۰۰۰
محمد تحسین رضا نوری
۰۰۰
امیر المومنین حضرت مولیٰ علی مشکل کشا شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کے یوم وصال کی نسبت سے آپ کی مبارک زندگی کے چند روشن پہلوحضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ مکہ شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے والد کے نام پر آپ کا نام حیدر رکھا، والد نے آپ کا نام علی رکھا۔ حضور پرنور نے آپ کو اسد اللہ (اللہ کا شیر) کے لقب سے نوازا، اس کے علاوہ مرتضی (یعنی چنا ہوا) کرار (یعنی پلٹ پلٹ کر حملے کرنے والا)، شیر خدا، اور مولا مشکل کشا اپ کے مشہور القابات ہیں۔ آپ پیارے آقا کے چچا زاد بھائی ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابوالحسن اور ابو تراب ہے۔
حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم 10 سال کی عمر میں ہی اسلام لے آئے تھے اور شہنشاہ کونین کی بارگاہ میں حاضر رہتے اور تادم حیات اپ کی امداد و نصرت اور دین اسلام کی حمایت میں مصروف عمل رہے۔ اپ اْن دس خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جن کو دنیا میں ہی جنتی ہونے کی بشارت دے دی گئی تھی، اور آپ دیگر خصوصی درجات سے مشرف ہونے کی بناء پر بہت زیادہ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ غزوہ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق وغیرہ تمام اسلامی جنگوں میں اپنی بے پناہ شجاعت کے ساتھ شرکت فرماتے رہے اور کافروں کے بڑے بڑے نامور بہادر اپ کے قاہرانہ وار سے واصل نار ہوئے۔
(کرامات شیر خدا صفحہ: 12، رسالہ دعوت اسلامی)
حضرتِ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد آپ خلیفہ نامزد کیے گئے اور 4 برس 8 ماہ 9 دن تک مسند خلافت پر رونق افروز رہے۔ 17 یا 19 رمضان المبارک کو ایک بد بخت کے قاتلانہ حملے سے شدید زخمی ہو گئے اور ۱۲ رمضان شریف یک شنبہ (اتوار) کی رات جام شہادت نوش فرما گئے۔
فضائل حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا، اور روح کو پیدا فرمایا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھ سے مومن کے سوا کوئی محبت نہیں کرے گا، اور منافق کے سوا کوئی بغض و عناد نہیں رکھے گا۔ (مسلم شریف)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا علمی مقام
مولا علی مشکل کشا، شیر خدا رضی اللہ عنہ علمی اعتبار سے صحاب کرام رضی اللہْ عنہم میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور کیوں نہ رکھتے ہوں کہ خود نبی کریم نے آپ کی علمی شان بیان کرتے ہوئے آپ کو علم و حکمت کا دروازہ فرمایا، جیسا کہ پیارے آقا نے ارشاد فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اْس کا دروازہ ہیں۔ (مستدرک للحاکم)
ایک دوسرے مقام پر آپ نے ارشاد فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ (ترمذی)
دعائے مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت علی المرتضی رضی اللہْ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں دعا کی: اے اللہ! علی کے سینے کو علم ، عقل و دانائی ، حکمت اور نور سے بھر دے۔ (تاریخ ابن عساکر)
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے مجھے علم کے ایک ہزار باب سکھائے اور میں نے ان میں سے ہر باب سے مزید ایک ہزار باب نکالے۔ (تفسیرِ کبیر)
حضرت سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ نے خطبے کے دوران ارشاد فرمایا: مجھ سے سوال کرو، اللہ پاک کی قسم! تم مجھ سے قیامت تک ہونے والے جس معاملے کے متعلق بھی پوچھو گے میں تمہیں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ تابعی بزرگ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور نبی کریم ﷺکے صحابہ میں سوائے حضرت علی رضی اللہْ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ مجھ سے پوچھ لو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
صحاب کرام بلکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہْ عنہا بھی مسائل کے حل کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کرتی تھیں۔ جیساکہ تابعی بزرگ حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کیونکہ وہ اس مسئلے کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ (مسلم شریف)
آپ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کس بارے میں اور کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ فقہ میں آپ کی ذات گرامی صحاب کرام کا مرجع تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود مجتہد اور فقیہ تھے، لیکن آپ سے بھی استفادہ کرتے تھے حتیٰ کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اختلاف کے باوجود اکثر مواقع پر آپ کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ جن کے فتاوٰی اور مروی اسناد پر فقہ حنفی کی بنیاد ہے، آپ کے فیض یافتہ تھے۔ علم کے ساتھ عمل کا یہ حال تھا کہ حضرت زبیر بن سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ بنی ہاشم میں آپ سے بڑھ کے کوئی عبادت گزار نہ تھا۔ حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں کہ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔
شجاعت حضرت مولائے کائنات________________
پیارے آقا 1600 صحابہ کرام کی فوج لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے اور غطفان و یہود کے درمیان وادی رجیع میں قیام فرمایا تاکہ قبیلہ? غطفان والے، یہودیوں کی مدد کو نہ پہنچ سکیں۔ (مواہب لدنی) یہودیوں کے پاس تقریباً بیس ہزار فوج تھی۔ خیبر کے قلعوں میں سب سے مضبوط قلعہ ’’قموص‘‘ تھا، اس قلعے کا سردار مرحب پہلوان تھا جو کہ عرب میں ایک ہزار سواروں کے برابر مانا جاتا تھا۔ (سیرت مصطفی) سب سے پہلے قلعہ’’ ناعِم‘‘ پر لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی میں حضرت محمود بن مسلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید ہوگئے، لیکن قلعہ آخرِ کار فتح ہوگیا۔(تفسیربغوی) قلعہ قموص: خیبر کے دوسرے قلعے بھی آسانی سے فتح ہوئے لیکن قلعہ قموص میں بہت مشکل پیش آئی، ’’مرحب‘‘ پہلوان خود اس قلعہ کی حفاظت کے لئے موجود تھا، یہ قلعہ کئی دن تک فتح نہیں ہوسکا۔
ایک دن پیارے اقا نے ارشاد فرمایا: ’’کل میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللّٰہ تعالٰی فتح دے گا، وہ اللّٰہ و رسول سے محبت کرتا ہے اور اللّٰہ و رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے یہ رات بڑی بے چینی میں گزاری کہ دیکھیں کل کس کو جھنڈا دیا جاتا ہے! صبح ہوئی تو حضور علیہ الصلوٰ والسلام نے فرمایا: ’’علی کہاں ہیں؟‘‘ لوگوں نے عرض کی: ان کی انکھوں میں تکلیف ہے۔ نبی اکرم نے انہیں بلوایا اور ان کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگا کر دعا فرمائی تو فوراً ہی انہیں ایسی شفا مل گئی گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر پیارے اقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم نے اپنے دستِ مبارک سے انہیں جھنڈا عطا فرمایا اور قلعے کی طرف روانہ فرمایا۔ (بخاری شریف)
حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقابلے میں مرحب پہلوان تھا۔ دو حملوں کا ہی تبادلہ ہوا تھا کہ شیرِ خدا نے بڑھ کر اس زور سے وار کیا کہ تلوار مرحب کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی اور اس وار کی گونج لشکر تک سنائی دی اور بالاخر حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں قلعہ فتح ہوگیا۔ (سنن کبری للنسائی)
اقوال حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ_____________
(۱) جس کی زبان شیریں ہو اس کے دوست واحباب زیادہ ہوتے ہیں۔
(۲)لوگوں کو امتحان وآزمائش کے ذریعہ تم پہچان سکتے ہو، تو تم اپنے گھر اور اپنی اولاد کو غائبانہ میں آزماؤ، اپنے دوست کو اپنی مصیبت کے وقت آزماؤ، اور اپنے رشتہ دار کو اپنی فاقہ کشی اور تنگدستی کے وقت آزماؤ۔
(۳) جو کچھ تم پر مصیبت آئے اس پراپنے آپ کو صبر کا عادی بنالو۔ ہر مصیبت کے وقت ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم‘‘ کہا کرو، اس کی برکت سے تم مصیبت کو روک دوگے، اور ہر نعمت و راحت کے وقت ’’الحمد للہ‘‘ کہا کرو کہ تم نعمتوں میں اضافہ پاؤگے۔
(۴) علم پستی میں رہنے والوں کو بلندی عطا کرتا ہے اور جہالت بلند آدمی کو بے وقار کر دیتی ہے۔
(۵) بے وقوف کا دل اس کی زبان میں ہوتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے۔
(۶) تم اس وقت تک مالدار نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم پاک دامن نہ ہوجاؤ،اور اس وقت تک زاہد (دنیا سے بے رغبتی کرنے والے) نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم منکسر المزاج نہ ہوجاؤ، اور تم اس وقت تک متواضع نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم بردبار نہ ہوجاؤ، اور تمہارا دل اس وقت تک قلب سلیم نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم مسلمانوں کے لئے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
(۷)تمام انسان جسم کے لحاظ سے برابر ہیں،ان کے والد حضرت آدم علیہ السلام اور والدہ حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔
(ماخوذ: نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار )
ربِّ کریم ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا خصوصی فیضان عطا فرمائے، اور ہمارے قلوب میں اْن سے اور تمام اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے پکی سچی الفت و محبت پیدا فرمائے آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین
٭٭٭