(105 عرس رضوی 2023)
تحریر: محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت
یہ نظام قدرت ہے کہ جب جب دین میں بگاڑ پیدا ہوا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ایسے نیک بندوں کو پیدا فرمایا جنہوں نے اپنے علم سے دین اسلام کو جلا بخشی، جنہوں نے علوم عقلیہ و نقلیہ سے باطل فرقوں کا وجود مٹا کے رکھ دیا، اس امت میں بے شمار علماء و مشائخ ایسے تشریف لائے جنہوں نے نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل و براہین سے بھی دین اسلام کا دفاع فرمایا، جیسا کہ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ ایک جانب جید عالم دین تھے تو دوسری طرف آپ کو سائنسی علوم پر بھی عبور حاصل تھا، حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کے علاوہ ہزاروں کیا سیکڑوں نام تاریخ میں ملتے ہیں جنہوں نے علوم نقلیہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہی جب علوم عقلیہ پر توجہ دی تو اس میں بھی زبردست کامیابی حاصل کی،
اُنہیں سائنسدانوں میں سے ایک عظیم سائنسداں کو خالق ارض و سماء نے بریلی کی سرزمین پر پیدا فرمایا جس کو دنیا سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے، آپ کو جہاں عطائے الٰہی سے دینی علوم و فنون پر مکمل دسترس حاصل تھی، وہیں آپ کو سائنسی علوم و فنون پر بھی مہارت تامہ حاصل تھی کیوں کہ آپ کی تصانیف اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں، آپ کے سامنے دینی یا سائنسی منقولات و معقولات کا کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ پیش کیا جاتا تو آپ فی الفور اور فی البدیہ اُس کا جواب تحریر فرما دیا کرتے تھے، بعض علوم و فنون آپ نے اساتذہ سے سیکھے، اور بعض علوم ایسے ہیں جن کو علم عطائی کہا جا سکتا ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے آپ کو عطا ہوئے، سائنسی علوم و فنون کے متعلق جو کتابیں آپنے تصنیف کیں ان کی تعداد 150 تک پہنچتی ہے۔ آپ نے خود جن علوم کی نشاندہی فرمائی ہے جیسے علم تکسیر، علم ہیئت، علم حساب، ہندسہ، جبر و مقابلہ، علم توقیت، لوغار شمات، علم زیجات، مثلث کروی و مسطح، ہیئت جدیدہ، مربعات، علم جفر، فلسفہ قدیمہ و جدیدہ وغیرہ پر آپ نے کافی کتابیں تحریر فرمائیں، یہی وجہ ہے کہ آج علوم دینیہ اور علوم جدیدہ سے منسلک بڑے بڑے علماء و دانشور، ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز کے علمی دانش کدہ میں گم ہیں، اور آپ کی ہمہ جہت شخصیت اور عظیم اسلامی خدمات پر بڑی بڑی ڈگریاں (PHD وغیرہ) حاصل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں، اور بین الاقوامی کانفرنسوں، سیمیناروں اور اپنی تصانیف و تالیفات میں آپ کی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
آپ کی کتابوں کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو کس قدر اعلیٰ ذہن سے نوازا تھا، آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا تو عقلی و نقلی دلائل و براہین کے ایسے دریا بہائے کہ بڑے بڑے چوٹی کے سائنسداں اپنے دانتوں تلے انگلی دباتے نظر آئے، فتاویٰ رضویہ شریف کی جلد اول اگرچہ صرف کتاب طہارت پر مشتمل ہے لیکن ضمنی مسائل میں علوم عقلیہ کی تشریحات کا انبار نظر آتا ہے، مثلاً (۱) پانی میں رنگ ہے یا نہیں؟ (۲) پانی کا رنگ سفید ہے یا سیاہ ؟ (۳) رنگین پیشاب کا جھاگ سفید کیوں معلوم ہوتا ہے ؟ (۴) آئینہ میں درز پڑ جائے تو وہاں سفیدی کیوں معلوم ہوتی ہے، (۵) آئینہ میں اپنی صورت اور دیگر چیزیں کیسے نظر آتی ہیں (۶) آئینہ میں داہنی جانب بائیں اور بائیں جانب داہنی کیوں نظر آتی ہے، (۷) برف کے سفید ہونے کا سبب (۸) رنگتیں تاریک میں موجود رہتی ہیں (۹) پارہ آگ پر کیوں نہیں ٹھہرتا (۱۰) چاروں عنصروں میں ایک دوسرے کی تبدیلی کی بارہ صورتیں (۱۱) اجزائے ارضیہ بلا واسطہ بھی آگ ہو جاتے ہیں (۱۲) کان کی ہر چیز گندھک و پارے کی اولاد ہے (۱۳) گندھک نر ہے یا مادہ (۱۴) مٹی کے اقسام اور اُن کی درجہ بندی (۱۴) قطر و محیط کی نسبت وغیرہ۔
مزید سائنسی معاملات پر سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بے شمار کتابیں تحریر فرمائیں جیسے (۱) معین مبین بہر دور شمس و سکون زمین (۲) فوز مبین در رد حرکت زمین (۳) نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان وغیرہ، اس کے علاوہ تقریباً 150 کتابیں تحریر فرمائیں، آپ کی علمی اور سائنسی تحقیق کا کیا کہنا، آپ کی بارگاہ میں ایک مرتبہ تیمم کے متعلق سوال کیا گیا کہ تیمم کتنی چیزوں سے جائز ہے ؟ تو سیدی اعلیٰ حضرت کی تحقیق کا دریا جوش میں آیا، اور اس تعلق سے زمین سے نکلنے والی معدنیات پر ایک عظیم تحقیق اپنی مشہور زمانہ کتاب ” فتاویٰ رضویہ شریف” میں کی، اور فرمایا کہ تیمم ہر اُس چیز سے جائز ہے جو زمین کی جنس سے ہو، تو سوال پیدا ہوا کہ وہ کون کون سی اشیاء ہیں جو زمین کی جنس سے ہیں ؟ تو سیدی اعلیٰ حضرت نے اپنے فتاویٰ میں 311 تین سو گیارہ چیزوں کا ذکر فرمایا، جس میں 181 چیزوں سے تیمم جائز، جن میں 74 منصوص اور 107 کے متعلق فرمایا یہ زیادات فقیر میں اور 130 اشیاء سے تیمم ناجائز ہے جن میں 58 منصوص اور 72 زیادات فقیر سے ہیں، اتنا بیان کرنے کے بعد سیدی سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: ایسا جامع بیان اس تحریر کے غیر میں نہ ملے گا، بلکہ زیادات تو درکنار اتنے منصوصات کا استخراج بھی سہل نہ ہو سکے گا۔
یہی نہیں حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اسلامی تحقیق کی ایسی وضاحت فرمائی جسے میڈیکل سائنس خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ امام احمد رضا پہلے ایسے مسلم سائنس داں ہیں جنہوں نے وضو اور غسل کے پانی پوچھے گیے ایک چھوٹے سے سوال کے جواب میں پانی کی کل ۰۵۳ قسمیں ذکر فرمائیں۔ یہ بیان صرف اعداد میں نہیں بلکہ ہر ایک قسم کا نام اور اس کا شرعی حکم بھی بیان فرما کر اور ان پر بحث کر کے ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
آج زیادہ تر ہمارا معاشرہ سائنسی باتوں کو مانتا ہے تو یاد رکھیے کہ ہر سائنس کی بات صحیح نہیں ہوتی کیوں کہ تحقیق کے ساتھ ساتھ اُس کے قوانین بدلتے رہتے ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول و ضوابط کبھی نہیں بدلتے، دور جدید میں بہت سے لوگ صرف سائنس کی مانتے ہیں اور سائنس کے پیش نظر اللہ و رسول کے فرمان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے (العیاذ باللہ)۔ سائنسی تحقیق کے مطابق پانی بے رنگ (Colour Less) ہے یعنی پانی کا کوئی رنگ نہیں، لیکن سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ پانی بے رنگ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں، فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں، کیوںکہ آپ دیکھتے ہیں کہ بادل کے بخارات میں رنگ ظاہر ہوتا ہے اور یہ رنگ پانی کے اجزا کا رنگ ہے ،حالاںکہ یہ اجزا برف کے اجزا سے بھی زیادہ باریک ہیں، یہی وجہ ہے کہ برف اوپر سے گرتی ہے اور بخارات اوپر کو اٹھتے ہیں اور باریک ذرہ اگر علیٰحدہ ہو تو وہ نظر نہیں آتا تو اس کا رنگ کیسے نظر آئے گا اور چھوٹے اجزا جب جمع ہوں تو نظر آتے ہیں تو ان کا رنگ بھی نظر آئے گا۔(فتاویٰ رضویہ، جلد اول، صفحہ۵۴۷، مطبوعہ کراچی)
مزید تحریر فرماتے ہیں کہ: "اگر تو کہے کہ جسم کیسے دکھائی دیتا ہے جب کہ اجزا تو نظر نہیں آتے تو اولاً میں کہتا ہوں کہ نگاہِ انسانی فطری طور پر انتہائی باریک چیز کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے جب کہ وہ چیز منفرد ہو لیکن اگر اس چیز کے ساتھ اس کی متعدد امثال مجتمع ہوں تو وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔ جیسے سفید بیل کی جلد ہرسوئی کے سرکے برابر سیاہ نقطہ دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر متعدد سیاہ نقطے مجتمع ہوں تو نظر آنے لگتا ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،جدید ایڈیشن، جلد دوم، صفحہ۱۷۳) (مکمل تحریر یہاں ذکر نہیں کی جا سکتی، مزید پڑھنے کے لیے فتاویٰ رضویہ شریف کی طرف رجوع کریں)
اس کے علاوہ سیدی سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے فونو گراف کے تعلق سے سوال کیا گیا، تو آپ نے اس کی عظیم تحقیق فرمائی کہ علم صوتیات کے ماہر کی حیثیت سے اس بات کا جائزہ لیا کہ آواز کی حقیقت کیا ہے اور یہ کس طرح فضا میں سفر کرتی ہے اور کانوں تک پہنچتی ہے، آواز کیا چیز ہے؟ کیوں کر پیدا ہوتی ہے؟ کیوںکر سننے میں آتی ہے؟ اپنے ذریعہ حدوث کے بعد بھی باقی رہتی ہے یا اس کے ختم ہوتے ہی فنا ہوجاتی ہے؟ کان سے باہر بھی موجود ہے یا کان ہی میں پیدا ہوتی ہے؟ آواز کنندہ کی طرف اس کی اضافت کیسی ہے وہ اس کی صفت ہے یا کسی چیز کی؟ اس کی موت کے بعد باقی رہ سکتی ہے یا نہیں؟ ‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلددہم، حصہ دوم، ص ۱۱) سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے علم صوتیات کی روشنی میں کس طرح خود قائم کردہ سوالوں کا جواب دیا ہے اس کے لیے امام احمد رضا کا رسالہ’’ الکشف شافیہ‘‘ ضرور ملاحظہ کیجیے۔ ایک مقام پر خلاء پر بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ فلسفہ قدیمہ خلاء کو محال مانتا ہے ہمارے نزدیک وہ ممکن ہے، ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ "جزو لا یتجزی” ممکن بلکہ واقع اور اس سے جسم کی ترکیب بھی ممکن، جزو لا یتجزی کے متعلق سیدی امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے قرآن کریم سے اثبات جزو کی دلیل پیش کی، فرماتے ہیں کہ میں نے تو جزو لا یتجزی کا قرآن کریم سے اثبات کیا اور یہ دلیل پیش کی، "ومزقناهم كل ممزق” اور ہم نے ان کو پارہ پارہ کر دیا (پارہ: ۲۲)
اس کے علاوہ بے شمار سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تحقیقات موجود ہیں جن کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں ممکن نہیں، اعلیٰ حضرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جو علمی تحقیق ہمارے سامنے پیش کی ہے، رہتی دنیا تک اُس کی نظیر ملنا مشکل ہے، سیدی سرکار اعلیٰ حضرت نے علوم عقلیہ کے تعلق سے کو کچھ بھی تحریر کیا اُس کی ندرت یہ ہے کہ پہلے حمد و ثنا بیان فرماتے ہیں پھر قرآن مجید کے حوالے دیتے ہیں اُس کے بعد اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں پھر اقوال سلف صالحین سے دلائل مضبوط کرتے ہیں ان تمام دلائل کو یکجا کرنے کے ساتھ ساتھ ترتیب نو کرتے ہیں اور آخر میں اپنے اقوال پیش کرتے ہیں گویا کہ سائنسی رسائل بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر فرماتے ہیں۔ آپ نے سائنسی موضوع پر قرآن و حدیث سے دلائل پیش کر کے یہ ثابت کیا کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ ہی میں تمام تعلیم موجود ہے، اور اپنی سائنسی دعووں پر اترانے والے سائنسدانوں کا منہ بند کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علمی فیضان سے مالا مال فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
✍🏻 محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت