خون کے سائینسی رنگ

0
0

حُسین قُریشی

” اُس جگہ پر بہت بھیڑ نظر آرہی ہیں؟ بہت سی گاڑیاں بھی رکی ہوئی ہیں؟ چلو وہاں چل کر دیکھتے ہیں۔ ناصر نے اپنے دوست انصار سے کہا۔ ” شاید وہاں پر کسی کا حادثہ ہوگیا ہے۔ ایسی جگہ جانا ٹھیک نہیں۔ پولس ہمیں بھی خواہ مخواہ پریشان کرے گی۔ سیدھے گئی ر چلو۔” انصار نے کہا۔ ” ہم وہاں چلتے ہیں۔ اور دوٗر سے ہی دیکھ کر لوٹ آئے گے۔ ” ناصر نے انصار کا ہاتھ پکڑا اور چلتے ہوئے کہا۔
وہاں ایک سائیکل اور ایک موٹر سائیکل والے کا حادثہ ہوگیا تھا۔ کافی بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔ ناصر اور انصار یہ دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے۔ وہ افسردگی میں دھیرے دھیرے وہاں سے جانے لگے۔ ” اس لڑکے کا بہت خون بہہ گیا ہے‌۔ اسے باہر سے خون چڑھانا پڑے گا۔ پتہ نہیں اس بے چارے کے خون کا کونسا گروپ ہے؟ مریض کو الگ خون نہیں دیا جاسکتا ہے۔” ناصر نے افسوس ناک لہجے میں انصار سے کہا۔
"تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ہم سب کا خون ایک جیسا ہے۔ سب کے خون کا ایک ہی لال رنگ ہے۔ پھر خون الگ الگ کیسے ہوسکتا ہے؟” انصار نے تعجب سے پوچھا۔ ” ہاں یہ بالکل درست ہے کہ ہم سب کے خون کا ایک ہی رنگ ہے۔ مگر لال خون کے گروپ (Blood Type) الگ الگ ہوتے ہیں۔ خون کی درجہ بندی کی گئی ہیں۔ جو اینٹی باڈیز (Anti Bodies) کی موجودگی اور عدم موجودگی پر مبنی ہے اور یہ بھی سرخ خون کے خلیوں (Red Blood Cells) کی سطح پر وراثت میں موجود اینٹیجنک مادوں (Anti Genetic Fluids) کی موجودگی یا عدم موجودگی پر مبنی ہے۔ خون کی اقسام وراثت میں بھی ملتی ہیں۔ یہ معلومات میں نے ایک رسالے میں پڑھا تھا۔ سمجھے نا۔۔۔۔”
” ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ میں سمجھ گیا۔ لیکن خون کے کونسے گروپ ہوتے ہیں؟ یہ بھی بتادو۔” انصار نے پوچھا۔
” میں نے بتایا کہ کچھ عوامل خون کو مختلف گروپس میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ خون کے چار اہم گروپس ہے۔ ان کے نام اے ، بی ، اےیابی اور او ہیں۔ ان میں ہر ایک کے نیگیٹیو اور پازیٹیو ان دو قسمیں ہوتے ہیں۔ جنہیں جدید طب نے اے پازیٹو، اے نیگٹو (A Positive,A Negative)، بی پازیٹو، بی نیگٹو (B Positive,B Negative) ، اے بی پازیٹو، اے بی نیگٹو (AB Positive,AB Negative) اوراو پازیٹو، او نیگٹو (O Positive,O Negative) میں تقسیم کیا ہے۔ اور یہ تقسیم انسانی صحت میں نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ یونہی ان چاروں گروپس کو جو چیز ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے، وہ اے اور بی اینٹی جنز ہے، یعنی ایسے پروٹین یا کاربوہائیڈریٹ جو خون میں شامل ہو کر اینٹی باڈیز (Anti Bodies) بنانے کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔ یہ اینٹی جنز (Antigens) خون کی رگوں (Blood Vessels)، نیورانز (Nuevranse)اور پلیٹ لیٹس (Platelets) پر اثرانداز ہوتے ہیں۔” ناصر نے پوری معلومات دی۔
” یہ تو بتاؤ کونسے گروپ والے افراد کس کو خون دے سکتے ہیں۔” انصار کی دلچسپی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ خون کے گروپس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے تجسس سے ایک اور سوال پوچھا۔ ” گروپ A یہ گروپ اے اور گروپ اے بی کو جب کہ گروپ B یہ گروپ بی اور گروپ اے بی کو خون دے سکتا ہے۔ اسی طرح گروپ AB والا شخص، گروپ اے ، گروپ بی اور گروپ اے بی کو خون دے سکتاہے۔ ٹھیک اسی طرح O خون کے گروپ والا شخص سبھی چاروں گروپس کے اشخاص کو خون دے سکتا ہے۔ اس لئے ایسے فرد کو Universal Doner کہتے ہیں۔ اس میں گروپ AB ایسا گروپ ہے جو تمام گروپس کے اشخاص سے خون لے سکتا ہے۔ اس لئے اسے Universal Acceptor کہتے ہیں۔ گروپ O صرف او گروپ سے ہی خون لے سکتا ہے۔” ناصر نے انصار کو مفصل جواب دیا۔
وہ دونوں گھر کی جانب چلتے جا رہے تھے۔ اور باتوں ہی باتوں میں خون کے گروپ کی ساینسی معلومات حاصل کر رہے تھے۔ ” کیا سبھی مریضوں کو خون دیا جاتا ہے؟” انصار نے پوچھا۔ ” دیکھو ایسا ہے کہ خون میں مختلف قسم کے خلیات پائے جاتے ہیں، جن میں اہم ترین سرخ خونی خلیات (Red Blood Cells)، سفید خونی خلیات (White Blood Cells) اور صفیحات (Thrombocytes ) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایک انسانی جسم میں اوسطاً 1.2 سے 1.5 گیلن یا ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ لیٹر تک خون ہوتا ہے۔ کچھ افراد کے اندر خون کی مقدار ان کے جسمانی وزن کے 8 سے 10 فیصد کے برابر ہوتی ہے اور یہ مقدار 6 سال کی عمر سے جسم کا حصہ ہوتی ہے۔ جبکہ اس سے کم عمر والے بچوں میں ایک کپ کے برابر خون ہوتا ہے۔ کسی چوٹ ، حادثہ ، یا دیگر وجوہات کی بناء پر جسم میں ڈیڑھ سے دو لیٹر خون کی کمی واقع ہو جائے تو فوری طور پراس شخص کو خون فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس سے زیادہ خون کی کمی سے دل بلڈ پریشر (Blood Pressure) کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور نتیجتاً مریض کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتا ہے۔” ناصر نے اطمینان بخش جواب دیا۔ ” اچھا ۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ ایسا ہے۔ بھر تو ہسپتالوں میں بہت خون لگتا ہوگا۔ روز بہت سے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اتنا سارا خون کیسے اور کہاں سے دستیاب ہوتا ہے؟ ” انصار نے مزید سوال پوچھا۔ ” ہر شہرمیں بہت سے انسان خون کا عطیہ (Blood Donation) دیتے ہیں۔ جن کی عمراٹھارہ سال سے ذیادہ ہو وہ افراد سال میں کم از کم دو مرتبہ خون دے سکتے ہیں۔ ہم ایک بار میں تین سو ملی لیٹر خون دے سکتے ہیں۔ یہ خون مکمل حفاظت کے ساتھ ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے۔ جیسے خون کی بینک (Blood Bank) کہتے ہیں۔ یہاں وقتِ ضرورت جو گروپ کا خون جسے چاہییے وہ حاصل کر سکتا ہے۔ ” ناصر نے تفصیلی جواب دیا۔ ” Blood Bank تو بہت اچھا اور مفید کام کرتا ہے۔ اس سے بہت سے بچوں ، جوانوں اور بزرگوں کی جان بچتی ہیں۔ میں بھی اٹھارہ سال کا ہونے کے بعد ہر سال دو مرتبہ خون کا عطیہ دیا کرونگا۔
اسی دوران ناصراور انصار اپنے اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ انصار اپنے دوست کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ ناصر گھر جاتے ہوئے کہتا ہے کہ ” کل ہم اسکول میں استاد کی مدد سے خون کا گروپ کیسے معلوم کرتے ہیں۔ اسکا عملی تجربہ کرینگے۔” انصار نے کہا۔ ” اوکے بہت اچھا۔۔۔۔ کل ملتے ہیں۔ تب تک کے لئے اللہ حافظ ۔۔۔”

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا