ممبئی //ممبئی میں جنگ آزادی کے دوران چلائی جانے والی خلافت تحریک پر تاریخی حقائق کو پیش کرنے والی کتاب منظرعام آئی ہے اور جس میں کئی تاریخی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی اور یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ عیدمیلاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے یوم ولادت پر خلافت کمیٹی کے پرچم تلے نکالے جانے والے جلوس کی قیادت مہاتما گاندھی نے کبھی نہیں کی جس کے تعلق سے بار بار حوالہ دیا جاتا ہے ۔جبکہ جلوس کا آغاز 1920 کے بجائے 1935 میں ہوا اور جلوس کرافورڈ مارکیٹ شیخ میمن اسٹریٹ پر واقع جامع مسجد ممبئی سے برآمد ہواتھا۔
اس کا اظہار معروف صحافی اور مصنف سعید حمید نے اپنی انگریزی کتاب ‘ ان ٹولڈ اسٹوری آف خلافت ہاوس’ (خلافت ہاؤس کی ان کہی تاریخ لکھی ہوئی ہے)میں کیا اور اس کتاب کے اجراء کے موقع پرمنعقدہ جلسہ کی صدارت مشہور آر ٹی آئی انیل گلگلی نے کی ۔
اس موقع پر نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے سعید حمید نے کہاکہ ممبئی میں پیغمبر اسلام (ص) کے یوم ولادت یا عید میلاد کے پہلے جلوس اور عوامی تقریبات کی تاریخ کی گہرائی سے تحقیقات کے نتیجے میں چونکا دینے والے نتائج اور تاریخی دریافتیں ہوئی ہیں،خلافت کمیٹی ٹرسٹ پچھلی کئی دہائیوں سے جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ ممبئی میں پہلی بار عید میلاد کا جلوس 1919 میں خلافت ہاؤس بائیکلہ سے علی برادران نے شروع کیا، جس کی قیادت گاندھی جی کر رہے تھے۔اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایک کتاب کے طور پر شائع ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا ہےکہ ممبئی میں عید میلادالنبی کا پہلا جلوس 1930 میں جامع مسجد سے شروع ہوا، اس کا علی برادران، خلافت کمیٹی یا خلافت ہاؤس سے کوئی تعلق یا ربط نہیں تھا۔
انہوں نے اپنی تحقیق اور ریسرچ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ گاندھی جی نے کبھی بھی عید میلادالنبی کے کسی جلوس کی قیادت نہیں کی اور نہ ہی ممبئی کے اس جلوس میں پنڈت جواہر لال نہرو، سروجنی نائیڈو، پنڈت موتی لال نہرو، اور پنڈت مدن موہن مالویہ نے بھی کبھی کسی عید میلاد کے جلوس میں شرکت نہیں کی۔ بمبئی میں میلاد کے جلوس کے سلسلہ میں جعلی تاریخ پھر بھی گردش کر رہی ہے اور اس پر یقین اور عمل کیا جاتا ہے۔
سعید حمید نے کہاکہ تحریک خلافت کی تاریخ خلافت ہاؤس کی تاریخ سے بالکل مختلف ہے کیونکہ تحریک خلافت 1922 میں ختم ہوئی لیکن خلافت ہاؤس 1926 میں تعمیر کیا گیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اس عرصے میں خلافت ہاؤس مسلم علیحدگی، بیگانگی اور انتہا پسندی کا مرکز بن گیا تھا،کیونکہ مولانا شوکت علی نے ایم اے جناح کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ ہاتھ ملایا اور مسلم بیگانگی کی سیاست کے لیے مل کر کام کیا۔جبکہ خلافت ہاؤس ممبئی میں پاکستان کے مطالبے کی قیادت کرنے والے علیحدگی پسند مسلمانوں کا مرکز بن گیا اور خلافت ہاؤس سے شائع ہونے والا اردو روزنامہ خلافت مسلمانوں کی علیحدگی اور انتہا پسندی کی آواز بن گیاتھا۔ ان کا مقابلہ نیشنلسٹ مسلمانوں اور شہر کے نیشنلسٹ اردو اخبارات نے کیا۔
سعید حمید کی تحقیق کے مطابق شہر کے ہندوؤں، مسلمانوں، پارسیوں اور عیسائیوں نے 1931 سے 1947 تک دھوبی تالاب پر واقع سر کاوس جی جہانگیر ہال میں ایک جلسہ عام یا جلسہ عید میلادالنبی منعقد کرکے ایک ساتھ عید میلاد منائی گئی اور اس کا مقصدفرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی ہونا چاہئیے۔
ایک سوال کے جواب میں سعید حمید نے کہاکہ ان کا مقصد تاریخ اور ریکارڈ کی بنیاد پر سچائی کو پیش کرنا ہے۔اس موقع پر چھترپتی شاہو مہاراج مسلم۔فرنٹ کے جنرل سکریٹری عقیل خان نے شکریہ ادا کیا جبکہ انصاری محمود پرویز اور زیدخان نے بھی خیالات پیش کیے اور نظامت بھی کی۔