خود انحصاری کی طرف نوعمر لڑکیوں کاپہلا قدم

0
0

تانیہ آریا
چورسو، اتراکھنڈ

’’میں بی اے میں پڑھ رہی ہوں۔ تعلیم حاصل کر میںخود انحصار بننا چاہتی ہوں، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا

کہ میرا مستقبل کیا ہے اورمجھے کیا کرنا ہے؟ میں نے سنا تھا کہ کمپیوٹر کے علم کے بغیر مستقبل روشن نہیں ہے ۔ لیکن میرے پاس ایسے سیکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اس دور افتادہ گاؤں میں کمپیوٹر سیکھانے کی کوئی سہولت نہیں تھی۔پھر جب میرے گاؤں میں چرخہ تنظیم کی جانب سے جب ’دیشا گرہ‘ نامی کمپیوٹر سنٹر کھولا گیا تو میرے اندر ایک امید جگی۔ مجھے لگا کہ اب میں بھی خود انحصار بن سکتی ہوں۔

https://www.charkha.org/

اس جدید ٹیکنالوجی کو سیکھ کر خود انحصاری کا خواب پورا کر سکتی ہوں،آج میں کمپیوٹر کے استعمال میں ماہر ہو گئی ہوں۔ اب مجھ میںایک الگ قسم کا اعتماد ہے۔ میں بیدار بھی ہو گئی ہوں۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس تنظیم کی جانب سے نو عمر لڑکیوں کو مفت میں کمپیوٹر سکھایا جاتا ہے۔جس سے غریب گھر کی لڑکیاں بھی اس ٹیکنالوجی کو سیکھ رہی ہیں۔‘‘یہ کہنا ہے چورسو گاؤں کی 18 سالہ لڑکی شویتا کا۔جو آج گائوں میں ہی رہ کر تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر جیسی جدیدٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر رہی ہے۔ شویتا جیسی چورسو کی بہت سی اور نوعمر لڑکیاںبھی ہیں جو کمپیوٹر سنٹر میں شامل ہو کر اپنا مستقبل سنواررہی ہیں۔
پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع سے 30 کلومیٹر اور گروڈ بلاک سے تقریباً 8 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں چورسو کی لڑکیاں نہ صرف خود انحصار بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں بلکہ اسے پورا کرنے کے لیے جدوجہد بھی کر رہی ہیں۔ پنچایت میں درج اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں کی آبادی تقریباً تین ہزارہے اور شرح خواندگی 90 فیصد کے قریب ہے۔ جس میں خواتین کی شرح خواندگی تقریباً 45 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ 19 سالہ پائل کہتی ہیں، ’’جب سے گاؤں میں کمپیوٹر سینٹر کھلا ہے، میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس سینٹر کے لیے وقف کرتی ہوں تاکہ مجھے مستقبل میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘وہ کہتی ہے کہ خود انحصار ہونا بہت ضروری ہے۔ اس وقت کمپیوٹر کے علم کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔ نیہا کہتی ہیں کہ ’جب میں نے سینٹر میں پہلی بار کمپیوٹر کا استعمال کیا تو اس سے مجھے یہ اعتماد ملا کہ میں بھی زندگی میں کامیاب ہو سکتی ہوں۔ میں نوکری کر کے خود انحصار بن سکتی ہوں۔ اب پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں کمپیوٹر سیکھنے کے لیے ہر ہفتے دیشا گرہ سینٹر جاتی ہوں۔ ہمیں وہاں ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ میں بھی اپنی زندگی میں کچھ کر سکتی ہوں۔‘
ایک اور نوعمر لکشمی کا کہنا ہے کہ ’چرخہ نوعمر لڑکیوں کو نہ صرف کمپیوٹر سکھاتی ہے بلکہ ہر اتوار کو دیشا سبھا کے ذریعے ان کے ساتھ سماجی مسائل پر بات چیت بھی کرتی ہے۔ میں معاشرے کے بارے میں کیا سوچتی ہوں؟ میرا کیا خیال ہے؟ نوعمر لڑکیوں کے کیا حقوق ہیں؟ استحصال کے خلاف آواز کیسے اٹھانی چاہیے؟ مجھے اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ یہ سب باتیں، جن پر میں نے پہلے کبھی کسی سے بات نہیں کی تھی، لیکن ذہن میں ایسے سوالات اٹھتے رہتے تھے،ان تمام مسائل پر کھل کر بحث کی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے،’کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم اپنے گھر والوں سے نہیں کہہ سکتے، ہم انہیں دیشا سبھا میں کہتے ہیں کیونکہ وہاں ہم سب کچھ کہہ سکتے ہیں اور ہمیں ان پر تجاویز بھی دی جاتی ہیں۔ مجھے واقعی اتوار کو دیشا سبھا میں شامل ہونا بہت پسند ہے۔ جہاں ہم کھیلوں کے ذریعے بھی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ہم اس پر بھی بات کرتے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہے اور جو ہمیں پسند نہیں ہے۔‘ لکشمی کہتی ہیں کہ ’آج کے دور میں جہاں لڑکیوں کا پڑھنا لکھنا ضروری ہے، وہیں معاشرے میں ہو رہے مسائل پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔‘
چورسو میں کمپیوٹر سنٹر کے کھلنے سے نہ صرف لڑکیاں بلکہ ان کے والدین بھی بہت خوش ہیں کیونکہ اب ان کی بچیاں گاؤں میں رہتے ہوئے کمپیوٹر میں ماہر ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں گاؤں کی ایک خاتون بھاگا دیوی کہتی ہیں، ’’جب سے ہمارے گاؤں میں دیشا گرہ کھلی ہے، میں بہت خوش ہوں۔ میری پانچ بیٹیاں ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ وہ لڑکوں کی طرح بڑھیں اور اپنا مستقبل سنواریں۔ انہیں بھی یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔ لیکن ہمارے گاؤں میں پہلے ایسی کوئی سہولت نہیں تھی۔ لڑکیوں کو کمپیوٹر سیکھنے کے لیے 30 کلومیٹر دور باگیشور شہر جانا پڑتا تھا، جو ہمارے لئے ممکن نہیں تھا۔ ایک ماں کے طور پر میں نے محسوس کیا کہ کمزور معاشی حالت کی وجہ سے میری بیٹیوں کو بھی سہولیات کی کمی کی وجہ سے جدید تعلیم سے محروم رہنا پڑے گا۔ وہ کمپیوٹر جیسے اہم مضمون کو سیکھنے سے محروم رہے گی، لیکن چرخہ کی پہل کی وجہ سے اب وہ دیشا گرہ میں جا کر کمپیوٹر سیکھتی ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آج میری بیٹیاں وہ کر رہی ہیں جو ہم نہیں کر سکے۔ میں انہیں اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا چاہتی ہوں۔ انہیں خود انحصار اور اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ اپنے فیصلے خود لے سکے۔چرخہ نے دیشا گرہ سنٹر کھول کر گاؤں کی لڑکیوں کے لیے کمپیوٹر سیکھنا آسان بنا دیا ہے۔‘اس سلسلے میں پنچایت رکن ببیتا دیوی کا کہنا ہے کہ اس دور افتادہ گاؤں میں کمپیوٹر کی آمد تصور سے باہر تھی۔
ایسے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لڑکیوں کو آسانی سے دستیاب ہو گا۔ لیکن چرخہ تنظیم کی طرف سے دیشا گرہ کے ذریعے چورسو جیسے دور دراز دیہات کی لڑکیوں کو کمپیوٹر فراہم کرنا قابل تعریف ہے۔ اس سے انہیں آگے بڑھنے اور خود انحصار بننے میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ عظیم پریم جی فائونڈیشن کے تعاون سے چرخہ تنظیم اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے گروڈ اور کپکوٹ بلاک کے مختلف گاؤں میں دیشا نام کا پروجیکٹ چلا رہی ہے۔ جس کے ذریعے نوعمر لڑکیوں کو بااختیار بنایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی انہیں کمپیوٹر کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے تنظیم کی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ ’’گھر کی کمزور معاشی حالت کا سب سے زیادہ اثر لڑکیوں پر پڑتا ہے، ان کی تعلیم اور دیگر ترقی متاثر ہوتی ہے، اس کے علاوہ گاؤں کا قدامت پسند نظریہ بھی ان کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی اور دیگر سماجی مجبوریوں کی وجہ سے کمپیوٹر سیکھنا ان کے لیے ایک خواب کی طرح تھا، لیکن اب گاؤں کی لڑکیاں نہ صرف کمپیوٹر چلانا سیکھ رہی ہیں، بلکہ اپنے حقوق سے بھی آگاہ بھی ہو رہی ہیں۔ اس وقت گڑوڑا اور کپکوٹ کے مختلف دیہاتوں میں تقریباً 6 دیشا گرہ نام سے کمپیوٹر سنٹر چلائے جا رہے ہیں، جبکہ مزید چار کو بھی جلد کھولا جائے گا تاکہ دیہی علاقوں کی زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو کمپیوٹر تک رسائی دی جا سکے۔ دیشا گرہ سینٹر میں تربیت کا مقصد لڑکیوں کے اعتماد کو بڑھانا اور انہیں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینا ہے۔‘‘
نیلم کہتی ہیں کہ ’یہ پروجیکٹ ایک زنجیر کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ جہاں ایک نوعمر لڑکی کمپیوٹر سیکھنے کے بعد گاؤں کی دس دیگر نوعمر لڑکیوں کو سکھانے کا کام کرتی ہے۔ جس کے بعد وہ دس لڑکیاں گاؤں کی دیگر دس لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تربیت دیں گی۔ اس طرح آہستہ آہستہ تمام لڑکیاںکمپیوٹر سیکھ جائنگی۔ ساتھ ہی اس پروجیکٹ سے وابستہ لڑکیوں کو تحریر اور نظموں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنا بھی سکھایا جاتا ہے۔ وہ مختلف سماجی مسائل اور گاؤں سے جڑے مسائل پر مضامین بھی لکھتی ہیں۔ جو ملک کی تین بڑی زبانوں کے اخبارات اور ویب سائٹس پر چرخہ کے ذریعے شائع ہوتے ہیں۔ انہیں متعلقہ حکام سے ان مسائل پر ملاقات اور بات چیت کرنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس طرح چرخہ کی طرف سے کی جا رہی کوششوں کو دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی خود انحصاری کی طرف بڑھنے کی کوششوں میں پہلا اور بامعنی قدم کہا جا سکتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا