خدارا !علماء امت توڑنے کا نہیں جوڑنے کا کام کریں

0
0

 

قیصر محمود عراقی

ہم پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم باپ دادا سے مسلمان چلے آرہے ہیں لیکن ہمارا طرز زندگی مسلمانوں والا نہیں ہے۔ ہمیں تو دین ایسے ہی وراثت میں ملا ہے جیسے زمین جائداد ملتی ہے۔ بد قسمتی سے اب ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں بلکہ نام کے بھی کہاں ہم تو اپنے مسلک اور مکتب ہی کو اپنی پہچان بنالیاہے۔ دور حاضر میں امت مسلمہ کے مابین جس چیز نے زور پکڑا ہے وہ فرقہ پرستی ، تفرقہ بازی اور گروہ بندی ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس نے مسلمانوں کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے اور اسی بناپر اغیار اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔
کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے کہ موجودہ دور کے مسلکی علما اور مفاد پرست علمامنبروں پر بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف کفر ، بدعت اور شرک کے فتوے دیتے ہیں۔ بدنصیبی اور بد قسمتی کی یہ انتہانہیں تو اور کیا ہے کہ ہم نے اتنا کافر کوکافر نہیں کہا جتنا مسلمان کو کافر کہاہے۔ آج امت میں انتشار کی بڑی وجہ صرف اپنے ہی مسلک کے حق ہونے پر شدید اصرار ہے۔ آج مسلمان اپنے گروہی ، مسلکی ، جماعتی اور طبقاتی مفادات کے اسیر ہوگئے ہیں، انہیں رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کا اتنا بھی پاس نہیں رہا کہ کشتی میں سوار ہر فرقہ کشتی کے تختے کو اُکھاڑ اُکھاڑ کر سمندر میں پھینک رہا ہے اور کسی کو اتنا بھی خیال نہیں کہ خدانخواستہ یہ کشتی ڈوب گئی تو وہ سب ایک ساتھ غرق ہوجائینگے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے یا دورِ حاضر کے حالات کا جائزہ لیاجائے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ جب بھی دشمن کو اہل اسلام پر غلبہ حاصل ہوا تو اس کا ہدف کوئی خاص مسلک نہیں تھابلکہ بلا امتیاز سب کے سب مسلمان تھے۔ کافر کے نزدیک صرف مسلمان ہے نہ کہ مسلمان کا مسلک کہ وہ کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔
قارئین محترم! موسم بدلتے رہتے ہیں ، کبھی پت جھڑ ، کبھی خون منجمد کردینے والی سردی ، کبھی غریب کے آشیاںبہا لے جانے والی برسات ، کبھی پھول کھلانے بہار کا موسم آجاتا ہے، بدلتی رُتیں لوگوں کی زندگیوں میں نئے رنگ لے کر آتی ہیں مگر ہمارے مسلم معاشرے میں پتا نہیں کیوںاکثر خزاں کا موسم اپنے پائو جماکے بیٹھا رہتا ہے، ہمارے معاشرے میں موسم کے ساتھ ساتھ مذہب بھی حالات کی اونچ نیچ سے متاثر ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہر مذہب میں مختلف فرقے وجود میں آتے رہتے ہیں، یا انکا مزاج بدلتا رہتا ہے، کبھی شدت پسندی اور کبھی لبرل ازم۔ آج یہ فرقے ہر مذہب میں ہیںاور اختلافِ رائے ہر مذہب میں ہے اوررہیگا۔ اصل خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب ایک فرقہ دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کریں بلکہ دوسرے فرقے کو کفر کے مصداق قرار دیتے ہوئے اس کے لوگوں سے اظہارِ نفرت بھی کریں، موجودہ مسلم معاشرہ فرقہ پرست معاشرہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں لوگ عقائد سے اصولی لگائو رکھتے ہیں ، کچھ فرقے اور جماعتیں ایسی ہیں جو مذہب کو معاشرتی اور معاشی مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہتی ہیں، صدقہ ، خیرات، عطیات اور زکوۃ سے لیکر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے تک ہر فرقہ اپنے آپ کو صراط مستقیم پر مقیم بتاتا ہے اور دوسرے فرقوں کے بارے میں اپنے پیروکاروں کے دلوں میں اتنی شدید نفرت پیدا کردیتا ہے کہ لوگ اکثر اوقات دوسرے فرقے کے لوگوں کو دین سے بھی خارج سمجھ لیتے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ آج ترقی کے اس دور میں صاحبِ علم لوگ اگر کسی بات پر مختلف رائے رکھتے ہوں تو وہ اسے علم ودانش کی علامت سمجھتے ہیں اس کے برعکس اگر دینی اور مسلکی حوالے سے کوئی اختلاف ہوجائے تو یہ عمل فرقہ پرستی میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج مسلمانوں کو اسلام کے برحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، مگر سب نے اسلام کی اپنی اپنی تعبیر کی ہوئی ہے اور اصرار ہے کہ یہی اسلام ہے، کہی سلفی اسلام، کہی صوفی اسلام ہے تو کہی جہادی اسلام ہے، کہی بریلوی اسلام ہے تو کہی دیوبندی اسلام ہے، کہی شیعہ اسلام ہے تو کہی سنی اسلام ، ظاہر ہے اسلام تو ایک ہی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس کے رسولوں نے پیش کیا اور سب سے آخر میں محمد ﷺنے پیش کیا۔
موجود دور میں مسلکی منافرت پھیلانے کے بجائے تمام مسالک کے سنجیدہ علما ، مسلکی منافرت کے خاتمے کے لئے میدان میں آکر عملی اقدامات کریں ، مسلک کے نام پر شر اور فساد پھیلانے والے مسلکی مولویوں کا بائیکاٹ کریں، اور اپنی اجتماعی دانشمندی سے دین کے دشمن کی سازش کو ناکام بنائیں جو اس وقت مسلک کے نام پر مسلکی مسجد تعمیر کرواکے اسے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر براجمان ہیں۔ یہ وقت مسلک کے نام پر آپ میں لڑنے کا نہیں بلکہ دین کے دشمنوں کے خلاف متحد ہونے کا ہے
تمام مسالک کے نام مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا رویہ اختیار کرے، کسی کا مسلک چھیڑیں نہیں اور اپنا مسلک چھوڑیں نہیں ، اسلام میں انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں ، فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے بڑھتے رحجانات سے پوری مسلم قوم آج تشویش میں مبتلا ہے، ان حالات میں حق پرست مذہبی رہنما اختلافات کی بجائے مشترکات کو نمایاں کریں اور مسلمانوں کے رویوں میں نرمی اورشائستگی پیدا کرنے کیلئے اپنا کردار اداکریں۔ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر مسلمانوں میں تقسیم ، تفریق اور فساد پھیلانے کی کوششیں افسوس ناک ہے، تمام مذہبی جماعتیں اپنی صفوں کو مسلکی تعصب سے پاک کریں اور مسلکی مولویوں کی حمایت نہ کرنے کا حلف اٹھائیں، خطاباتِ جمعہ میں ایک دوسرے کے مسلک کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرنے والوں کو مسجدوں سے نکال کر عبرت کا نشان بنائیں ۔ اس مقصد کیلئے تمام مکاتب فکر کے حق پرست علما کو ایک میز پر بیٹھنا ہوگا ۔ مدارس کو، مساجد کو اور ریاستی اداروں کو مسلکی فرقہ پرست مولویوں سے پاک کرنا ضروری ہے، اگر حق گو علمائوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دین میں کچھ بھی باقی نہیں رہیگا کیونکہ ان دنوں زور شور سے علم سے محروم اور جذبات سے مغلوب جاہل علما مسلک کے نام پر امت میں کشیدگی پھیلارہے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کیلئے سخت فیصلہ کرنا ہونگے، کیونکہ علما کی مجرمانہ غفلت سے قوم مسلم کسی بڑے سانحے سے دوچار ہوسکتی ہے، اور مذہبی رہنما حالات کی سنگینی کو محسوس کریں ، مسلک کے نام پر بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹنا کون سا اسلام اور کون سی شریعت ہے؟ لہذا علماوخطبا اور ذاکرین مسلک کے نام پر جلتی پر تیل کی بجائے پانی پھینکیں اور مسلکی فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے جاہل ملائوں کو بے نقاب کریں، تکفیری نعرے لگانے والوں اور تبرا بازی کرنے والوں کو مسجد سے باہر کا راستہ دکھائیں اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے علماتوڑنے کا نہیں بلکہ جوڑنے کا کام کریں، دلائل وبراہین سے اپنا مسلک ونظریہ ضرور بیان کریں مگر دوسرے مسلک یا اس کے اکابرین پر تنقید کا سلسلہ ہر گز ہر گز نہ کریں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا