حضرتِ خاکی بابااپنے کشف وکرامات کے آئینے میں

0
0

۰۰۰
مولانامحمد آل مصطفی رضوی مرکزی
محمد پور مبارک ،پرشوتم پور،ضلع مظفرپور
۰۰۰
مجذوب کامل حضرت الحاج الشاہ نعمت علی خاکی بابا علیہ الرحمہ کی ذاتِ ستودہ صفات عارفانِ حق میں محتاج تعارف نہیں جن کا باطن اس قدرصاف وشفاف تھاکہ ہرآنے والے کے دل کی تحریربڑی آسانی سے پڑھ لیتے اور حسبِ آرزوتکمیل آرزوفرماتے۔
آپ کی ولادت طیبہ۱۲۷۸ہجری ددری گاؤں موجودہ ضلع سیتامڑھی میں ہوئی بچپن میں ہی والدہ کے سایہ کرم سے محروم ہوگئے تو اپنے نانیہال پنڈول بزرگ آ گئے اور یہیں پوری پرورش ہوئی کرامات کاظہورایام طفولیت سے ہی شروع ہو گیا تھا۔
سیدی سرکاراعلی حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاقادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کرامات اولیاء کاانکارگمراہی ہے (فتاوی رضویہ ج۱۴ ص،۳۲۴)
کرامت کی قسمیں:۔ حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے کرامات اولیا کے موضوع پراپنی تصنیف شدہ کتاب” جامع کرامات اولیا” کی ابتدامیں کرامت کی سترسے زیادہ اقسام کوبیان فرمایا ہے۔
بعدوصال بھی کرامات:۔اولیاء اللہ سے ان کے وصال کے بعد بھی کرامات ظاہرہوتی ہیں جیسا کہ حضرت امام ابراہیم بن محمد باجوری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیںجمہوراہل سنت کا یہی موقف ہے کہ اولیا کرام سے ان کی حیات اوربعد الممات یعنی دنیا سے جانے کے بعدبھی کرامات کا ظہورہوتا ہے۔ فقہ کے چاروں مذاہب میں کوئی ایک بھی مذہب ایسا نہیں جووصال کے بعداولیا ء کی کرامات کا انکارکرتا ہوبلکہ بعد وصال کرامات کا ظہوراولی ہے کیونکہ اس وقت نفس کدورتوں سے پاک ہوتا ہے (تحفہ المرید ص،363)زمانہ نبوت سے آج تک اہل حق کے درمیان کبھی بھی اس مسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہواسبھی کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اوراولیائے عظام کی کرامتیں حق ہیں۔ ہرزمانے میں اللہ والوں سے کرامات کا ظہورہوتا رہا اوران شاء اللہ قیامت تک ہوتا رہے گاکبھی بھی اس کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ آپ کی اک نگہ کرم نے نہ جانے کتنوں کی ٹیڑھی قسمت کو سیدھی کردی،کتنے خاطی کونیکوکاربنایا،کتنے قلبِ ویراں میں محبت رسول کی شمعیں روشن کیں،کتنوں کوتوحیدکاسبق سکھایا،مدرسوں کا وقاربچایا،طالبانِ علومِ نبویہ کیلئے نگاہوں کے فرش بچھائے،علماء کا احترام بجالانے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی اورجذبی کیفیت کے باوجودشریعت کی پاسداری اوراحکام الٰہی کی بجا آوری میں کوئی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شک وشبہ ذہن وفکر کے کسی گوشے میں سرابھارتا فوراً مجدداعظم،فقیہ اسلام،عالمِ اہلسنت امام احمدرضاقادری علیہ الرحمہ سے استفتاء فرماتے اوروہاں سے جوجواب آتا اس پر ہی عمل کرتے فتاویٰ رضویہ شریف کے کئی حصوں میں آپ کا استفتاء موجودہے کیف وجذب کے باوجودجہاں حضرت خاکی بابا کا شرع شریف پرمداومت،تصلب فی الدین اوردین وسنیت پر استقامت کی روشن دلیل ہے وہیں امام احمدرضاقادری کی عبقریت کابھی اندازہ ہوتا ہے کہ علمائ،مشائخ،دانشورانِ قوم اور فقیہانِ حرم کے علاوہ اپنے وقت کامجذوب کامل بھی اس بارگاہِ فیض سے اکتسابِ فیض کررہاہے۔
حضوراعلیٰ حضرت اورحضور خاکی بابا کا زمانہ ایک ہے مگردونوں بزرگوں کی ملاقات نہ ہوسکی تاہم ایک دوسرے بزرگ میں غائبانہ تعارف خوب تھا اورایک دوسرے کوتحفے تحائف بھی بھیجا کرتے تھے محدث اعظم بہار،استاذالعلمائ،رئیس المحدثین حضرت علامہ الشاہ مفتی احسان علی حامدی فیض پوری علیہ الرحمہ جامعہ منظر اسلام کے طالبِ علم تھے اوریہ ان دونوں بزرگوں کے درمیان بیچ کی کڑی تھے چُھٹی کے ایام گزارکرجب بریلی شریف کیلئے عزم سفرباندھتے تو حضرت خاکی بابا کی بارگاہِ عظمت میں حاضری دیتے توحضرت خاکی بابا،اعلیٰ حضرت قبلہ کی بارگاہ میں تحفہ بھیجتے اورمحدث صاحب جب وہ تحفہ پیش کرتے توسرکار اعلیٰ حضرت بے پناہ مسرتوں کا اظہارفرماتے اورکیف کے عالم میں قبول فرماتے اورجب حضرت خاکی باباکیلئے حضرت محدث صاحب قبلہ،حضوراعلیٰ حضرت کا تحفہ لے کرآ تے توآپ پرایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہوتی،سرپہ رکھتے اوررقص کرتے ہوئے اپنی خانقاہ میں تشریف لاتے اورمہینوں بطورِتبرک اسے استعمال کرتے اور ہرآنے والے کووہ تحفہ عنایت کرتے اورکہتے دیکھومجددِوقت نے تحفہ بھیجا ہے اورباربارفرحت ونشاط کا اظہارفرماتے۔
حضرت کی قوّتِ کشف کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ محدث صاحب قبلہ اپنے گھر فیض پورسے اعلیٰ حضرت کا عطا کردہ تحفہ لے کر چلتے ادھرخاکی بابا کوعلم ہوجاتا کہ مولانا احسان علی تحفہ لے کے آرہے ہیں۔ حضرت محدث صاحب کے گھر میں شادی تھی اوراس زمانے میں یہ رواج تھا کہ شادیوں میں ہانڈی میں دہی جماکربھیجاجاتا تھا۔حضرت خاکی بابا نے چندہانڈی دہی اپنے خادم کی معرفت حضرت محدث صاحب کے گھر بھیجوایا۔حضرت محدث صاحب کے گھر جانے سے پہلے ایک چھوٹی سی ندی پڑتی تھی خادم نے ہانڈی سے دہی نکالا اور کھالیا اور اس میں ندی کا پانی ملادیا جب شام کوحضرت خاکی باباحضورمحدث صاحب کے گھرپہونچے توعصائے مبارک کوزمین پرمارتے ہوئے ارشادفرمانے لگے ”رے حرمرونی کادہی کھائے تَہ کھائے پانی کاہے ملائے”(تم نے دہی توکھایا پانی کیوں ملایا)حاضرباش لوگ حیرت واستعجاب کے سمندرمیں غرق ہیں کہ حضرت کیا فرمارہے ہیں حضرت محدث قبلہ عرض گزارہوئے کہ حضوربات کیا ہے،کیوں نالاں ہیں،ہواکیاہے تب حضرت خاکی بابا علیہ الرحمہ نے افشائے راز کیا کہ جس کو میں نے دہی لے کر بھیجا تھا راستے میں اس نے ہانڈی سے دہی نکال کر کھایااور اس میں پانی بھی ملادیا ظاہر ہے کہ جب وہ دہی میں پانی ملا رہاتھا تو حضرت اپنی خانقاہ میں جلوہ فرماتھے لیکن قوتِ کشف کا یہ عالم کہ خانقاہ میں بیٹھ کرخادموں کی نازیباحرکتوں کامشاہدہ فرمارہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے ولیوں کی طہارتِ قلب اورصفائی دل کایہ حال کہ اپنی خانقاہ میں رہ کرلوگوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھتے ہیں توپھرنبی کونین رحمتِ دارین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہِ نبوت کاکیا حال ہوگا حضوراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
اورکوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خداہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
حدیث قدسی ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ جب میراقرب حاصل کرتاہے تو میں اس کاہاتھ،اس کا کان،اس کا پاؤں اوراس کی آنکھ ہوجاتا ہوں ماضی قریب میں اس حدیث پاک کا پیکرجمیل دیکھنا ہوتومحسوس نگاہوں میں حضرت خاکی بابا کی باکمال شخصیت کودیکھیں پنڈول شریف سے دس پندرہ کیلومیٹرکے فاصلے گرہول بستی واقع ہے جہاں بشارت کریم نامی ایک مولوی صاحب تھے اورخوب دعاتعویذ کیا کرتے تھے حالانکہ ان کا رشتہ علمائے دیوبندسے تھاایک مرتبہ وہ جنات کے دامِ فریب میں آگئے ہوایوں کہ ایک شخص آسیب زدہ تھا اس کے گھرکے لوگ اس شخصِ مذکورکومولوی بشارت کریم کے یہاں لے کرگئے ابھی یہ لوگ راستے میں ہی تھے کہ جِن اس کے جسم سے جدا ہوکر مولوی صاحب کے یہاں پہونچ گیا اور کہنے لگا کہ ایک بات بتائیں کہ اگرکوئی کسی گھرمیں رہتا ہوتوبلاوجہ اس گھرسے نکالنا کیسا ہے تومولوی بشارت کریم صاحب جوابا کہنے لگے یہ تو شرعاً درست نہیں ہے یہ سن کروہ جِن پلٹااور پھرسے اس شخص پرسوارہوگیا جب سبھی لوگ مریض کو لے کرمولوی بشارت کریم کے پاس پہونچے اورانہوں نے جیسے ہی جھاڑپھونک شروع کیاتوجِن کہنے لگا حضرت ابھی توآپ نے مسئلہ بتایا ہے کہ یہ شرعاً جائز نہیں اوروہ کام خود ہی کررہے ہیں اب تو مولوی بشارت کریم سناٹے میں آگئے اورکہنے لگے اسے حضرت خاکی باباکے پاس لے جاؤ سب لوگ اسے خاکی بابا کے پاس لے کرچلے پھر اس نے وہی حرکت شروع کی جوپہلے کرچکا تھامریض کے جسم سے الگ ہوکرحضرت خاکی باباکی بارگاہ میں پہونچا اورجیسے ہی مسئلہ دریافت کیاحضرت نے بال پکڑااورفرمایا ”رے حرمرونی کا ہمرے بشرتاسمجھے ہے”اورپھرعصاسے دوچارعصالگایا توگرگراتے ہوئے کہنے لگاحضورچھوڑ دیجئے اب میں اس مریض کو تنگ نہیں کروں گا اورپھرغائب ہوگیا کچھ لمحے بعدلوگ مریض کو لے کرحضرت کی بارگاہ میں حاضرہوئے تو حضرت خاکی بابا نے ارشادفرمایا کہ ”رے حرمرونی کا جوتورامریض تَہ ٹھیک ہوگیلو”(تم لوگ جاؤ تمہارا مریض اچھا ہوگیا)
مشہورہے کہ کنہواں ضلع سیتا مڑھی کا کوئی شخص حضرت خاکی بابا سے ملنے کیلئے پنڈول آیا تو وہاں کے مشہوردیوبندی مدرسہ اشرف العلوم کے ناظم نے اس سے کہا کہ جا رہے ہوتو خاکی بابا سے ہمارے مدرسہ کے لئے کچھ مانگ کرلانا وہ شخص حاضرہوا اورجب جانے کی اجازت چاہی تو خاکی بابا نے فرمایا کہ تم سے کہاگیاتھاکہ مدرسہ کیلئے کچھ مانگ کرلانا تم بھول گئے انارکے درخت کی چندٹہنی توڑکرحضرت خاکی بابا نے اس کودے دیاجھولے میں رکھ کروہ چلاگیااورپھردینابھول گیاکئی دنوں کے بعدناظم کے مطالبہ پرجھولاسے سوکھی ٹہنی نکال کردیاجسے مدرسہ کے صحن میں لگادیاگیا۔ قدرت الہی سے اس میں جان آگئی اورلہلہاتاہوا ہرابھرادرخت ہوگیااوربرسوں پھل دیتا رہا۔
حضرت محبی بانی ومہتمم اول مدرسہ نورالھدی پوکھریرا کے عہدمیں حضرت صدرالافاضل،مولانا مفتی سیدنعیم الدین مرادآبادی اورمخدوم الملت سیدمحمدمحدث اعظم ہندکچھوچھوی رحمہم اللہ جلسہ میں تشریف لائے مدرسہ کے کمرہ میں دونوں بزرگوں کا ایک ساتھ قیام تھا انھوں نے لیچی و دہی کھانے کا اشتیاق ظاہرکیا مظفرپورکی لیچی مشہورہے لیکن وہ لیچی کا موسم نھیں تھا۔کچھ ہی دیرمیں امام المکاشفین فی عصرہ حضرت بابرکت خاکی بابا ایک توانا مزدورکے ساتھ ایک بڑے ٹوکرے میں تازہ لیچی اور تازہ دہی لیکرتشریف لائے اورفرمایا آپ حضرات لیچی ودہی کی خواہش رکھتے تھے لیجئے حاضرہے تناول فرمائیے۔حضرت خاکی باباکی زندہ کرامت:۔پوکھیریراشریف شمالی بہارکی ایک علمی بستی مانی جاتی ہے دینی اور عصری علوم سے آراستہ شخصیتوں کی کمی نہیں جسے اعلیٰ حضرت کے محب خاص مترجم قرآن حضرت مولانا شاہ عبدالرحمن قادری کے گاؤں ہونے کاشرف حاصل ہے اورشمالی بہارمیں دین حنیف کی خدمت اورمسلک رضا کا فروغ آپ کا اصل اہداف رہا۔ہرسال نسلوں کے ایمان و عقیدے کے تحفظ اوراصلاح اعمال کے لیے جلسے کراتے اور جلسے میں علما کا انتخاب حضوراعلیٰ حضرت فرماتے۔جماعت رضائے مصطفی کے بینرتلے پورے ملک میں آل انڈیاسنی کانفرنس منعقد ہورہی تھی توشمالی بہارمیں حضرت محبی کواس کانفرنس کا صدرمنتخب کیاگیا اورپوکھیریراشریف میں تین روزہ اجلاس ہوا جس میں پورے برصغیرسے بہ شمول پاکستان و بنگلہ دیش باون علما،مشائخ اور سادات کرام کو مدعو کیا گیااس وقت لاوڈاسپیکر کارواج نہیں تھااس لئے گاؤں میں الگ الگ چارمنبرفاصلے فاصلے سے تیار کئے گئے اورعوام کی اس قدرکثرت ہوئی کہ جس طرف نظرجاتی تاحدنگاہ انسانی سروں کا سیلاب دکھائی دیتا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ پوری بستی کے کنوئیں اورتالاب کا پانی خشک ہوگیااس صورت حال کو دیکھ کرحضرت محبی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دوست امام المکاشفین فی عصرہ حضرت بابرکت الحاج الشاہ نعمت علی خاکی بابا علیہ الرحمہ کولے کر مدرسہ نورالہدی کے مغربی حصہ میں پہونچے جہاں سے ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی اوروہ بھی خشک ہوچکی تھی حضرت خاکی بابا نے اپنے ہاتھ میں کدال پکڑااور ایک ہی ضرب لگائی تھی کہ صاف وشفاف پانی کاچشمہ ابل پڑااورسارامجمع اس پانی سے سیراب ہونے لگا۔اس سال حضورحجتہ الاسلام،شیخ المحدثین حضرت محدث سورتی،مفتی عبدالسلام جبلپوری،صدرالافاضل،ملک العلما،شاہ ابونصرحمداللہ کمال پشاور،سیدشاہ دیدارعلی الوری،مولانا وصی احمدسہسرامی،حضرت صدرالشریعہ،مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی اورسیدقطب الدین برہمچاری علیہم الرحمہ جیسی نادراورعبقری شخصیات کی تشریف آوری ہوئی اورتین شبانہ یوم علماء کی تقاریر ہوتی رہیں۔
بد عقیدہ مولوی کی زبان گنگ ہوگئی، عمدۃ المحققین پیر طریقت حضرت علامہ مفتی محمود احمد صاحب قبلہ رفاقتی، سجادہ نشین خانقاہ امین شریعت بھوانی پور مظفر پور نے فقیر تذکرہ نگار سے حضرت ممدوح کی ایک کھلی کرامت بیان فرمائی کہ حضرت خاکی بابا اور حضرت ولی الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کسی بارات میں تشریف لے گئے۔ اتفاق سے بارات جس گاؤں میں گئی وہاں کی مسجد پہ وہابی امام قابض تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ حضرت خاکی بابا علیہ الرحمہ نے فرمایا، ہو ولی چل نہ جمعہ کی نماز پڑھ نہ لِ (مولانا ولی چلیے نا جمعہ کی نماز پڑھ لیجئے) مولانا نے فرمایا حضرت اس مسجد میں وہابی مولوی امامت کرتا ہے اور ہم سنیوں کی نماز بد عقیدہ مولوی کی اقتدا میں درست نہیں ہوگی۔ لہذا ہم لوگ جمعہ کی جگہ ظہر کی نماز ادا کریں گے۔ حضرت نے فرمایا ہو ولی چل نہ تو ہی امامت کر دیہہ (مولانا ولی چلئے آپ ہی امامت فرمائیں گے)۔ چنانچہ دونوں بزرگ مسجد میں پہنچے اور اپنی اپنی سنتیں ادا کیں۔ جب خطبہ کا وقت ہوا تو بد عقیدہ مولوی منبر پہ چڑھ گیا۔ حضرت خاکی بابا نے جیسے ہی اس کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا اس کی قوت گویائی سلب ہوگئی اور ایک حرف بھی نہ ادا کر سکا۔ پھر حضرت نے فرمایا ’’ہو ولی تو پڑھاؤ نہ اُو کے نہ پڑھاوے آوھیے(مولانا ولی آپ پڑھائیے اسے پڑھانا نہیں آتا ہے)۔ حضرت کے ارشاد کے مطابق حضرت مولانا ولی الرحمن صاحب نے خطبہ پڑھا اور امامت فرمائی۔
مٹی کے ڈھیلا کی سواری:۔ خداوند قدوس نے اپنے محبوبان بارگاہ کو ایسی قوت اور تصرف کی دولت بخشی ہے کہ جسے چاہیں اپنا تابع فرمان کر لیں۔ چنانچہ اس ضمن میں حضرت کا ایک واقعہ زبان زد خاص و عام ہے کہ ایک دن حضرت اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ بکری چرا ر ہے تھے۔ کھیت میں مٹی کا ایک بہت بڑا ڈھیلا تھا۔ آپ اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: چل۔ حکم پاتے ہی وہ ڈھیلا چلنے لگا اور حضرت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس پر بیٹھے رہے۔
یہ ہے اہل اللہ کا تصرف کہ اگر بے جان چیزوں میں بھی ٹھوکر مار دیں تو زندگی کی حرارت انگڑائی لینے لگے۔ اور کبھی ایسا ہوتا کہ اپنے ساتھیوں سے فرماتے اوپر سے مٹی پاٹ دو بچے مٹی ڈال کر گڑھا برابر کر دیتے۔ مگر چند لمحوں میں دیکھتے کہ حضرت خاکی بابا کسی دوسری طرف سے تشریف لا رہے ہیں۔
ایک سال مدرسہ نورالہدیٰ پوکھریرا شریف کے سالانہ اجلاس میں صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین صاحب مرادآبادی رحمتہ اللہ علیہ مقر رخصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے۔گھر سے روانہ ہوتے وقت حضرت کے صاحبزادوں نے عرض کیا، حضو آپ مظفرپورتشریف لے جارہے ہیں۔ واپسی میں وہاں سے ہم لوگوں کے لئے لیچی لیتے آئیں گے۔حضرت نے بچوں سے وعدہ فرمالیا۔آپ مظفرپورپہنچے اور رات کو پوکھریرا شریف کے اجلاس میں ایک دل پذیرتقریر فرمائی۔صبح فجر کی نماز کے بعد بیل گاڑی پرسوار ہوکرپوکھریرا شریف سے مظفرپورکے لئے روانہ ہو گئے۔ ریلوے اسٹیشن پہنچے ٹرین پر تشریف فرما ہوئے۔بس ٹرین کھلنے ہی والی تھی کہ حضرت خاکی بابا رحمتہ اللہ علیہ لیچی سے بھری دو ٹوکری حضرت صدرالافاضل کی خدمت عالیہ میں پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ:
”مولانا آپ نے اپنے بچوں سے جو وعدہ فرمایا تھا وہ بھول گئے۔لیجئے یہ ہے مظفر پور کا تحفہ،اپنے بچوں کو پیش کر دیجئے گا”
آپ نے دیکھا صاحبان کشف کیسے ہوتے ہیں اللہ انہیں کیسی سماعت اورکیسی بصارت عطا فرماتاہے کہنے والے مرآدآباد یوپی کی سرزمین پرکہہ رہے ہیں،لیچی لیتے آئیے گا اورسننے والا پنڈول مظفر پوربہار سے سماعت کررہا ہے۔جانے والامظفرپورسے خالی جارہا ہے دیکھنے والے نے دیکھ لیا کہ مظفرپورکی لیچی نہیں ہے توخود دو ٹوکڑی لیچی لیکرمظفرپوراسٹیشن پہونچ گئے۔سبحان اللہ
گنگا ندی کی پریشانیوں سے نجات: حضرت خاکی بابا علیہ الرحمہ جب مہنارپہونچے جوموجودہ ضلع ویشالی میں واقع ہے اورآج جہاں آپ کاآستانہ مبارک مرجع خلائق ہے جب یہاں آپ کی آمدکی خبرپورے علاقے میں پھیل گئی کہ محترم جناب رحمت علی صاحب کے گھرپراللہ کے ایک مقدس اورصاحب کشف ولی تشریف لائے ہیں توپھرکیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے پوراعلاقہ سمٹ آیاکیا ہند وکیامسلمان ، کیاسکھ کیا عیسائی،سبھی آرہے ہیں اوردست بستہ عرض گزار ہیں حضورہم لوگ گنگا ندی سے کافی پریشان ہیں ہرسال سیلاب آتا ہے اور ہم سب کے مکانات تباہ وبربادہوجاتے ہیں،فصلیں ضائع ہوجاتی ہیں اورساری محنتوں پرپانی پھرجاتاہے۔ ہرایک کی یہی تمنا، یہی آرزو یہی شکایت چنانچہ سب کی فریادسننے کے بعدحضرت نے اپنے ہاتھ میں عصا لیا،ندی کے کنارے تشریف لے گئے اورندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ــ’’رے حرمرونی کی توسب کوپریشان کرتی ہے یہاں سے دورہوجا ‘‘اوراپنے عصا سے ایک نشان کھینچ دیااتنا کہنا تھا کہ گنگا ندی مہنارگاؤں سے تقریباً ایک کلومیٹردورچلی گئی اورسبھی لوگ اس سال سے اب تک جان و مال کے نقصانات اور ہرطرح کی پریشانیوں سے محفوظ ہو گئے۔
حضرت کے لیے ٹرین رُک گئی:۔ ۱۲؍شعبان المعظم ۱۳۵۰؁ء کو چند عقیدت مندوں کو اپنے ساتھ لے کر مہنار کے لیے روانہ ہوئے۔ مہنار سے ایک اسٹیشن پہلے ٹرین رکی۔ حضرت خاکی بابا علیہ الرحمہ نے رشاد فرمایا کہ عصر کا وقت ہو چکا ہے چلو چل کرنماز اداکرلیں حضرت عقیدت مندوں کے ساتھ ریل گاڑی سے نیچے اترے۔ وضو فر مایا اور عصر کی نماز ادا کی۔ دعا فرمائی حالت دعامیںہی آپ پر جذبی کیفیت طاری ہوئی تو آپ اسٹیشن سے باہر نکل کر آبادی کی طرف چل پڑے۔ ادھر ٹرین کھلنے کا وقت ہو چکا تھا۔ سارے عقیدت مند حیران وپریشان کہ ٹرین کھل رہی ہے اورنہ معلوم حضرت کدھر تشریف لیجا رہے ہیں۔ اسی بیچ گارڈ نے ہری جھنڈی دکھلایا اورڈرائیورنے سیٹی دیدی۔ مگرہرممکن کوشش کے باوجودریل گاڑی چلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
اس کی خبر اسٹیشن ماسٹرکودی گئی ٹرین کے مکینک کوبلایاگیا کافی جانچ پڑتال کیا گیا مگرکوئی خرابی نظرنہیں آئی اسٹیشن کا سارا عملہ حیران ہے کہ ٹرین کا ہر کل پرزہ درست ہے اس کے باوجود چل کیوں نہیں رہی ہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟ ایک سادھو جو اسٹیشن پربیٹھا ہوااپنے ماتھے کی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ایک طرف وہ حضرت کی جذبی کیفیات کا بغور مطالعہ کر رہا تھا تو دوسری طرف اسٹیشن کے عملہ کی پریشانیاں اس کی نگاہوں کے سامنے تھیں اسے رہا نہ گیابالآخراس نے اسٹیشن ماسٹر سے جاکر کہاکہ ابھی ایک بابا یہاں نماز پڑھ رہے تھے اور نماز پڑھنے کے بعد وہ باہر چلے گئے ہیں۔ ٹرین ان کے لئے ہی رکی ہوئی ہے۔ انہیں بلاکر لائیے جبھی ٹرین چلے گی۔ ابھی یہ گفت وشنیدچل ہی رہی تھی کہ اسی اثنامیں حضرت مسکراتے ہوئے اسٹیشن کے اندر داخل ہوئے۔ ریلوے ملازمین نے دست بستہ عرض کی حضور ہم لوگ کافی دیر سے پریشان ہیں، ٹرین نہیں چل رہی ہے۔ جب تک آپ نہ بیٹھیں گے ٹرین نہیں چلے گی۔ آپ نے ان لوگوں کی بات سنی ایک ٹھوکر ماری اور فرمایا ’’رے حرم نی کی کیوں نہیں چل رہی ہے مسافر کو پریشان کر رہی ہے‘‘۔ اتناکہہ کر ٹھوکر لگائی اورٹرین چل پڑی۔ جب ٹرین مہنار پہنچی تو آپ اپنے خادموں کے ساتھ اتر گئے اور وہاں رحمت علی صاحب مرحوم کے عشرت کدہ پر قیام فرمایا۔ رحمت علی صاحب نے آپ کا شایان شان خیر مقدم کیا اور بڑی خندہ پیشانی اور احترام و عقیدت کے ساتھ پیش آئے۔ رحمت علی صاحب مرحوم کے گھر سے پہلے ایک ویران زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ زمین بہت ہنس رہی ہے۔ مگر کسے خبر کہ یہی ویران زمین کل شاداب چمن میں تبدیل ہو جائے گی اور کشف و ولایت کا یہ درخشاں سورج یہیں سے اپنے فیض کا اجالا بکھیرے گا۔
یہ چندواقعات حضرت خاکی بابا علیہ الرحمہ کے قوتِ کشف کے حوالے سے تھے جس کے مطالعہ سے اولیائے کرام کی قوتِ باطنی،نگہ عنایت،قربِ الٰہی اور بارگاہِ مصطفی میں مقبولیت ومحبوبیت کا اندازہ ہوتا ہے:
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہوتو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
مزارشریف:۔وصال مبارک سے چنددن پہلے آپ نے مہنارضلع ویشالی جانے کا ارادہ فرمایا پنڈول سے پوپری اسٹیشن پہونچے اوروہاں سے بذریعہ ٹرین مہنار کے لیے روانہ ہوئے اورمہنارمیں جناب رحمت علی صاحب کے گھرقیام فرمایا ۱۳/شعبان المعظم ۱۳۵۰ہجری کو فجرنمازکی پہلی رکعت کے پہلے سجدہ میں روح پاک قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔حافظ عبدالحمیدحامدمہناروی نے نمازجنازہ پڑھائی اورجس زمین کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ یہ بہت مسکرارہی ہے اسی زمین پہ آپ کا مزارِمبارک بنا۔ آج ہرسال عرس کے بابرکت موقع سے ہزاروں زائرین آستانے پہ حاضرہوکربامرادلوٹتے ہیں۔
9122426786

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا