سہیل انجم
چند روز قبل روزنامہ اودھ نامہ اور دیگر اخبارات میں حفیظ نعمانی صاحب کی علالت اور اسپتال میں داخل ہونے کی خبر پڑھی۔ دل کے اندر ایک وسوسے نے جنم لیا اور یہ خیال آیا کہ کہیں کوئی حادثہ تو نہیں ہونے والا ہے۔ 8 دسمبر کی صبح کو ان کے بھانجے برادرم اویس سنبھلی کو میں نے فون کیا اور حفیظ صاحب کی خیریت دریافت کی۔ ان کے لہجے میں مجھے بڑی مایوسی محسوس ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ وہ اسپتال سے ہی آر ہے ہیں۔ سہیل بھائی دعا کریں۔ اگر اللہ نے مزید ساعتیں لکھی ہوں گی تو وہ ٹھیک ہو جائیں گے ورنہ امید کم ہے۔ دل کو دھچکہ سا لگا۔ میں نے سوچا کہ حفیظ صاحب کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ نہ صرف پورے ملک میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں بلکہ دیگر ملکوں میں بھی ان کے مداحوں کی کمی نہیں ہے۔ لوگ ضرور دعائیں کر رہے ہوں گے۔ لیکن اگر زندگی کی ساعتیں ختم ہو گئی ہوں گی تو دعائیں کیا کر لیں گی۔ لیکن اس کے باوجود دعاو ں کی ضرورت ہے۔ ہماری زندگی میں ایسے لمحات بہت آتے ہیں کہ جب ہم اپنے کسی عزیز کی زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں اس کے باوجود دعاوں کے لیے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں۔ لہٰذا میرے بھی ہاتھ اٹھ گئے۔ اسی رات دس بجے موبائیل کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر اویس سنبھلی صاحب کا نمبر دکھائی دیا تو ایک بار پھر وسوسوں نے گھیر لیا۔ میں نے کسی بری خبر کے لیے فوراً خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیا اور یقیناً انھوں نے جو خبر سنائی وہ اچھی نہیں تھی۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ کئی دنوں سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔ جناب حفیظ نعمانی دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حفیظ نعمانی سے میرا تعلق کوئی بہت پرانا نہیں تھا۔ اگر چہ میں ان کے نام اور کارناموں سے ایک طویل عرصے سے واقف تھا لیکن پانچ سات سال قبل ہی ان سے باضابطہ شناسائی ہوئی تھی۔ لیکن ان سے مل کر اور باتیں کرکے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم دونوں میں برسہا برس کے تعلقات ہیں۔ انھوں نے جب بھی گفتگو کی بے حد محبت کا اظہار کیا۔ یقیناً وہ محبت کرنے اور محبت کیے جانے والے انسان تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بہت سی یادیں دل و ذہن کے دروازے پر دست بستہ کھڑی ہو گئی ہیں۔ ابھی جب سپریم کورٹ میں بابری مسجد کا مقدمہ آخری مرحلے میں تھا اور یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ 17 نومبر سے قبل کسی بھی دن فیصلہ سنایا جا سکتا ہے تو میں نے اس موضوع پر ایک مضمون قلم بند کیا جو روزنامہ انقلاب اور دیگر اخباروں میں شائع ہوا۔ میں نے انتہائی معروضی انداز میں اس کا جائزہ لیا کہ اس مقدمے میں کیا ہو سکتا ہے اور اگر رام مندر کے حق میں فیصلہ آیا تو کیا ہوگا اور بابری مسجد کے حق میں آیا تو کیا ہوگا۔ اسی روز تقریباً دوپہر کے وقت حفیظ صاحب کا فون آیا۔ انھوں نے اس مضمون پر اظہار خیال شروع کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ سہیل انجم اس مضمون سے تمھاری جس ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو رہا ہے ہم سب کی بھی وہی کیفیت ہے۔ میں بہت دنوں سے اس مسئلے پر لکھنے کو سوچ رہا ہوں لیکن لکھوں تو کیا لکھوں۔ تم نے جو کچھ لکھا ہے وہ میرے بھی خیالات کی ترجمانی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے مسلم قیادت، ہندو قیادت، عدلیہ اور حکومت کی سوچ کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔ انھوں نے میری اس بات کی تائید کی کہ اگر بابری مسجد کے حق میں فیصلہ آیا تو بھی ایسے حالات نہیں ہیں کہ مسلمان وہاں مسجد کی تعمیر کر سکیں۔ اس تعلق سے انھوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین کے بارے میں کافی کچھ باتیں کہیں۔ ان سے وہ میری آخری گفتگو تھی۔ اس دن انھوں نے یہ بتایا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ہے۔ اودھ نامہ میں ان کے مضامین کا سلسلہ بھی متاثر ہونے لگا تھا۔ دل نے کئی بار چاہا کہ ان کو فون کروں۔ ان کی خیریت دریافت کروں اور مختلف مسائل پر ان سے گفت و شنید کروں۔ لیکن یہ سوچ کر ہمیشہ فون کرنے سے باز رہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طبیعت ناساز ہو اور میرے فون سے ان کو زحمت اٹھانی پڑے۔ البتہ ان کی صحت کے بارے میں دوسروں سے اور خاص طور پر اویس سنبھلی سے گفتگو ہوتی رہی ہے۔
آج جب میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں تو بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں۔ غالباً دو سال قبل محترم عالم نقوی صاحب ایک ماہ کے غیر ملکی دورے پر جا رہے تھے۔ وہ چونکہ اودھ نامہ میں یومیہ ایک کالم لکھا کرتے رہے ہیں اس لیے حفیظ صاحب کو اور وقار رضوی صاحب کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ ایک ماہ تک وہ کالم کون لکھے گا۔ حفیظ صاحب نے مجھے فون کرکے حکم دیا کہ میں کم از کم ایک ماہ تک عالم نقوی صاحب کی جگہ پر وہ کالم لکھا کروں۔ میں نے اسے اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے حفیظ صاحب نے اس لائق سمجھا کہ میں روزانہ کالم لکھ سکتا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اودھ نامہ سے میرا ایک پرانا تعلق ہے۔ اس میں میرے مضامین نمایاں انداز میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا میں نے اسے اپنی خوش بختی سمجھا کہ ایک ماہ کے لیے ہی سہی اودھ نامہ میں میرا کالم یومیہ شائع ہوگا۔ میں نے فوراً ہامی بھری اور ان سے عرض کیا کہ آپ بے فکر ہو جائیں۔ میں صرف ایک ماہ نہیں بلکہ جتنے دن آپ کہیں گے میں لکھتا رہوں گا۔ مجھے اس کے عوض میں کچھ چاہیے بھی نہیں۔ انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اس طرح میں نے اسی روز سے کالم لکھنا شروع کر دیا۔ بلا ناغہ روزانہ میں دوپہر تک اپنا کالم بھیج دیا کرتا تھا۔ حفیظ صاحب نے اس موقع پر ایک بار پھر اپنی محبت کا ثبوت دیا اور اودھ نامہ کے شعبہ ¿ ادارت کے ذمہ داروں سے کہا کہ سہیل انجم ہمارے اخبار میں ایک مہمان کی حیثیت سے لکھ رہے ہیں۔ ان کا کالم نمایاں انداز میں شائع ہونا چاہیے۔ اور مجھے اس کا اعتراف ہے کہ اودھ نامہ کی ٹیم نے ان کی یہ بات مانی اور میرا کالم روزانہ بہت نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔ جب عالم نقوی صاحب دورے سے واپس آئے تب مجھے حفیظ صاحب نے پھر فون کیا اور میرے کام کی ستائش کرتے ہوئے اظہار تشکر کیا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کو اظہار تشکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ آپ کا حکم تھا جسے ماننا میرے اوپر فرض تھا۔ میں نے ان سے یہ بھی عرض کیا کہ آپ نے میرے اوپر اعتماد کرکے میری تحریوں کو سند بخش دی ہے۔
آج وہ واقعہ بھی بڑی شدت سے یاد آرہا ہے جب اتر پردیش ارود اکیڈمی نے خاکوں کی میری کتاب ’’نقش بر آب‘‘ اور سینئر صحافی ندیم صدیقی کی معرکہ آرا کتاب ’’پرسہ‘‘ پر پانچ پانچ ہزار کے انعام کا اعلان کیا تھا۔ میں اپنی کتاب کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کچھ کہوں گا تو خود ستائی ہوگی لیکن ندیم صدیقی کی کتاب کے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہو ںکہ اس پر پانچ ہزار روپے کا انعام صرف ندیم صدیقی ہی نہیں بلکہ ہر خود دار، غیرت مند اور اعلیٰ صلاحیتیوں والے مصنف کی توہین تھی۔ جوں ہی حفیظ صاحب نے اکیڈمی کی فہرست دیکھی اور میری اور ندیم صدیقی کی کتابوں کو پانچ ہزار والی فہرست میں دیکھا تو ان سے رہا نہیں گیا۔ انھوں نے اردو اکیڈمی کے اس فیصلے کے خلاف اودھ نامہ میں ’’ندیم و سہیل کی پنج ہزاری کتابیں‘‘ کے زیر عنوان ایک سخت مضمون لکھ ڈالا۔ انھوں نے ایک ہی مضمون لکھنے پر قناعت نہیں کی بلکہ دو قسطیں لکھیں۔ پہلی قسط میں ندیم صدیقی اور ان کی کتاب کے بارے میں اور دوسری قسط میں میرے اور میری کتاب کے بارے میں لکھا۔ انھوں نے اردو اکیڈمی کے ذمہ داروں کی شدید گرفت کی اور اس بات کے لیے ان کی لعنت ملامت کی کہ انھوں نے دو بہت اہم کتابوں کو صرف اسی لائق سمجھا کہ انھیں پانچ پانچ ہزار کے انعام دیں۔ بہر حال یہ معاملہ کافی آگے تک گیا۔ پھر ہم نے اور ندیم صدیقی نے حفیظ صاحب سے کہا کہ اب جانے دیجیے جو ہوا سو ہوا۔
حفیظ نعمانی ایسے سچے اور کھرے انسان تھے کہ آج کی دنیا میں ان کے جیسا ملنا مشکل ہے۔ انھوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی کہ ان کی حق بیانی سے کس کس کی پیشانی پر بل پڑیں گے اور کون کون ان کے دشمن بنیں گے۔ انھوں نے اقبال کے اس مصرعے میں نئی جان ڈالی کہ ’’میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند‘‘۔ انھوں نے کبھی بھی کسی کی پروا نہیں کی خواہ وہ ملت کی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں ہوں یا اغیار کی صفوں میں بیٹھے منافقین ہوں۔ جس بات کو انھوں نے سچ سمجھا وہی لکھا اور برسرعام لکھا۔ وہ صرف گفتگو ہی میں حق بیانی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ پکی روشنائی میں بھی اپنی سچی سچی اور کھری کھری باتیں چھپواتے تھے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ حفیظ صاحب نے فلاں غلط بات کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔
آج حفیظ نعمانی صاحب دنیا میں موجود نہیں ہیں تو ان کی بہت سی باتیں شدت سے یاد آرہی ہیں۔ ان کا جانا نہ صرف صحافتی دنیا کا ایک زبردست خسارہ ہے بلکہ ملت کا بھی شدید نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ صحافتی برادری کو اور ملت کو بھی ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ ان کی لغزشوں کو درگزر کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز کرے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔