دور جدید میں عورت کی حرمت کی اہمیت اور ضرورت”

0
0

 

 

 

سید واصف اقبال گیلانی

اسلام امن، مساوات اور سماجی انصاف کا مذہب ہے۔ اس نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کو ایک بنیادی فریضہ قرار دیا ہے۔ نبی کریم کی زندگی، قرآن مجید کی متعدد آیات، اور اسلامی تاریخ کے شاندار واقعات عورت کی تکریم اور توقیر کا واضح ثبوت ہیں۔ تاہم، آج کے معاشرے میں مسلم خواتین کو اکثر امتیازی سلوک، روایتی توقعات، اور دقیانوسی تصورات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ یہ تحقیقی مقالہ خواتین کے مقام کو اسلام کی روشنی میں زیر بحث لائے گا، اور اس بات پر زور دے گا کہ مسلم معاشروں میں ان حقوق کو مؤثر طریقے سے کیوں لاگو کیا جانا چاہیے۔
اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان جو رشتہ قائم کیا ہے وہ مساوات، باہمی احترام، اور تعاون پر مبنی ہے۔ قرآن مجید اور نبی کریم کی احادیث مبارکہ واضح طور پر عورت کے وقار، احترام، اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر زور دیتی ہیں۔ قرآن مجید انسانی تخلیق کے عمل میں برابری کی تعلیم دیتا ہے:”لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دْنیا میں پھیلا دیے۔ اْس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دْوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلّقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے”۔ (سور النساء ، آیت 4:1)- اس آیت میں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمام مرد اور عورتیں ایک ہی اصل سے پیدا کیے گئے ہیں اور اپنی اصل اور تخلیق کے حوالے سے برابر ہیں۔ یہ برابری کا تصور کسی بھی سماج کے بنیادی ڈھانچے کے لیے بہت اہم ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ صنف کا کوئی فرق کیے بغیر تمام لوگوں کی عزت کی جانی چاہیے۔
نبی کریم کی پوری زندگی خواتین کے احترام و عزت کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ اپنے گھر اور معاشرے میں خواتین کے ساتھ نرم مزاجی، شفقت اور مہربانی سے پیش آتے۔ اپنی الوداعی حج کے خطبے میں، نبی کریم نے مردوں کو حکم دیا: "اللہ کے بارے میں ڈرو اور خواتین کے بارے میں نیک سلوک کرو۔ تم نے انہیں اللہ کے امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے کلام سے ان کے ساتھ حلال تعلقات استوار کیے ہیں۔” حج الوداع کے موقع پر حضور اکرم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو نصیحت فرمائی اور انہیں سمجھایا۔ پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر کیا ہے جس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا:

"سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس (ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا ہے) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علاحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو، سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے۔ سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھا سلوک کرو۔” (سنن الترمذ: 1163)
اس حدیث میں حضور اکرم نے عورتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عورتیں تمہارے پاس قیدی نہیں ہیں بلکہ وہ تمہاری ساتھی ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تمہارا فرض ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر عورت کوئی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دینے کا حق ہے، لیکن یہ سزا اذیت ناک نہیں ہونی چاہیے۔ اگر وہ اپنی غلطی سے توبہ کر لے تو اسے معاف کر دینا چاہیے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ شوہر کا بیوی پر حق ہے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف کسی کو گھر میں نہ آنے دے اور اس کے بستر پر نہ سونے دے۔ اسی طرح بیوی کا بھی شوہر پر حق ہے کہ وہ اسے اچھے کپڑے اور زیورات پہنائے۔
اس حدیث میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ خیر خواہی اور حسن سلوک کیا جائے۔ انہیں قیدی سمجھنے کی بجائے انہیں اپنے ساتھی اور برابر سمجھا جائے۔ حضور اکرم نے واضح طور پر فرمایا کہ عورتیں قیدی نہیں ہیں بلکہ وہ تمہاری ساتھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کے تابع نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ان کے اپنے حقوق اور آزادی ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے۔ شوہر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کھلی بے حیائی سے روکے۔ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بیوی پر ظلم کرے یا اسے مارے۔ اگر عورت اپنی غلطی سے توبہ کر لے تو اسے معاف کر دینا چاہیے۔ اس سے تعلقات میں مضبوطی پیدا ہوگی اور گھر میں خوشی رہے گی۔ شوہر اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ شوہر کا حق ہے کہ بیوی اس کی اطاعت کرے اور اس کے حقوق ادا کرے۔ اسی طرح بیوی کا بھی حق ہے کہ شوہر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اس کے حقوق ادا کرے۔
یہ حدیث آج کے زمانے میں بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ اس وقت تھی۔ آج بھی دنیا کے بہت سے حصوں میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی اور امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اس حدیث میں حضور اکرم کی تعلیمات ہمیں عورتوں کے حقوق کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ مسلم مرد خواتین کے ساتھ شفقت، انصاف اور عزت سے پیش آئیں۔ برصغیر پاک و ہند اور بنگلادیش میں، جہاں خاندانی نظام اور مردانہ غلبہ کے روایتی تصورات کا بہت اثر و رسوخ ہے، وہاں خواتین پر مردانہ برتری کے جواز کے طور پر پیش کردہ غلط تشریحات کے خلاف نبی کریم کی تعلیمات پر روشنی ڈالنا از حد ضروری ہے۔
اسلام خواتین کو بہت سے بنیادی حقوق دیتا ہے جو معاشی، سماجی اور روحانی شعبوں میں ان کے مقام کو مضبوط کرتے ہیں۔ قرآن اور حدیث خواتین کے حقوق کی ایک وسیع پیمانہ پر روشنی ڈالتے ہیں، جن میں تعلیم، وراثت، معاشی آزادی اور ازدواجی پسند کا حق شامل ہیں:
اسلام مردوں اور عورتوں دونوں پر علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔” برصغیر کے بعض علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کرنے کے عمل کے خلاف اسلامی تعلیمات پر زور دینا بہت ضروری ہے۔ اسلام خواتین کو اپنے خاندان کی جائیداد میں وراثت کا واضح طور پر طے شدہ حصہ دیتا ہے۔ یہ حق خواتین کو مالی خودمختاری اور معاشی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ برصغیر کے دیہی علاقوں میں، جہاں عورتوں کے وراثتی حقوق عموماً نظرانداز کردئیے جاتے ہیں، وہاں اسلامی احکام کی آگاہی بڑھانا مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے۔
اسلام خواتین کو اپنی مرضی سے جائیداد رکھنے، کام کرنے، اور اپنی آمدنی کا تصرف کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ مالی تحفظ کی فراہمی میں اہم عنصر ہے اور خواتین کو ان کی زندگیوں پر خود اختیار دیتا ہے۔ اسلام میں شادی ہر فرد کا حق ہے، اور عورتوں کو شادی میں اپنی مرضی اور پسند کا اظہار کرنے کا پورا اختیار ہے۔ نبی کریم ? نے یہ تعلیم دی کہ عورتوں کو ان کی رضامندی کے بغیر شادی پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر ہندوستانی تناظر میں جہاں خواتین کو اکثر شادی کے انتخاب میں بہت کم خود اختیاری حاصل ہوتی ہے، وہاں ازدواجی معاملات میں خواتین کی مرضی اور پسند پر اسلامی زور کا اعادہ نہایت ضروری ہے۔
برصغیر کے معاشروں کی پدرانہ اور روایتی ساخت میں، خواتین کے احترام اور ان کے بنیادی حقوق کے تصور کو اکثر غلط فہمیوں، دقیانوسی رجحانات اور قدامت پسند ثقافتی اقدار کی وجہ سے کمزور کر دیا جاتا ہے۔ لہذا جنوب ایشیا کے تناظر میں، اسلام کی اصل تعلیمات پر روشنی ڈالنا ازحد ضروری ہے جو خواتین کے وقار، احترام اور خودمختاری پر زور دیتی ہیں، جیسا کہ قرآن کریم تخلیق انسانی کے عمل میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے-
برصغیر کے اکثر علاقوں میں پدر شاہی کی مضبوط جڑیں ہیں اور جہاں مرد کو خاندان اور معاشرے کا حتمی سربراہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ رجحان اس بنیادی قرآنی تصور کو کمزور کرتا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی اصل سے پیدا کیے گئے ہیں اور اس لیے ان کے درمیان انسانی قدر و قیمت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صنفی نابرابری اور خواتین کی ثانوی حیثیت کی جڑیں پدر شاہی نظام میں گہری سمائی ہوئی ہیں، چنانچہ اس مساوات کے بنیادی تصور کو اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے۔
برصغیر میں خواتین کے مقام کو کم تر سمجھنے والی روایات اور رسومات پر تنقید کرنے کے لیے نبی کریم کی تعلیمات رہنماء کرتی ہے۔ آپکی زندگی اور تعلیمات خواتین کے ساتھ نرم مزاجی، شفقت اور مہربانی کی مثالیں ہیں۔ ان تعلیمات کا براہ راست اطلاق برصغیر کے ان علاقوں کے روایتی رسم و رواج کے مقابلے میں آتا ہے، جہاں خاندانی زندگی میں بعض اوقات سختی اور خواتین کی اطاعت کا غیر صحت مند رجحان دیکھنے میں آتا ہے۔ نبی کریم ? کے الوداعی حج کے خطبے کے ان الفاظ کا جنوب ایشیا کے مسلمانوں کے ذہنوں میں گہرا اثر ہونا چاہیے: "اللہ کے بارے میں ڈرو اور خواتین کے بارے میں نیک سلوک کرو۔ تم نے انہیں اللہ کے امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے کلام سے ان کے ساتھ حلال تعلقات استوار کیے ہیں۔
برصغیر کے معاشروں میں عموماً صنفی امتیاز کا پہلو کافی نمایاں ہے، اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نبی کریم ? کے اس واضح اعلان کا اعادہ برصغیر کے مسلم خاندانوں کے لیے لازمی ہے: "علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔” اسلامی تصور تعلیم کو مرد اور عورت دونوں کے لیے کلیدی قرار دیتا ہے۔ برصغیر کے دیہی علاقوں میں خواتین کے وراثتی حقوق کا تصور اکثر دھندلا یا غیر موجود ہوتا ہے۔ خاندان کی جائیداد میں عورت کے مستحق حصے کی اسلامی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف اللہ کے حکم پر عمل ہو بلکہ یہ بھی یقینی بنایا جاسکے کہ خواتین کو مالی تحفظ اور خود کفالت کے مواقع میسر ہوں۔

اگرچہ شہری علاقوں میں خواتین باہر کام کرنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، تاہم اب بھی عورت کی معاشی آزادی پر سماجی پابندیاں ہیں۔ برصغیر میں خواتین کی معاشی خودمختاری کے راستے میں روایتی سوچ بڑی رکاوٹ ہے، اور اس کے خاتمے کے لیے اسلام کی ان تعلیمات کو واضح کرنا ضروری ہے جو خواتین کو اپنی جائیداد رکھنے، کام کرنے اور اپنی آمدنی کو اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار دیتی ہیں۔ اسلامی تاریخ خواتین کی بہادر، ذہین، اور بااثر شخصیات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے علم، قیادت، اور سماجی اصلاحات کے شعبوں میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔ ان خواتین کی میراث کو اجاگر کرنا نہ صرف ماضی کے ساتھ منسلک ہونے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے بلکہ یہ برصغیر کی مسلم خواتین کے لیے رول ماڈلز اور تحریک کا وسیلہ بھی فراہم کرتا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام کی ابتدائی تاریخ کی سب سے اہم شخصیات میں سے ایک تھیں۔ ایک کامیاب تاجرہ، انہوں نے اپنا وقت اور دولت اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کی مدد کے لیے وقف کر دیا تھی۔ ان کی بے لوث حمایت، عقلمندی، اور نبی کریم ? کی رسالت پر ان کا مضبوط یقین اسلام کے پھیلاؤ اور کامیابی کے لیے ناقابل یقین حد تک اہم ثابت ہوا۔ ہندوستان میں جہاں اکثر خواتین کو معاشرے کے معاشی شعبوں کے باہر رکھا گیا اور جاتا ہے وہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نمونہ خواتین کو کاروباری صلاحیتوں اور قیادت کی اہلیت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

نبی کریم ? کی محبوب زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے وقت کی مایہ ناز عالمہ دین تھیں۔ ان کا علم فقہ، حدیث، اور تفسیر قرآن وسیع تھا، اور انہیں حدیث کی سب سے بڑی راویوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام برصغیر میں خواتین کے لیے تعلیم کے حصول، اعلیٰ علمی مقام حاصل کرنے، اور معاشرے پر علمی رہنما کے طور پر اثر انداز ہونے کی ترغیب میں ایک کلیدی حوالہ ہے۔

فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا اپنی تقویٰ، مہربانی، اور بے لوث خدمت کے لیے مشہور تھیں۔ وہ نہ صرف نبی کریم ? کی لاڈلی بیٹی تھیں بلکہ اسلامی تاریخ کی عظیم ترین خواتین میں سے ایک مانی جاتی ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مثال برصغیرئی خاندانوں میں روایتی طور پر بیٹوں پر بیٹیوں کو ترجیح دینے کے فرسودہ رویے کے مقابلے میں آتی ہے۔ ان کا نمونہ بیٹیوں کی پرورش، تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے پر زور دینے کا ایک مثالی تصور فراہم کرتا ہے۔

برصغیر مسلم تاریخ میں خواتین کی اپنی متاثر کن مثالیں رکھتا ہے، شہریاروں سے لے کر صوفی بزرگوں تک۔ یہ خواتین برصغیر میں خواتین کی قیادت اور خدمت کی ایک انمول روایت کی نمائندگی کرتی ہیں: دہلی سلطنت کی واحد خاتون حکمران رضیہ سلطانہ اپنی سیاسی بصیرت، فوجی مہارت اور عدل و انصاف سے مشہور تھیں۔ وہ ایک مضبوط رہنما کا مثالی نمونہ فراہم کرتی ہے، جو عورت کی روایتی اطاعت پر مبنی تصورات کو چیلنج کرتی ہے۔

لکشمیر کی عظیم صوفی شاعرہ لالہ دیدی کی شاعری نے ہم آہنگی، محبت، اور انسانی وقار کے بنیادی پیغامات کے ساتھ علاقے کی روحانی اور فلسفیانہ سوچ کو شکل دینے میں مدد کی ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں بیگم ہضرت محل ایک اہم شخصیت تھیں، جنہوں نے برطانوی راج کے خلاف اودھ کے عوام کی قیادت کی۔ ان کی بہادری اور عزم خواتین کی تحریکوں اور قومی سطح پر معیاری تبدیلی کی خواہش کے لیے تحریک کا باعث بن سکتے ہیں۔

اسلامی تاریخ کی ان عظیم خواتین کی میراث کو زندہ رکھنا خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ برصغیر کی مسلم خواتین کے لیے ان شخصیات کے مطالعے اور ان کے نمونوں سے رہنمائی حاصل کرنا مفید ہو سکتا ہے۔ ان میں سے بہت سی خواتین مردانہ بالا دستی کے دور میں کام یاب ہوئیں، ان کی محنت اور لگن برصغیر میں جدید خواتین کو موجودہ پدرانہ اور روایتی ماحول میں کامیاب ہونے کی تحریک دے سکتے ہیں۔

سر سید احمد خان کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کا سہرا تو ضرور جاتا ہے لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس یونیورسٹی کے قیام میں جہاں مسلمان مردوں کا کردار اہم تھا وہیں بیگم سلطان جہاں جیسی مسلم خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف یونیورسٹی کے قیام میں مالی اعانت فراہم کی بلکہ اس ادارے کو چلانے کے لیے مسلسل کوششیں بھی کیں۔ ان کی یہ کوششیں آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس سے وابستہ لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔

جدید دنیا میں مسلم خواتین کو متعدد مسائل کا سامنا ہے، جو مختلف سماجی اور ثقافتی عوامل کے ساتھ ساتھ امتیازی سلوک اور دقیانوسی تصورات کے مرکب سے پیدا ہوتے ہیں۔ برصغیر میں، یہ چیلنجز معاشرتی پابندیوں، تعلیمی اور پیشہ ورانہ رکاوٹوں، صنفی امتیاز، اور میڈیا کے ذریعے غلط تشریحات سے نمایاں طور پر بڑھ جاتے ہیں۔

برصغیر کے بہت سے حصوں میں، مسلم خواتین کو اکثر معاشرتی اور ثقافتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی نقل و حرکت اور معاشرے میں ان کی شرکت کو محدود کرتی ہیں۔ خاندان اور برادری کے دباؤ اکثر عورت کی زندگی کے بنیادی فیصلوں بشمول تعلیم، کیریئر، اور شادی کے انتخاب کو متاثر کرتے ہیں۔ "عزت”، جو بنیادی طور پر مردوں کے کنٹرول اور خواتین کی اطاعت سے وابستہ ہے، کے نام پر کئی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں خودمختاری محدود، مواقع میں کمی اور نفسیاتی بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برصغیرئی ممالک میں کئی خواتین پر جبری شادی مسلط کی جاتی ہے، جو ان پر جسمانی اور جذباتی صحت کے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ خواتین کی عوامی عوامل سے دوری کے روایتی تصورات بہت سے معاشروں میں موجود ہیں، جو خواتین کی معاشرے میں بھرپور شمولیت کو محدود کرتے ہیں۔
بقیہ مضمون صفحہ 6
برصغیر کے کچھ حصوں میں بہت سی خواتین تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع سے محروم ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں، بہت سی لڑکیاں کم عمری میں اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ یہی رجحان اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کے سلسلے میں جاری رہتا ہے جہاں اکثر صنفی امتیاز، خاندانی دباؤ اور شادی کے بعد خواتین پر کیریئر ختم کرنے کے روایتی توقعات رکاوٹ بنتے ہیں۔ برصغیرئی ممالک میں شرح خواندگی میں صنفی فرق موجود ہے۔ اس کے علاوہ خواتین معاشی مواقع میں پیچھے ہیں، مردوں کی نسبت کم معاوضوں اور ترقی میں رکاوٹ [Glass Ceiling] کے سامنے خواتین کی ترقی کی راہ میں مشکلات حائل ہیں۔
برصغیر ہند میں اکثر خواتین کو گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، اور دیگر شکلوں میں صنفی امتیاز کے پھیلے ہوئے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی یہ بدسلوکی مذہب یا روایت کے نام پر کی جاتی ہے۔ خواتین جو اپنی پسند سے شادی کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں یا سماجی توقعات کی پیروی کرنے سے انکار کرتی ہیں انہیں "غیرت کے نام پر قتل” تک کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ برصغیر میں خواتین کے لیے ان چیلنجوں کو اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے۔ تیزاب پھینکنے کے حملے، جنسی ہراسانی اور عوامی مقامات پر تحفظ کا فقدان برصغیر میں متعدد خواتین کے تجربات میں شمار ہوتی ہیں۔ جہیز سے متعلق تشدد اور ناراض کن سسرالی رشتہ داروں سے بدسلوکی کے واقعات انتہائی عام ہیں۔
تاہم، یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ برصغیر کی بہت سی خواتین نہ صرف پیشہ ورانہ تعلیم سے محروم ہیں بلکہ دینی تعلیم سے بھی نا آشنا ہیں۔ وہ مذہبی احکامات سے بے خبر ہو کر، اپنے محدود حلقے کی خواتین سے مشورہ کرتی ہیں، جس سے مسائل کا اسلامی نقطہ نظر سے حل نکلنے کے بجائے، معاشرتی روایات اور سیاسی مفادات ان کی زندگیوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف، اگر خواتین پیشہ ورانہ تعلیم پر عبور رکھتی ہیں تو وہ مذہبی عقیدے کو اس حد تک چیلنج کرتی ہیں کہ وہ اسلام مخالف سوچ کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی خواتین بھی ہیں جو بغیر سمجھے عربی میں صرف قرآن پڑھنے تک محدود رہتی ہیں اور دوسرے علم اور تعلیم کو فضول سمجھتی ہیں۔
میڈیا میں مسلم خواتین کو اکثر منفی اور دقیانوسی تصورات کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ انھیں پردے میں دبے ہوئے، مظلوم یا دہشت گردی کی حمایت کرنے والی خواتین کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ یہ غلط بیانیہ عوامی سطح پر مسلم خواتین کی غلط فہمیوں میں حصہ ڈالتا ہے اور معاشرے میں ان کی قبولیت اور شمولیت میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ برصغیر میں مسلم خواتین کے منفرد مسائل کے پیش نظر، خواتین کو تعلیم فراہم کرنے کی جامع کوششوں، معاشی مواقع بڑھانے، قانون کو مضبوط بنانے اور خواتین کے خلاف جرائم کو کم کرنے، معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے آواز اٹھانے، اور مسلم خواتین کی میڈیا میں عادلانہ نمائندگی پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔

برصغیر کی بہت سی خواتین نہ صرف پیشہ ورانہ تعلیم سے محروم ہیں بلکہ دینی تعلیم سے بھی نا آشنا ہیں۔ یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے جو معاشرے میں متعدد مسائل کا باعث بنتی ہے۔ تاہم، یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم اور دینی تعلیم ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں، بلکہ دونوں مل کر ایک ایسی شخصیت کو پروان چڑھاتی ہیں جو اپنے مذہب اور پیشے دونوں میں، ایک ذمہ دار اور باخبر فرد کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم خواتین کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے، سماجی اور معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ان کی مدد کرتی ہے، اور انہیں خود انحصاری سکھاتی ہے۔ دوسری طرف، دینی تعلیم انہیں اخلاقی اقدار اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتی ہے، جس سے ان کی زندگیوں میں مقصد اور معنویت پیدا ہوتی ہے۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ خواتین کو دونوں قسم کی تعلیم تک برابر رسائی حاصل ہو۔ ایسی صورت میں وہ نہ صرف اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے، بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی ایک قیمتی اثاثہ بن سکتی ہیں۔ برصغیر میں خواتین کی تحریکوں اور حقوق کی تنظیموں کا ایک تاریخی ریکارڈ موجود ہے۔ اس کے باوجود موجودہ مسائل کے موثر جواب کے لیے ان کوششوں کو تقویت دینے کی اشد ضرورت ہے۔ معاشرے میں مسلم خواتین کے مقام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی آگاہی کی جائے، اسلامی تعلیمات کے درست فہم کو فروغ دیا جائے، اور دقیانوسی سوچ اور روایات پر سوال اٹھایا جائے جو خواتین کے وقار اور حقوق سے متصادم ہیں۔

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا