خصائص قرآن: دنیا کی متبرک کتاب

0
0

محمد تحسین رضا

قرآن مقدس ایک ایسی متبرک کتاب ہے جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرما کر اس کتاب و جملہ آسمانی کتب و صحائف پر ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرمایا، جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ: قرآن کریم کی فضیلت دوسری کتابوں پر ایسی ہی ہے جیسی اللہ تبارک وتعالیٰ کی فضیلت اْس کی مخلوق پر۔ (ترمذی شریف)
اور بیشک یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کا پڑھنا، اس کا دیکھنا، اْس کا سننا، اس کا علم سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا غرض کہ ہر اعتبار سے عبادت ہی عبادت ہے، اور اس کا علم سیکھنے اور سکھانے والے کو سب سے بہتر جماعت کہا گیا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے، اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے سیکھنے کے فضائل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن کی ایک آیت سیکھے تو وہ آیت قیامت کے دن اْس کا ایسا استقبال کرے گی جس سے اس کے چہرے پر خوشی کے آثار صاف ظاہر ہوں گے۔ ( المعجم الکبیر)
قرآن کریم کی خصوصیات:
قرآن کریم کی بیشمار خصائص و کمالات ہیں سب کا احاطہ کرنا عقل انسانی کے بس کی بات نہیں، جن میں سے چند خصوصیات یہ ہیں: (۱) قرآن کریم سیدھا اور مستقیم کلام ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی کجی اور ٹیڑھا پن نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں خود ربِّ کائنات ارشاد فرماتا ہے: سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اصلاً کجی نہ رکھی (سورہ کہف: آیت 01) (۲) قرآن کریم بے مثل کتاب ہے، تمام جن و انس مل کر بھی اس جیسی ایک آیت نہیں بنا سکتے، خود اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ؛ (اے محبوب) تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لا سکیں گے اگر چہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔ (سورہ اسراء ، آیت 88) (۳) قرآن کریم جیسا کلام اللہ پاک کے علاوہ کوئی انسان بنا بھی نہیں سکتا، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنا لے بے اللہ کے اتارے، ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے، اس میں کچھ شک نہیں پرور دگار عالم کی طرف سے ہے۔ (سورہ یونس، آیت 37) (۴) قرآن کریم میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن، جس میں) کوئی شک کی جگہ نہیں (سورہ بقرہ، آیت 02) (۵) قرآن کریم ایک غیر متبدل پیغام حق ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود رب العالمین نے اٹھا رکھا ہے، اس میں کوئی بھی کسی بھی قسم کی تحریف اور تبدیلی نہیں کر سکتا، خود ربِّ قدیر ارشاد فرماتا ہے: بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ (سورہ حجر، آیت 09) (۶) قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو جملہ علوم کی جامع ہے، اولین و آخرین کا ہر چیز کا بیان قرآن میں موجود ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو۔ (سورہ نحل، آیت 89) (۷) قرآن کریم انتہائی اثر آفریں کتاب ہے، جس کو سننے یا پڑھنے کے بعد مومنوں کے دل دہل جاتے ہیں اور اْن کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، قرآن کریم میں ہے: اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اول سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یاد خدا کی طرف رغبت میں، یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اسے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ (سورہ زمر، آیت 23)
المختصر یہ کہ قرآن کریم از اول تا آخر تمام حقائق و معارف اور علوم و فنون کا خزینہ ہے، اس میں ہر چیز کا ذکر ہے (اشارتاً ہو یا کنایتا ہو) جیسا کہ مذکورہ خصوصیات میں ایک خصوصیت کے تحت قرآن کریم کی ایک آیت کا ترجمہ کیا گیا، جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو۔ (سورہ نحل) اور ایک دوسری جگہ ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ: اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو۔ (سورہ انعام)
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ کائنات میں موجود ہر شئی یا تو خشک ہے یا تر، تیسری کوئی حالت نہیں، بحر و بر، شجر و حجر، زمین و آسمان، جمادات و نباتات، جن و انس، حیوانات و دیگر مخلوقات، الغرض عالم اسفل اور عالم بالا کی کوئی بھی شئی یا تو خشک ہوگی یا تر۔ چناچہ علامہ ابن برہان الدین رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: کائنات کی کوئی بھی شئی ایسی نہیں جس کا ذکر یا اْس کی اصل قرآن سے ثابت نہ ہو۔ (الاتقان، جلد 02) غرض کہ قرآن مجید میں ہر چیز کا ذکر موجود ہے، اشارہ کے طور پر ہو یا کنایہ کے طور پر ہو، لیکن ہر شخص قرآن کریم سے وہ تفصیل اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، مگر جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ نور بصیرت عطا کر دے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ: میرے اونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو میں قرآن مجید سے تلاش کر لیتا ہوں (الاتقان، جلد 02) مزید علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا استخراج و استنباط آپ قرآن کریم سے نہ کر سکیں، لیکن جس کو اللہ تعالیٰ خصوصی فہم (علم لدنی) سے بہرہ ور نہ کر دے۔(ایضاً) حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، جس چیز کے بارے میں چاہو مجھ سے پوچھ لو، میں اْس کا جواب قرآن سے دوں گا (ایضاً)
قرآن کریم کی تعلیمات کو جس نے سینے سے لگایا اْس میں غور و فکر کیا انہوں نے اپنی زندگی کی تمام مشکلات کا حل قرآن کریم سے حاصل کر لیا، ہر دور کے نئے نئے مسائل کو قرآن پاک سے سمجھ لیا، قرآن کریم کی تعلیمات ہی سے نئی نئی ایجادات کیں، یہاں تک کہ چاند پر پہنچ گئے، اور ہم نے قرآن کریم کو بالائے طاق رکھ کر سب کچھ کھو دیا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو قرآن سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا