دعا کی قبولیت میں حائل رکاوٹیں

0
0

۰۰۰
طیب چوہدری،راجوری
9055475660
۰۰۰

  • تیس لاکھ آدمی ہرسال بیت اللہ کا پردہ پکڑ کردعامانگتے ہیں،امام کعبہ ایک گھنٹہ رو رو کر ہلکان ہو جاتے ہیں۔ پیچھے لاکھوں انسان رو رو کرآمین کہتے ہیں۔ انتیسویں رمضان کروڑوں مسلمان گڑگڑاکر دعائیں مانگتے ہیں-شامی بچے ،مصر کے ننھے پھول،یمن کے معصوم عوام،فلسطین کے مظلوم لوگ اور پوری دنیا میں بسنے والے تمام تباہ حال مسلمان اپنے اپنے دکھڑوں کی فہرست لیے خدا کے حضورسجدہ  ریزہوتے ہیں۔مائیں اپنے کمسن بچوں کی خون میں لت پت نعشیں لیے رحم کی بھیک مانگتی ہیں۔بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد لرزتے ہونٹوں اور کانپتے ہاتھوں سے خدا سے برسر پیکار ہوتے ہیں۔ پھر بھی آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔ آخرکیوں!!!  تیس لاکھ آدمی ہرسال بیت اللہ کا پردہ پکڑ کردعامانگتے ہیں،امام کعبہ ایک گھنٹہ رو رو کر ہلکان ہو جاتے ہیں۔ پیچھے لاکھوں انسان رو رو کرآمین کہتے ہیں۔ انتیسویں رمضان کروڑوں مسلمان گڑگڑاکر دعائیں مانگتے ہیں-شامی بچے ،مصر کے ننھے پھول،یمن کے معصوم عوام،فلسطین کے مظلوم لوگ اور پوری دنیا میں بسنے والے تمام تباہ حال مسلمان اپنے اپنے دکھڑوں کی فہرست لیے خدا کے حضورسجدہ  ریزہوتے ہیں۔مائیں اپنے کمسن بچوں کی خون میں لت پت نعشیں لیے رحم کی بھیک مانگتی ہیں۔بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد لرزتے ہونٹوں اور کانپتے ہاتھوں سے خدا سے برسر پیکار ہوتے ہیں۔ پھر بھی آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔ آخرکیوں!!!  اللہ کو تو کوئی ایک بار پکارے تو عرش میں ہلچل مچ جاتی ہے، آسمان کے دروازے کھڑکنے لگ جاتے ہیں۔ننھے پھولوں کی فریاد پر رحمتِ خداوندی جوش میں آجاتی ہے۔سترماؤں جتنا پیار کرنے والا خدا رحمت کے دریا بہا دیتاہے۔مگرپھرکیوں ہماری حالت نہیں بدلتی۔ہم کیوں پستے چلے جاتے ہیں ؟؟؟۔صحابہ کرام کی تو ہر دعا قبول ہو جاتی تھی، صاحبان سنیے! ساری رات ننگے ناچ اور فوٹو دیکھتی نسل،ماں باپ کی نافرمان اولاد،بہن کوفیشن ٹپس دیتے بھائی۔بیٹی کو ننگے سربازاروں کی سیر کروانے والے باپ۔جینز اور سلیولیس میں ملبوس خواتین دعا کی راہ میں حائل وہ رکاوٹیں ہیں جن کو دور کرنا اب انتہائی مشکل ہوچکا ہے جس قوم کی تجارت سود پہ ہواور اسکے جج صاحبان یہ کہیں کہ سود لعنت تو ہے مگر ہم روک نہیں سکتے۔یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے،مغربی تہذیب کو زیادہ فوقیت دی جارہی ہو ،جس ملک کے میں راتوں کو شراب وزنا کی رنگین محفلیں ہوں، پہلی صدی کا مسلمان قرآن سن کر روتاتھامگر آج کا مسلمان حرام محبت میں مبتلا ہو کر گانے سن کر روتا ہے۔ علماء کرام اختلاف سے بالاتر ہو کر امت کو متحد کرنے کے بجائے اپنی دکانیں سجانے میں مشغول ہوں۔ بازراوں میں تجارت کے نام پر جوا، سود وسٹہ ہوں، ہر ایک چیز میں ملاوٹ ہو، ظلم وبربریت کا بازار گرم ہو، دھوکہ دھی عام ہو، جھوٹ کا بول بالا ہو، مظلوم کی آہیں آسمان تک پہنچتی ہوں اور اسکی داد رسی کرنے والا کوئی نہ ہو اور اللہ کے فرمان کو چھوڑ کر صرف سوشل میڈیا پردکھاوے کیلئے احتجاج کیا جائے، لڑکیاں بے حجاب ہونے کوباعثء فخرتصور کرتی ہوں اور والدین حیا ء کا نظام نافذ کرنے میں ناکام ہو جاتے ہوں، جہاں ظالم کا دفاع کر نے کے لئے احتجاج کیاجائے،سچ کہنے والوں کو غدار اور خوشامد کرنے والوں کو فنکار سمجھا جاتا ہو۔ لڑکی کو پیار کے نام پر پھنسانا اعزازسمجھا جاتا ہو، اپنی عزت اعلیٰاور دوسرے کی عزت کو ادنیٰ سمجھنا جس معاشرے کا روز کا معمول ہو، قتل و غارت عام ہو، حکومت کے نام پر فرعونیت ہو اور افسر شاہی کے نام پر خیانت اور بددیانیتی ہو،حسینیت کے لبادے میں یزیدیت ہو—- تواس قوم کی دعائیں کیسے قبول ہوں،کیسے؟؟؟  وہ تین سو تیرہ تھے تو لرزتا تھا زمانہ ہم کروڑوں میں ہیں تو کرتے ہیں غلامینوٹ:کالم نگارگورنمنٹ ڈگری کالج راجوری میں زیرتعلیم ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا