خانہ بدوش طبقہ بنیادی حقوق سے بھی محروم

0
0
خواجہ یوسف جمیل
منڈی، پونچھ
جموں کشمیر کے مختلف علاقاجات میں اپنہ خیمہ لگا کر پورے سال زندگی گزارنے والے گوجر بکروال طبقہ انتہائی کرب و مصائب کے دور سے گذرتاہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو بھیڑ بکریوں کو اپریل کے مہینے میں پیر پنچال کے دشوار گزار راستوں سے دن رات گذارتے ہوئے چرانے کے لئے وادی کشمیر میں لے جاتے ہیں اور جوں ہی اکتوبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو یہ وادی کشمیر سے موسمی تبدیلی شروع ہوتے ہی شدت کی سردی سے بچنے کے لئے صوبہ جموں کے میدانی علاقوں کا سفر شروع کردیتے ہیں۔ بدقسمتی سے جب یہ طبقہ پیر پنجا ل کے اوپری مقام پر پہنچتا ہے تو سردی کی شدت ان کی زندگی میں ستم بن کر آ جاتاہے۔ کئی بار سردی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انکے جانور مر جاتے ہیں۔تیز اندھیوں اور بارش و برف کا سامنہ کرتے ہوئے یہ طبقہ کئی میل کی مسافت کے بعد میدانی علاقوں میں پہنچتا ہے۔اس سفر کے دوران جہاں اس طبقہ کے لوگوں کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں ان کو اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑتی ہیں۔ اس طبقہ کی زیادہ تر خواتین اور نو عمر لڑکیاں غذائیت سے بھرپور خوراق نہیں ملنے کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار رہتی ہیں۔
رواں سال بھی جموں کشمیر کے ضلع پونچھ و راجوری کے متعدد افراد کو کشمیر وادی سے واپس آتے ہوئے پیر پنچال کے اوپری مقامات پر تیز آندھی کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانہ پڑا تھا۔ ضلع پونچھ کی تحصیل منکوٹ کے رہائشی محمد منشی ولد کرم حسین عمر تقریباََ42 سال کا کہنا ہے کہ ”ہم خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ موسم گرما شروع ہوتے ہی ہم کئی میلوں کا سفر پیدل طے کر کے اپنی بھیڑ بکریوں کو وادی کشمیر چرانے لے جاتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ہم اپنے علاقے کے دیگر افراد کی بھیڑ بکریوں کو ساتھ چرانے کے لئے لے جاتے ہیں۔ جسکی ہمیں ایک ہزار روپے فی جانور چھ ماہ کی اجرت ملتی ہے۔لیکن افسوس ہمیں اپنی جان پر کھیل کر یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس سال بھی میری 20 سے زائد بکریاں تیزآندھی کی وجہ سے کشمیر سے واپس لاتے ہوئے راستے میں ہی مر گئیں۔“ وہ مزید کہتے ہیں کہ ”میرے ساتھ کئی افراد اور بھی تھے جن کی بھیڑ بکریاں دوران سفر مرگئیں۔ حکومت کی جانب سے ہمیں کوئی بھی اجرت نہیں ملی۔اسی طرح ضلع پونچھ کے گاؤں درہ دلیاں کے محمد اکرم کا کہنا ہے کہ ”ہم غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہماری آمدنی کا ذریعہ صرف اور صرف بھیڑ بکریوں کو پالنا اور انہیں فروخت کرکے اپنا گھر چلانا ہے۔ لیکن اب ہرسال آمدنی سے ذیادہ ہمارہ نقصان ہوجاتا ہے۔ اس سال بھی میری 25 بھیڑ بکریاں شدت کی سردی کی وجہ سے مرگئیں۔ نہ ہی ہمارے اس نقصان کی رپورٹ درج کی گئی اور نہ ہی ہمیں معاوضہ فراہم کیا گیا“۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ”ہمارے بچے بھی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارا ٹھکانہ ایک جگہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم نہیں کرسکتے۔ ہمارے لئے کیا بارش، کیا دھوپ، دن ہو یا رات برابر ہے کیونکہ ہمارا آدھا سال سفر کے دوران ہی گذر جاتا ہے۔
یہ طبقہ ایک طرف ان گنت مشکلات سے دوچار ہوکر اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔وہیں اپنے بچوں کو بہتر تعلیم و تربیت فراہم کرنے میں ناکام رہتاہے۔اِی ٹی وی بھارت کی ایک رپورٹ کے مطابق”جموں و کشمیر اور لداخ میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302 ہے، اس میں سے قبائلی لوگوں کی آبادی 11.9 فیصد یعنی 14 لاکھ 93 ہزار 299 ہے۔ جموں و کشمیر میں کل شرح خواندگی 71 فیصد ہے،ان میں گجر کا محض 32 فیصد اور بکروالز کااور بھی کم محض 23 فیصد ہے۔اس میں خواتین کی شرح خواندگی اور بھی کم ہے۔“ متذکرہ بالا اعداد و شمار سے واضح طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ قبیلہ ہر طرح سے پسماندگی کا شکارہے۔ اس قبیلہ کی بہتری کے لئے سال1991 میں اسے شیڈیول ٹرایب کے ذمرے میں شامل کیا گیا تاکہ دیگرپسماندہ قبیلوں کی طرح یہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے اور اپنے پیشہ وارانہ کام کے ساتھ ساتھ بہتر تعلیم حاصل کرنے میں اس طبقہ کے لوگ کامیاب ہوسکیں۔ اگر زمینی سطح پر اس بات کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ30سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس قبیلہ میں تعلیمی اعتبار سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اس تعلق سے جموں کشمیر کے ضلع انت ناگ کے ایک نوجوان سماجی کارکن و چئیرمین ’ٹرائبل ولفئیر آرگنائز یشن‘ بشارت چوہان کے مطابق”ایس ٹی ہونے کا بکروال طبقہ کو بھرپور طریقے سے فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ اگر زمینی سطح پر دیکھا جائے تو نقشہ مختلف ہے۔اس طبقہ کواپنے حقوق کی پوری جانکاری بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ طبقہ بیدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج تک اپنا حق حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے متعدد اسکیمیں بکروال طبقہ کی بہتری کے لے فراہم کی جاتی ہیں لیکن اس طبقہ تک یہ اسکیمیں بروقت نہیں پہنچ پاتی۔ یہی وجہ ہیکہ یہ طبقہ ترقی کرنے میں پیچھے رہ گیاہے۔“اس قبیلے کو تعلیمی میدان میں آگے لے جانے کے لیے سال 1970 میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے موبائل اسکول کھولے تھے تاکہ اس طبقہ کے بچے بہتر تعلیم حاصل کرسکیں۔ اور بعد ازاں سال 2002 میں جموں کشمیر حکومت کی جانب سے مزید سیزنل اسکول کھولے گئے تا کہ موسم گرما میں پیر پنچال کے اوپری مقامات پر جانے والے لوگوں کے بچے بہتر تعلیم حاصل کرسکیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس طبقہ کے بچے بہتر تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ اس تعلق سے پونچھ کے ایک بکروال لعل حسین کا کہنا ہیکہ”حکومت کی جانب سے سہولیات تو فراہم کی جاتی ہیں لیکن ہم ان سہولیات سے اس لئے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ہمارے لئے ہماری ڈھوکوں میں رہائش کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمیں دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ان ہی لوگوں کے بچے ایس ٹی سے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے پاس وسائل ہیں جبکہ ہمارے لئے ایس ٹی صرف ایک سرٹفکیٹ ہی ہے۔اس سے ذیادہ کچھ اور نہیں“
حال ہی میں موجودہ گورنر منہوج سنھا نے فارسٹ رائٹ ایکٹ 2006 کو نافظ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کا مقصد گوجر بکروال طبقہ کے وہ لوگ کو جنگلات کی اراضی پر رہائش پذیر ہیں وہ اپنی رہائش وہیں مستقل کرسکتے ہیں اور انہیں اس اراضی کا مالک تصور کیا جائے گا جہاں وہ رہ رہے ہیں۔ لیکن محکمہ جنگلات کی جانب سے متعدد افراد کو اس اراضی سے بے دخل کیا گیا اور انکے گھر توڑ دئے گئے۔اس تعلق سے گوجر برادری کے نامور صحافی طارق ابرار نے بتایا کہ”حکومت کی جانب سے فارسٹ رائٹ ایکٹ کا اعلان تو کیا گیا ہے۔ لیکن اسکے باوجود بھی کئی علاقوں سے بکروالوں کو بے دخل کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طبقہ کو پوری طرح سے اپنے حقوق کی جانکاری نہیں ہے۔جس کا فائدہ اٹھا کر محکمہ جنگلات کے ملازمین انہیں ڈرا کر جنگلات کی اراضی سے بے دخل کردیتے ہیں۔جبکہ ان لوگوں کے پاس رہائش کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں“۔حلانکہ محکمہ کے افسران اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے رینج آفسر سرنکوٹ ”نثار حسین“ کہتے ہیں کہ ”فارسٹ رائٹ ایکٹ سے قبل بھی اور آج بھی بکروال طبقہ کو جنگل میں اپنی بھیڑ بکریاں چرانے کا پورا حق حاصل ہے۔ بکروال چونکہ ایک جگہ نہیں ٹھرتے اسلئے جہاں کہیں بھی یہ لوگ خیمہ لگاتے ہیں ان کے ساتھ محکمہ کوئی بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا“۔وہ کہتے ہیں کہ گوجر یہ دیگر طبقہ کے لوگ جو مستقل رہائش رکھتے ہیں اور موسم گرما میں چھ ماہ کے لئے ڈھوکوں میں جاتے ہیں اوروہاں اپنے ڈھارے تعمیر کئے ہیں اور انکے پاس اگر فارسٹ رائٹ ایکٹ کے مطابق مالکانہ حقوق ہیں تو وہ رہائش رکھنے کے حقدار ہیں۔ اگر کوئی شخص جس کے پاس مالکانہ حقوق نہیں ہے اور وہ بغیر حقوق کے ڈھارہ تعمیر کرنا چاہتا ہے یا اراضی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں محکمہ جنگلات تعمیر کرنے سے روکتا ہے کیونکہ بغیر مالکانہ حقوق کے کوئی بھی شخص جنگلات کے علاقہ میں تعمیر نہیں کرسکتا ہے۔“
ان تمام تر باتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد صاف طور پر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ طبقہ کس قدر مشکلات کی زندگی گزار رہا ہے۔یہ جس قدر کمائی کرتے ہیں وہ سال کے ایک حصے میں قدرتی آفت کی نظر ہو جاتی ہے۔یہ جنگل کی اندھیری راتوں میں ایک سپاہی کی طرح نہ صرف جنگلی جانوروں، چور لٹیروکا سامنہ کرکے اپنے جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ لکڑیوں کے غیر قانونی اسمگلنگ بھی روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طبقہ کے لوگوں کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ فراہم کرے اوران کے ڈھوکوں میں ہی رہائش کے لئے معقول انتظام کرے تاکہ انہیں مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا