محمد شاہ نواز ندوی
8210062804
لوک سبھا الیکشن کا ابھی بگل بھی نہیں بجایا گیا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے مغربی بنگال میں سیاست تیز ہوگئی ہے۔ پارٹی کے صدر سے لیکر وزیر اعظم سمیت سبھی اسٹار پرچارک انتخابی مہم میں سرگرم عمل ہیں ۔ بی جے پی کی سرگرمی در اصل کلکتہ میں ممتا بنرجی کی یونائٹیڈ انڈیا ریلی کے بعد حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ جس میں بی جے پی کے خلاف ہندوستان کے سابق وزیر اعظم ، موجودہ اورسابق وزراءاعلی سمیت کئی اہم سیاسی لیڈران ایک اسٹیج پر جمع ہو کر ایک محاذ قائم کیاتھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ممتا بنرجی کی حکومت بی جے پی کے لئے لوہے کے چنے کی مانند ہے ، جس نے مغربی بنگال سے بی جے پی کے خیمہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا، 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں پورے ہندوستان سے بی جے پی کو ملی تاریخ ساز کامیابی کو ذہن میں رکھ کر مغربی بنگال کے بارے میں سوچئے کہ کس طرح سے بی جے پی کو یہاں شکست فاش ملی ، یوپی جیسے صوبہ میں بڑے سے بڑے دگج لیڈران کی موجودگی ، وقت کے سیاسی بصیرت نگاروں کی بصیرت اور مقبولیت سب کچھ بی جے پی کے سامنے بونی ثابت ہوئی ۔ اور سوائے سات سیٹوں کے بی جے پی نے 73 سیٹوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن مغربی بنگال میں نظارہ اس کے برعکس تھا کہ ممتا بنرجی کی شاندار جیت ہوئی ۔ انہوں نے 42میںسے تنہا 34سیٹوں پر قبضہ جمایا جبکہ بی جے پی کو صرف دو سیٹیں ہی دستیاب ہوئیں ۔ یہ نتیجہ بالکل یو پی کے برعکس تھا ۔ جس کی پورے ہندوستان میں تعریف و توصیف ہوئی ، اور ممتا بنرجی مقبولیت کی نگاہ سے پہلے کے مقابلہ میں زیادہ دیکھی جانے لگی۔ یہی وہ بات ہے جو بی جے پی کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے ، جس کو دور کرنے کے لئے پورے ہندوستان سے الگ تھلگ ہوکر صرف مغربی بنگال میں اپنا سیاسی جوہر بکھیرنے میں ہمہ تن مصروف ہے ۔اور کسی بھی حالت میں بنگال کو حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کی تیاری اور سرگرمی سے بنگال میں جو سیاسی اتھل پتھل مچی ہوئی ہے یقینا یہ باعث تشویش ہے ، دونوں پارٹیوں میں گھماسان کا ٹکر ہے ، بیان بازی میں زبانی تیر اور تلوار چلائے جارہے ہیں ، زیادہ سے زیادہ ریلیاں کرانے کی متمنی ہیں ، اس کے علاوہ جو بھی ہتھکنڈہ اختیار کرنا پڑے اسے اختیار کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ کلکتہ میں ممتا بنرجی کی یونائناٹیڈ ریلی کے محض ایک دن کے بعد مالدا کی سرزمین میں بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی پر زور ریلی ہوئی ، جس میں ممتا بنرجی کے خلاف زبرست بیان بازی ہوئی ، اپنے ہم مزاج لوگوں کوخوب سے خوب لبھایا گیا ، لیکن ان کی ریلی بھگدڑ سے بھی خالی نہیں رہ سکی ، یہ الگ بات ہے کہ امیت شاہ کی ریلی میں مچی بھگدڑ کا الزام جہاں بی جے پی کی طرف سے ٹی ایم سی پر لگا یا جارہا ہے وہیں ٹی ایم سی کی طرف سے بی جے پی مورد الزام ہے کہ وہ مغربی بنگال میں ماحول کو خراب کرنا چاہتی ہے ۔ امیت شاہ نے بار بار لوگوں کو اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا تھا کہ ” آپ لوگ بنگال کے کیچڑ میں ایک بارکمل کو کھلا دو ہم آپ لوگوں کی تقدیر کو سنوار دیں گے “ ۔ اس کے کئی روز بعد وزیر اعظم کے لئے منچ تیار کیا گیا ، جہاں بڑی تعداد میں ان کو سننے کے لئے سامعین کی تعداد پہونچی لیکن وہاں جو کچھ ہوا وہ وزیر اعظم کی شان کے خلاف ہوا ۔ ایک گھنٹہ تک سامعین کو لچھے دار خطاب کرنے والے وزیر اعظم کو محض چودہ منٹ کے اندر اپنی تقریر کادائرہ سمیٹنا پڑا ۔ ان کے جلسہ میں بھی زبردست احتجاج اور مظاہرہ ہوا ۔ اسٹیج کے آس پاس کرسیاں بڑی تعداد میں اچھالی گئیں ۔ وزیر اعظم اپنے چاہنے والوں کو بار بار مطمئن کراتے رہے لیکن لوگوں نے ان کی ایک بات نہ سنیں ، بلکہ احتجاج میں تشدد بڑھتا ہی چلا گیا ۔ اور وزیر اعظم کو اسٹیج چھوڑنے پرمجبور ہونا پڑا ۔ اس واقعہ کے بعدسیاسی مبصرین کی طرف سے کافی تبصرہ آئے ، کچھ کا کہنا ہے کہ مودی کے بھکتوں کو اسٹیج کے اندر آنے نہیں دیا جارہا تھا اس لئے انہوں نے وزیر اعظم کو قربت کی نگاہ سے دیکھنے کے لئے پریشان تھے ۔ محبت کے جذبہ کا پیمانہ اس قدر لبریز ہوا کہ وہ تشدد کی شکل میں پھوٹ پڑا ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات قابو سے باہر ہو گئے ۔ لیکن تجزیہ نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ در اصل وزیر اعظم کے خطاب کو منتشر کرنے کے لئے ٹی ایم سی کی جانب سے یہ حرکتیں اختیار کی گئیں ہیں ۔ تاکہ لوگوں کے کانوں تک وزیر اعظم کی پر کشش اور متاثر کن تقریر اور ان کے انتخابی جملے نہیں پہونچ سکے ۔ بہر حال جو بھی ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ مغربی بنگال میں مودی کا جادوئی بیان اس بار اطمینان و سکون کے ساتھ نہیں ہو سکا ، اور اپنے حمایتیوں کے قلب و ذہن میں ٹی ایم سی کے خلاف زہر نہیں بھر سکے ۔ اس کا صدمہ وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے تمام کارکنان کو ضرور ہوا ہوگا ۔ واقعہ کی تیسری کڑی یہ ہے کہ ابھی دو روز قبل اتر دیناجپور کے بالورگھاٹ میں یو پی کے وزیر اعلی یوگی جی کی آمد میںشاندار تقریب منعقد کی گئی ، ساری تیاریاں ہو چکی تھیں صرف تقریب کے روح رواں کی تشریف آوری باقی تھی لیکن جس آن بان اور شان کے ساتھ یوگی جی مغربی بنگال میں اپنا قدم رنجہ فرمانے والے تھے انہیں وہ شان و شوکت حاصل نہیں ہوسکی ، بجائے تشریف آوری کے اپنے دیار کی طرف واپس لوٹ چلے ۔ وجہ یہ بنی کہ ٹی ایم سی حکومت کی جانب سے ہیلی کاپٹر اتارنے کی اجازت اس لئے نہیں دی گئی کہ یہاں کا ماحول سازگار نہیں تھا ، لوگ گیروارنگ کے کپڑے پہنے ہوئے یوگی جی کی آمد کو پسند نہیں کر رہے تھے ۔ اب تک تو یہ تھاکہ امیت شاہ اور وزیر اعظم کو خطاب کرنے کا موقع مل چکا تھا ، اور جیسے تیسے لوگوں کو خطاب بھی کر چکے تھے ۔ لیکن یہ موقع یوگی جی کو نصیب نہیں ہوا ۔ اس کا صدمہ سب سے زیادہ گہرا تھا ۔ کیونکہ ساری تیاریوں پر پانی پھر گیا تھا ۔ اور یوگی جی کاسایہ مغربی بنگال میں نہیں پڑسکا ۔ یکے بعد دیگرے تین ریلی اور جلسوں میں بی جے پی کو خاطر خوا ہ موقع فراہم نہیں ہونے کے بعد بی جے پی اور ٹی ایم سی کے مابین نفرت کی دیوار بلند ہونا فطری تھا ۔ پھر کیا تھا کہ اچانک ممتا بنرجی کے پولیس کمیشنر راجیو کمار کے یہاں سی بی آئی کا چھاپہ مار ا جاتا ہے ۔ جن پر الزام یہ ہے کہ سادار چٹ فنڈ معاملہ میں ٹی ایم سی کی حکومت داغدار ہے ۔ اس لئے اس کی انکوائری کی جائے ، لیکن انکوائری کے لئے وارنٹ کا ہونا ضروری تھا ، جو سی بی آئی کے پاس نہیں تھی ۔ جس کے بغیر چھاپہ ماری قانونا جرم ہے ۔ بہر حال سی بی آئی کی جرا¿ت و بے باکی کو دیکھ کر ممتا برنجی کی حکومت حرکت میں آئی ، دیکھتے ہی دیکھتے سی بی آئی کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ بلکہ سی بی آئی کی آفس کو آنا فانا چوطرفہ گھیر ے میں لے لیا گیا ۔ معاملہ یہیں پر آکرختم نہیں ہو جاتا ہے ، بلکہ صورتحال سنگین سے سنگین ترہوتی چلی گئی۔اور نوبت یہاں تک آپہونچی کہ خود ممتا بنرجی اپنے جائے مسکن سے نکل کر کمیشنر آفس کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئی ۔ جو اپنے آپ میں یہ تاریخی قدم تھا ۔ ایسا اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا ۔ یہاں سے ممتا بنرجی بی جے پی کے اوپر جس طرح زوردار اور گرجدار انداز میں برس پڑی یہ بات ممتا برنجی کے غیض و غضب کو آشکارا کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کمیشنر کے یہاں چھاپہ ماری کا عمل صد فیصد بی جے پی کے اشارہ پر ہوا ہے ۔ یہ بی جے پی کی ناپاک کوشش ہے کہ وہ ہمیں بے بنیاد الزاموں میں ملوث کر کے گرفتار کرنا چاہتی ہے ۔ لیکن ہم بھی اس طرح کی کوشش کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ آج بی جے پی کے پاس مرکزی سرکار کی شکل میں طاقت ہے اسی لئے سی بی آئی ٹیم اس کے اشارہ پر ناچ رہی ہے ۔ وہ جو چاہے کرلے ، اگر ہمیں گرفتار کرنا چاہتی ہے تو کرلے لیکن ہم قانون کے خلاف کچھ بھی نہیں ہونے دیں گے ۔ اور جب تک ہمیں سی بی آئی کی اس گھناونی حرکت کا جواب نہیں مل جاتا تب تک میں اسی جگہ دھرنے پر بیٹھی رہوں گی ۔ بہر حال مغربی بنگال میں جس طرز پر سیاست ہو رہی ہے اس سے پورے ملک کے سیاسی تجزیہ نگار اور سیاسی لیڈرا ن کی توجہ اسی جانب مرکوز ہوگئی ہے ، بی جے پی نے بھی ٹھان لیا ہے کہ بہرصورت مغربی بنگال میں اپنی جیت کا پرچم لہرانا ہے ۔ چاہے جیسے ہو اس بار بنگال میں کمل کو کھلانا ہے ۔ اور ان کا گمان اس طرح اس لئے ہو چلا ہے کہ یہی واحد ریاست ایسی ہے جہاں سے بی جے پی شکست فاش ہوئی ہے ۔ اور یہیں سے ممتا بنرجی نے پورے ملک سے بی جے پی کی جڑیں کھوکھلی کرنے اوراسے حکومت سے بے دخل کرنے کی مضبوط اور مستحکم بنیاد رکھی ہے جس نے بی جے پی کی نیندکو حرام کر دیا ہے ۔ بی جے پی کا منشا یہ ہے کہ کسی طرح سے بنگال کو حاصل کر لیا جائے جبکہ ممتا بنرجی اور اس کی حمایتی ٹیم کا مقصد یہ ہے کہ پورے ہندوستان سے بی جے پی کوبے دخل کر دیا جائے ، اور جس طرح کی تاناشاہی اور من مانی حکومت سے ملک کی معیشت کمزورہوئی ہے اسے دوبارہ کسی بھی حالت میں برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ اب تو بنگال کے بعد بہار میں بھی کانگریس کی جانب سے جن آکنشا ریلی نکالی گئی ، جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت بہار سے بی جے پی کا صفایا کے لئے ہوئی۔ ممتار بنرجی کے جلوس میں آندھرا کے وزیر اعلی چندر بابو نائڈو اسی طرز پر بی جے پی کے خلاف ریلی نکالنے کا وعدہ کر چکے تھے ۔ادھر مشرقی یوپی جو بی جے پی کا گڑھ رہ چکا ہے وہاں سے پرینکا گاندھی کو کانگریس کی لگام سونپنے سے بی جے پی حیران و ششدر ضرور ہے ۔ دہلی سے اروند کجریوال بھی وزیر اعظم کے خلاف محاذ آراءہیں ۔ گویا چاروں طرف سے بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش جارہی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حزب مخالف کی ٹیم کہاں تک اپنی گرفت بنا پاتی ہے اور بی جے پی کے خلاف لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا پاتی ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ حزب مخالف کی طرف سے جس طرح کی سیاست کی بنیاد پڑ چکی ہے وہ آئے دن بی جے پی کی سیاسی گرفت کو دیمک کی طرح چانٹے گی لیکن دیکھنا دلچسپ یہ ہوگا کہ کیا ممتا کی للکار سے بی جے پی کی تلوار ٹوٹے گی یا نہیں ؟ یہ سوال تو بنتا ہے ۔