خوابوں کا سورج

0
0

افسانہ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ طارق شبنم

 

کمرے کی چار دیواری سانپ کی طرح بل کھا کھا کر مجھے اپنے لپیٹ میں جکڑ نے لگی ۔ میں نے دھیرے سے کھڑکی کا پٹ کھولا اورتنہائی سے نجات پانے کے لئے بے بسی کی حالت میں نیلے آسمان پر چمک رہے چاند ستاروں سے سرگوشیوں میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔۔۔
گرمی کا موسم اپنے جوبن پر تھا ۔شام کے دھندلکے پھیلنے کے بعد بھی فطری قندیلوں سے جھگمگا رہا آسمان آگ برسا رہا تھا ۔گرمی کی تمازت میں فضا کا ماحول جیسے اُبلتے ہوئے پانی میں بھیگے ہوئے شامیانوں سے لپٹا ہوا تھا ۔ شہر میں ہر طرف خوفناک خاموشی چھائی ہوئی تھی کیوںکہ گرمی کی تپش سے نڈھال شہر کے لوگ بے بسی ولاچاری کی حالت میںاپنے اپنے گھروں میں محصور بن جل کی مچھلیوں کی طرح تڑپ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ شہر پہ چھائی اس گورستانی کیفیت پر کافی دیر تک بے چینی اور افسردگی کی حالت میں آسمان کی اور تکتے ہوئے سوچوں میں غلطاں وپیچاں رہنے کے بعد اچانک میرا دھیان پاس ہی واقع قبرستان کی طرف گیا اور میں ماضی کی یادوں میں کھو سا گیا ۔میرے ذہن کے پردوں پر دادی اماں کی تصویر اُبھرنے لگی اور وہ کہانی بھی گونجنے لگی جو وہ آج کے خاص دن کے موقعے پر ہمیں ضرور سنایا کرتی تھی۔اس تاریخی قبرستان کو ہر سال کی طرح حسب معمول آج پھر سجایا اور سنوارا گیا تھا ۔چاروں اور کاغذ کے پھولوں کی مالائیں قرینے سے لٹکائی ہوئی تھیں۔رنگ برنگے ٹمٹماتے بجلی کے قمقموں کی روشنی سارے قبرستان پر جیسے نور برسارہی تھی ۔قبروں پر لگے کتبوں پر درج عبارتیں دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے یہ کوئی بھولی بسری کہانی دہرا رہے ہوں ،لیکن ماضی کی طرح اس خاص موقعے پر آج یہاںکوئی بھیڑ بھاڑ یا گہما گہمی نہیں تھی ۔بلکہ کسی ویران صحرا کی طرح ہر سوخوفناک خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔قبرستان کے ارد گرد وردی پوش سپاہیوں کا ایسا سخت پہرہ بٹھایا دیا گیا تھا کہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا ،ایسا گمان ہوتا تھا کہ شاہی دربار کو یہاں مدفون میتوںکے بھاگ نکلنے کے منصوبے کی مصدقہ اطلاع ملی ہے جسے ناکام بنانے کے لئے یہ سخت حفاظتی حصارقائیم کیا گیا ہے ۔
اس قبرستان سے جڑایہ خاص دن ہر سال آتا ہے اور اس دن کے ساتھ شہر کے مکینوں کی جذباتی وابستگی ہے ۔میرے بچپن میں اس دن پر یہاں سخت گہما گہمی ہوا کرتی تھی ۔شہر کے لوگ جوق در جوق یہاں حاضری دے کر فاتحہ خوانی کرتے تھے اور اشک بار آنکھوں سے یہاں مدفوں لوگوں کو یاد کرکے ان پر محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے تھے ۔ہر طرف چراغاں کیا جاتا تھا ۔مرد وزن کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے تھے ۔ہم بچے بھی میلے کا سماں دیکھ کر بلیوں اچھلتے اور دیررات تک کھیل کود اور موج مستی میں مگن رہتے تھے ۔دادی اماں اس دن کے موقعے پر اکثر جو کہانیاں سنایا کرتی تھی اُن میں اس قبرستان میں مدفون لوگوں کی کہانی ضرور شامل ہوتی تھی۔اُس دن کی کہانی جب سارا شہر انسانی خون سے نہلایاگیا تھااور ہر طرف بے گور و کفن انسانی لاشیں بکھری پڑی تھیں ،وہ کہتی تھی ۔۔۔۔۔۔
’’اس دن شہر پہ صدی بھر سے چھائی شاہی دربار کی بے انصافی کی تپش اور جور و جبر کی گرمی سے نڈھال بے بس اورمحکوم رعایا کے صبر کے سارے پیمانے لبریز ہوگئے ۔ظلم اور غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزاد فضائوں میں سانس لینے کا مقدس خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے شاہی دربار کے خلاف ایسی سخت مزاحمت شروع کر دی گئی کہ شاہی محل کے کنگرے بھونچال سے ہلنے لگے ۔شاہی فوج نے خوف اور بوکھلاہٹ کے عالم میں نہتی رعایا پر بندوقوں اور توپوں کے دھانے کھول کر لاشوں کے ڈھیر لگا کر شہر کو انسانی خون سے لالہ زار کردیا ۔ہر طرف آہ وفغان کا عالم تھا اور سارا شہر ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا ۔وہی جیالے اور قوم کے بے لوث محسن،جنہونے بے جگری کے ساتھ شاہی جبر کو للکار کر صدی بھر کی ظلمتوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنی عزیز جانیں نچھاور کر کے امیدوں کے اُجالے بکھیر دئے،یہاں مدفون ہیں ‘‘۔
دادی اماں کہتی تھی۔
’’ شہر کے لوگ ان عظیم جیالوں کے بہت مقروض ہیں اور۔۔۔۔۔۔اور بے نوا شہر کے غم خواروں نے نزاع کے وقت ان سے وعدہ کیا ہے کہ بغیر کسی تغافل کے کسی بھی قمیت پر ان کے مقدس خوابوں کو ہر صورت میں حقیقت کا لباس پہنایا جائے گا ‘‘۔
کہانی کے اس موڑ پر شدت جذبات سے دادی اماں کے نفسیاتی زیر وبم میں عجیب سا تغیر پیدا ہو جاتا تھا اور آنکھوں میں مسرت کی چمک عود کر آتی تھی ۔تب یہ باتیں بالکل بھی میرے پلے نہیں پڑتی تھی کہ دادی اماں کن خوابوں کی بات کرتی ہے تو میں جٹ سے پوچھ بیٹھتا تھا ۔
’’دادی اماں ان کے مقدس خواب پورے ہوگئے کیا ؟‘‘
میرے اس سوال پر وہ ہمیشہ ایک سرد آہ کھینچ کر خاموش ہوجاتی تھی ،اس کے چہرے سے افسردگی چھلکنے لگتی تھی اور آنکھیں آبدیدہ ہوجاتیں جب کہ تن بدن میں سوئیاں سی چبھ جاتیں۔یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا ،یہاں تک کہ دادی بھی قبرستان میں آسودہ ہو گئیں اور میں نے جوانی میں قدم رکھا ۔پھر اچانک ایک سرخ آندھی آئی، سرزمین رشک فردوس بریں میں جیسے دوزخ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ شہر کے حالات نے ایک بھیانک کروٹ لی اور سالہا سال سے چل رہا یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ اب کئی دہائیوں سے اس خاص دن کے موقع پر تاریخی قبرستان پر عام رعایا کی حاضری پر سخت قدغنیں عائید کرکے انہیں اپنے گھروں کے اندر محسور کیا جاتا ہے اور قبرستان کے ارد گرد سخت پہرہ بٹھادیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔کمرے کی کھڑکی سے قبرستان کی طرف ٹکٹکی باندھے میں نہ جانے کتنی دیر سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن رہاکہ دفعتًا ایک بجلی سی چمکی اور قبروں کے مُنہ کھلنا شروع ہوگئے۔پہلے ایک قبر کا مُنہ کھل گیا اور اس سے سفید کفن میں ملبوس ایک بزرگ،جس کے چہرے پر برف جیسی سفید داڑھی چمک رہی تھی ،باہر آیا۔پھر دوسری قبر کا منُہ کھل گیا جس میں سے ایک بانکا ترچھا گو را چٹا خوب رو نوجوان ،جس کے چہرے سے معصومیت ٹپک رہی تھی ،نکل آیا ۔یہ دونوں قبرستان کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے ۔اس کے بعد تیسری پھر چوتھی،ایک ایک کرکے قبروں میں مدفون سارے لوگ باہر آئے اور قبرستان میں موجود سایہ دار درختوں کے نیچے منڈلی بناکر بیٹھ کے سرگوشیاں کرنے لگے ۔ان کے چہروں سے ستاروں کی سی پاکیزگی چھلک رہی تھی ۔ یہ پر اسرار منظر دیکھ کر حیرت واستعجاب سے میرا منُہ کھلے کا کھلا رہ گیا ،کچھ پلوں کے لئے مجھ پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی۔میں نے ہمت جٹاکے اپنے بدن پر چھائی خوف کی تھر تھری پر قابو پا لیا اور بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھنے لگا ۔کچھ لمحے سنجیدگی سے ارد گرد کا جائیزہ لینے کے بعد معصوم نوجوان نے سفید ریش بزرگ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’ جمال کا کا ۔۔۔۔۔۔آج کیا خاص بات ہے ؟ہمارے مقبرے کو بہت سجایا گیا ہے اور ارد گرد ہتھیار بند سپاہی بڑی چوکسی سے پہرہ دے رہے ہیں ‘‘۔
’’کمال بیٹا۔۔۔۔۔۔ تمہیں یاد نہیں آج کے دن وہ لوگ ہماری یاد میں جشن منا رہے ہیں ۔مزار پر آکر ہماری قصید ہ خو انی کرتے ہیں ،ہمارے قبروں پر کاغذ کے پھولوں کی مالائیں چڑھاتے ہیں اور خم ٹھونک کر ہمیں اپنی میراث جتلاتے ہیں ‘‘۔
’’اچھا کا کا۔۔۔۔۔۔وہی خوابوں کے سودا گر!!! اس شہر کے سیاہ سپید کے مالک ‘‘۔
’’ ہاں بیٹا۔۔۔۔۔۔ وہی خواب گر ‘‘۔
’’کاکا۔۔۔۔۔۔ پہلے تو اس دن شہر کے سارے لوگ یہاں آتے تھے اور ہمیں انتہائی محبت و عقیدت سے یاد کرکے خوابوں کی باتیں کرتے تھے ،منزل حاصل کرنے کی قسمیںکھاتے تھے ۔لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ہے صرف چند لوگ تکبر کے بلند وبالا پہا ڑ لئے مختلف ٹولیوں میں آکر ہمارے زخموں کو کرید کر چلے جاتے ہیں‘‘۔
’’ ہاںبیٹا۔۔۔۔۔۔ جادوگروں کی اس سر زمین کے یہ خواب گر یہاں آکر ہمیں یوں ہی بہلانا چاہتے ہیں ۔اپنے آپ کو مالی جتلاکر، ہمیں جھوٹھی تسلیاں دے کر اس باغ کی سیر کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو باغ ابھی لگا ہی نہیں ہے ‘‘۔
’’ایسا کیوں ہے کا کا ‘‘۔
’’بیٹا ۔۔۔۔۔ ۔ کچھ اپنوں کی بے اعتنائی وکج ادائی۔۔۔۔۔۔ کچھ بے گانوں کی مخاصمت۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ چمڑے کے بیوپاری عطر فروشوں کا لباس پہن کر اس خاص دن کے موقعے پر شہر کے سادہ لوح لوگوں کو اپنی اپنی کمپنی کا مال اور اس کی خوبیاںدکھاتے اور جتلاتے ہیں۔تاکہ ان کی دکانیں خوب چلیں۔اب چلو وہ لوگ آتے ہی ہونگے۔چلو ساتھیو سورج طلوع ہونے والا ہے ‘‘۔
’’سورج۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ بزرگ کی آوازپر وہ سب چونک کر بے اختیاربیک زبان بولتے ہوئے کھڑے ہوگئے‘‘۔
’’ہاں ۔۔۔۔۔۔ سورج۔۔۔۔۔۔! جو روز طلوع ہوتا ہے ‘‘۔
بزرگ نے سرد لہجے میں کہا ۔
یہ جملہ سن کر ان کے چہروں سے احساس محرومی کے پرنالے سے بہنے لگے ، آنکھیں درد کے بیکراں ساغر میں تبدیل ہوگئیں اوروہ حسرت بھری نگاہوں سے آسمان کو تکنے لگے۔
’’ ساتھیو ۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟کن سوچوں میں ڈوب گئے آپ؟‘‘
’’کاکا ۔۔۔۔۔۔ہم سوچ رہے ہیںصدیوں سے ہمیں جس کا انتظار ہے ہمارے خوابوں کا وہ سورج کب طلوع ہوگا؟؟؟‘‘
انہونے انتہائی پر شکوہ اور تھکے ہوئے لہجے میں کہا جس کے ساتھ ہی سسکیاں بھرتا ہوا ہوا کا ایک جھونکا آیا اور پلک جھپکتے ہی سارے
قبروں کے منُہ بند ہو گئے۔
٭٭٭۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا