دل رو رہا ہے پھر سے فریاد کرکے!

0
0

بابری مسجد کی اراضی پر ۔۔۔ بنانے کےلئے ۔۔۔ کی جدوجہد ۔۔۔ اللّہ اکبر!!

  • جب جب یہ الفاظ نظروں کے آگے سے گذر رہے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کسی نے شیش پگھلا کر کانوں میں ڈال دی ہو ، روح بے چین ہو اُٹھتی ہے ، دل خون کے آنسو روتا ہے، کہیں پہ بھی چین ہی نہیں مل رہا ۔ایسے لگ رہا ہے کسی اپنے نے آس پاس کانٹے بچھادئیے ہوں جو ا ُمّتِ مسلمہ کے جسم کے ساتھ روح کو بھی چھلنی کررہے ہیں ۔۔ اور ان لفظوں کی وجہ سے ہندوستاں کے تمام عام مسلمان خود کو بے یار و مددگار سمجھ رہے ہیں ،آج تک جں علمائو ں، رہنمائو ں کی موجودگی سے ہم مطمئن ہوکر ان سے کئے گئے ہر فیصلوں کو خود کےلئے بہتر مان کر چین و سکون و تسلی سے زندگی بسر کررہے تھے ،آج اچانک انکے ایک طرفہ ذاتی نظریہ کو جاننے کے بعد عجیب سا ڈر، خوف طاری ہوچکا ہے ، ایسے لگ رہا ہے ہمارے بزرگ علما، رہنمائے دین نے ہم سے پلا جھاڑتے ہوئے ہمارے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑا کر ہمیں لاوارث کر ہماری طاقت کو توڑ دیا ہو۔ جب جب یہ الفاظ نظروں کے آگے سے گذر رہے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کسی نے شیش پگھلا کر کانوں میں ڈال دی ہو ، روح بے چین ہو اُٹھتی ہے ، دل خون کے آنسو روتا ہے، کہیں پہ بھی چین ہی نہیں مل رہا ۔ایسے لگ رہا ہے کسی اپنے نے آس پاس کانٹے بچھادئیے ہوں جو ا ُمّتِ مسلمہ کے جسم کے ساتھ روح کو بھی چھلنی کررہے ہیں ۔۔ اور ان لفظوں کی وجہ سے ہندوستاں کے تمام عام مسلمان خود کو بے یار و مددگار سمجھ رہے ہیں ،آج تک جں علمائو ں، رہنمائو ں کی موجودگی سے ہم مطمئن ہوکر ان سے کئے گئے ہر فیصلوں کو خود کےلئے بہتر مان کر چین و سکون و تسلی سے زندگی بسر کررہے تھے ،آج اچانک انکے ایک طرفہ ذاتی نظریہ کو جاننے کے بعد عجیب سا ڈر، خوف طاری ہوچکا ہے ، ایسے لگ رہا ہے ہمارے بزرگ علما، رہنمائے دین نے ہم سے پلا جھاڑتے ہوئے ہمارے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑا کر ہمیں لاوارث کر ہماری طاقت کو توڑ دیا ہو۔ جیسے کسی جنگ میں بادشاہ کی موجودگی ، رہنمائی اور ہمت کو پاکر ہر سپاہی جوش و خروش کے ساتھ میدانِ جنگ میں مرتے مارتے اپنا خون بہاتے ہوئے اپنی ریاست اپنے بادشاہ کی آن بان شان کی خاطر ہنستے ہنستے میدانِ جنگ میں فخر محسوس کرتے اپنی آخری سانس لیتے ہوئے شہادت حاصل کر تااورقیامت تک زندہ رہتے ہیں ۔پر اسی کے برعکس کسی میدانِ جنگ میں وہی جانباز دلیر سپاہی اسی بادشاہ کی موجودگی سے لڑتے مرتے بادشاہ کی آن بان شان اور اپنی ریاست کے خاطر اپنا خون بہارہے ہوں اور بادشاہ نے دورانِ جنگ اچانک ہی دشمن کے آگے اپنے ہتھیار ڈال کر گھٹنے ٹیک دئیے تو وہ وقت کسی بھی جانباز ،بہادر سپاہی کےلئے موت سے بدتر ہوگا وہ وہیں پہ جیتے جی شرم سے ہی مرجائیگا کیونکہ شہادت حاصل کرنے والوں کے تو صرف جسم فنا ہوتے ہیں پر انکی روح تاقیامت زندہ رہتی ہے ، لیکن بنا شہادت کے دشمن سے ہار مان کر زندہ رہنے والا سپاہی بھلے ظاہری زندہ نظر آئے پر اسکی روح مر چکی ہوتی ہے وہ ایک زندہ لاش بنکر رہ جاتا ہے ۔ آج کچھ اسی طرح سچائی اور حق سے ہار مانتے اپنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے بادشاہ کو دیکھ کر قوم کے جانبازوں کا حال ان ہار مانتے ہوئے سپاہیوںسا ہوچکا ہے ۔ جو امّتِ مسلمہ ہیں جو اپنے دین کی خاطر فخر سے اپنی جان نثار کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔۔خود کو اسلام کے جانباز سپاہی مانتے ہوئے شہادت حاصل کرنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں آج ان سے شہادت کا عظیم رتبہ چھین کر بھیک کی زندگی دینی کی کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ دن قبل طلاق پہ ہوئے فیصلے کے نام پہ لگائے گئے زخموں سے ابھی ا مّتِ مسلمہ ابھر بھی نہیں پائی تھی کہ اتحاد وامن و سکون کے نام پر بابری مسجد کو قربان کرنے کا جو اظہارِ خیال پیش کرتے ہوئے جو الفاظ ہمارے علماءنے کہے ہیں انہیں سننے کے بعد ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے جسم نہیں بلکہ اس بار روح زخمی ہوئی ہے اور یہ زخم شاید ہی کبھی بھر پائینگے کیونکہ اوروں سے لگائے گئے زخموں سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی اپنوں سے لگے زخم پہ ہوتی ہے چاہے وہ جانے انجانے میں ہو یا جاں بوجھ کر یا اسکے پیچھے جو بھی انکی نیت یا مصلحت کیوں نہ چھپی جڑی ہو لیکن اسطرح سے اپنوں کے بیچ کا جھگڑا نااتفاقی بہت تکلیف پہنچاتی ہے ۔ اگر اسطرح کا کوئی فیصلہ کرنا قوم کےلئے اتنا ہی اہم اور بہتر تھا تو وہ سب سے پہلے تمام علمائوں ، رہنمائوں کے درمیان آپس میں مل کر رائے مشورہ کرتے ہوئے اگلا قدم اٹھاتے تو شاید اسطرح سے نااتفاقی اور اختلافات تو نہیں بڑھتے۔۔ آج ان اختلافات کی وجہ سے ایک عام مسلمان جھنجلا اٹھا ہے آخر وہ اپنے دل کی حالت کس کو سنائیں ؟؟ اپنی کیفیت کس کو بتائے ؟ آج ہرعام و خاص مسلمان کیوں اتنے بے بس لاچار نظر آرہے ہیں ؟اگر ایک نظرئیہ سے مولانا سلمان ندوی صاحب جو ہمارے بزرگ رہنماءہیں۔۔ انکے خیالات یا فیصلے کو تمام مسلمان ایک جٹ ہوکرلیبک کہہ بھی دیں ، تو اس بات پہ کیسے یقین کیا جائے کے ہندو سنگھٹن کے دہشت گرد گائے کے نام پہ مسلمانوں کا قتل کرنا لوجہاد کا فتنہ پھیلا کر مسلمانوں کو ہراساں کرتے ہوئے فساد برپا کرنا ، ہماری مسجدوں اور مدرسوں پہ حملہ کرنا بند کردینگے ؟؟ اور اس بات کا بھی کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ ہندوتوادی ذہنیت رکھنے والی تنظیمیں بابری مسجد کے بدلے دوسری جگہ پہ تعمیر ہونے والی مسجد اور اسلامک یونیورسٹی کو کامیابی کے ساتھ قائم ہونے دینگے ؟؟؟؟؟؟اور اس بات پہ بھی کیسے یقین کیا جائے کہ انکے ہر فیصلوں کو مانتے ہوئے سپریم کورٹ کی مدد سے کوئی سخت اقدامات اٹھائے جائینگے جس سے ہندوستان میں امن اور اتحاد پھر سے قائم ہوگا ؟ جبکہ یہ ہندوتوادی دہشت گردوں کو ملک کے کانسٹیٹیوشن تک کی پرواہ نہیں اور اس بات پہ بھی کیسے یقین کریں کہ ہندوستان کے وزیراعظم سے بات چیت کرنے پہ ان تمام مسائل کا حل ہوسکتا ہے جبکہ وزیرِ اعظم اپنی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے جو جو عہد لی ہوئی تھی آج تک وہ انہیں کو پورا نہیں کرپائے تو ان حالات میں مسلمان کیسے اور کس پہ یقین کریں ؟ ؟۔ یہ بہت ہی زیادہ سوچتے سمجھتے ہوئے فیصلے لینے کا وقت ہے کیونکہ اتنے سالوں سے جو سمجھوتہ نہیں ہوپایا وہ اچانک سے ان دنوں میں کیوں ؟ جبکہ 2019 عنقریب ہے۔۔ آخر اس مسئلہ کا حل 2012یا2013 میں کیوں نہیں نکالا گیا ؟ 2019کے قریب اں مدعوں کو نکال کر مسلمانوں میں اس وقت آپسی اختلافات کو کیوں ہوا دی جارہی ہے۔ اسکی وجہ سے پھر سے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف ہوجائینگے نااتفاقیاں بڑھ جائینگی اور ہمارے آپسی اختلافات کی وجہ سے دشمنوں کو فائدہ پہنچے گا اور اللہ نہ کریں وہ پھر سے ایک بار ایک بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ہم پہ حاوی نہ ہوجائیں یہی سوچ کر آج پھر سے دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور اپنے ربِ کائنات سے اپنی قوم کی اتحاد کےلئے روتے ہوئے دل سے فریاد کررہا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا