرف ایک کلک میں اپنی پسند کی چیزیں آرڈر کر سکتے ہیں۔ لیکن اسی ہندوستان کی ایک اور شکل دیہی علاقے کے طورپر موجودہے۔ جو اپنی بنیادی ضروریات کے لیے بھی ترستا ہے۔ شہروں سے ملحقہ دیہی علاقوں میںپھر بھی ترقی ہوئی ہے، لیکن بہت سے دور دراز دیہات ایسے ہیں جہاںدوسری سہولتوں کو تو چھوڑیں، نیٹ ورک جیسی بنیادی سہولت تک نہیں ہے، ۔ جہاں ان علاقوں کے لوگ اپنے پیاروں سے بات کرنے کو ترستے ہیں وہیں نوجوان اور طلباء روزگار اور تعلیم میں پیچھے ہیں۔ایسا ہی ایک گاؤں کپکوٹ بلاک کا جگتھانہ ہے جو پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع ہے۔ جہاں تک پہنچنا بہت مشکل اور ناقابل رسائی ہے۔ بلاک کپکوٹ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور اس گاؤں میں نیٹ ورک کی سہولیات سڑکوں سے بھی زیادہ ناقابل رسائی ہیں۔ جدید دور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ اب انٹرنیٹ پر سب کچھ دستیاب ہے۔ چاہے وہ تعلیم ہو، روزگار سے متعلق معاملات ہوں یا حکومت کی طرف سے دیہات کی ترقی کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں سے متعلق معلومات حاصل کرنا ہو۔ سب کچھ ایک کلک سے دستیاب ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ جاننے کے لیے نیٹ ورک کا ہونا بہت ضروری ہے، یعنی نیٹ ورک کے بغیر کوئی کام مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن جگتھانہ گاؤں کے لوگوں کو یہ نیٹ ورک بہت کم ملتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو اپنے کنبہ کے افراد سے بات کرنے کی ضرورت ہو یا نوجوانوں کو روزگار سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ضرورت یا طلباء کو تعلیم سے متعلق معلومات تلاش کرنے کی ضرورت ہو یا ضرورت مند لوگوں کو سرکاری اسکیموں کے فوائد حاصل کرنے کے لیے معلومات جمع کرنے کی ضرورت، ہر کسی کو انٹرنیٹ کی سہولت اور اس کو چلانے کے لیے نیٹ ورک کی سہولت کا ہونا ضروری ہے۔ جس کا اس گاؤں میں مکمل فقدان ہے۔اس سلسلے میں گاؤں کی 11ویں جماعت میں پڑھنے والی طالبہ یوگیتا کا کہنا ہے کہ مجھے اپنی پڑھائی سے متعلق تازہ ترین معلومات کے لیے انٹرنیٹ کی مدد لینی پڑتی ہے۔ بعض اوقات کلاسز آن لائن بھی کی جاتی ہیں۔ لیکن نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے نہ تو میں کوئی معلومات حاصل کر پا رہی ہوں اور نہ ہی میں اپنے موضوع کے بارے میں اپ ڈیٹ رہ سکتی ہوں۔ کئی بار آن لائن کلاسز میں شرکت کے لیے مجھے گھر سے بہت دور پہاڑوں پر جانا پڑتا ہے۔ کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں، میرے گھر والے مجھے اکیلے پہاڑوں پر نہیں جانے دیتے۔ ایسی صورت حال میں مجھے خاندان کے کسی مرد رکن کو ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔ لیکن جب والد یا بھائی گھر پر موجود نہیں ہوتے ہیں تو مجھے اپنی آن لائن کلاسز چھوڑنی پڑتی ہیں۔ اگر گاؤں میں نیٹ ورک کی مکمل سہولت ہوتی تو مجھے آن لائن کلاسز کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔ گاؤں کے ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ آج کل نوکری کے اشتہار سے لے کر درخواست بھرنے تک سب کچھ آن لائن ہو گیا ہے۔ گاؤں میں نیٹ ورک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار ہمیں اشتہار کی اشاعت کی اطلاع اس وقت ملتی ہے جب اس کی آخری تاریخ قریب ہوتی ہے یا ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوان درخواستیں بھرنے کے لیے شہروں میں سائبر کیفے جاتے ہیں لیکن ہم جیسے مالی طور پر کمزور درخواست گزاروں کے لیے بار بار پیسے خرچ کر کے شہر جانا بہت مشکل ہے۔
38 سالہ بھارتی دیوی کا کہنا ہے کہ نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے ہمارے لیے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان سے بات کرنے کے لیے اکثر پہاڑوں پر جانا پڑتا ہے تاکہ نیٹ ورک کی مناسب سہولیات حاصل ہو سکے اور ان سے بات کر سکیں۔ بھارتی کے پاس بیٹھی 60 سالہ بالیا دیوی کہتی ہیں کہ یہ لوگ پہاڑوں پر جا کر باتیں کرتے ہیں لیکن ہم بوڑھے اپنے بچوں سے بات کرنے کو ترستے ہیں۔ اس بلندی پر چڑھنے کی طاقت جسم میں باقی نہیں رہی۔ بلیا دیوی کے بچے کمانے کے لیے شہروں میں چلے گئے ہیں۔ جب وہ سال میں ایک بار گاؤں آتے ہیں تو بالیا ان سے بات کرپاتی ہیں ہے۔ 50 سالہ نندن سنگھ کا کہنا ہے کہ جب مجھے اپنے رشتہ داروں سے بات کرنی ہوتی ہے تو میں اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے پہاڑوں پر لے جاتا ہوں۔ 45 سالہ مادھوی دیوی کا کہنا ہے کہ ایک دن جب میں اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے پہاڑ کے قریب جنگل میں لے گئی اور رشتہ داروں سے بات کرنے لگی تو اچانک شیر نے حملہ کر کے میری دونوں بکریوں کو چھین لیا، جس کے بعد میں نے وہاں جانا چھوڑ دیا۔ صرف گاؤں کے عام آدمی کو ہی نیٹ ورک کی پریشانیوں کا سامنا نہیںکرنا پڑتا ہے۔
40 سالہ کشن کا کہنا ہے کہ میں پینے کے پانی کے محکمے میں کام کرتا ہوں۔ پانی سے متعلق لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرنا میری ذمہ داری ہے۔ لیکن گاؤں میں نیٹ ورک کی پریشانی کی وجہ سے لوگ مجھے فون نہیں کر پا تے ہیں۔ کئی بار ان کے پیغامات بھی مجھ تک نہیں پہنچ پاتے اور انہیں کئی دنوں تک بلا وجہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کشن کا کہنا ہے کہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ روزمرہ کے معمولات میں پانی کتنا ضروری ہے، اس لیے جیسے ہی مجھے اطلاع ملتی ہے میںمسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اگر نیٹ ورک کے مسئلے کی وجہ سے لوگ مجھ سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ اگر گاؤں میں نیٹ ورک کا مسئلہ حل ہو جائے تو گاؤں والوں کے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کشن کے آس پاس کھڑے کچھ لوگ انتظامہ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ وہ لوگ نیٹ ورک جیسی سہولت سے بھی محروم کیوں ہیں؟ مقامی انتظامیہ یا عوامی نمائندے ان کے مسائل پر سنجیدگی سے توجہ کیوں نہیں دیتے ہیں؟ ان کی سہولیات کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟
درحقیقت، ترقی کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے دیہات، خاص طور پر ملک کے دور دراز گاؤں جیسے جگتھانہ، پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر ہم ملک کو ترقی یافتہ بناناچاہتے ہیں تو ہمیں ترقی کے تمام پہلوؤں اور شعبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ درحقیقت ہم ترقی کر رہے ہیں لیکن رکاوٹ تب آتی ہے جب ہم ان ناقابل رسائی اور دور دراز دیہاتوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ جب ترقی کا پہیہ شہر سے گاؤں تک یکساں طور پر گھومتا ہے تب ہی ہم خود کو ترقی یافتہ قوم کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ملک کے دور افتادہ گاؤں جیسے جگتھانہ کو نیٹ ورک جیسی ضروریات فراہم کی جائیں، تاکہ ملک کے تمام شہریوں کو رابطے کے ایک دھاگے سے جوڑا جاسکے۔ (چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا