حسن اخلاق کا فقدان کیوں ؟

0
0

۰۰۰
اسد علی قریشی9797315344
۰۰۰

 

 

 

آج کے اس دور میں اخلاقی اغطاط اور انتشار میں ُمبتلا ہمارا معاشرہ ایک عجیب بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔افراتفری کے اَس دور میں عدم برداشت اور عدم رواداری کے باعث نہت سے مسائل جنم لے رہے ہے۔آج اپنے خقوق تو ہر کوئی مانگ رہا ہے ۔مگر اکثریت اپنے فرئیض اور حسن اخلاقی سے غلفت برتے ہوئے ہے۔اِس صورتخال کے باعث معاشرے میں آئے دِن طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ایک مسلہ حل ہونے نہیں پاتا کہ دوسرا پیدا ہو جاتا ہے۔بلکہ بعض وقت توکسی مسلہ کا حل ہی نئے مسائل کی وجہ بن جاتا ہے ۔بلاشبہ یہ صورت اس وقت رہے گی جب تک معاشرے کی بنیاد اور اخلاقیات کی اقداروں کو مستحکم اور استوار نہیں کیا جاتا ۔خاندان مواشرے کی پہلی اکائی ہے ۔جبکہ بہت سے خاندانون کا مجوعہ معاشرے کہلاتا ہے ۔ایک شہر یا ایک مُلک کے لوگ مل کر معاشرہ بناتے ہیں ۔کسی شہر کے لوگوں کی عادتیں ،اخلاق،طور طریقے ،مزاج،رسمیں،رہنے سہنے اور کھانے پینے کے طریقے آپس میں ملنے جلنے کے انداز ،اِس شہر کی زندگی کو آسان یا مشکل بناتے ہیں ۔اِس شہر میں رہنے والا ہر شخض معاشرے پر ااثر ڈالتا ہے اور اثر لیتا بھی ہے ۔جس گھر کے لوگ آپس مین میل محبت سے رہتے ہیں ایک دوسرے کے کام بڑھ چڑھ کے کرتے ہوں تو اِس خاندان کے لوگ آرام سے زندگی گزرتے ہیں ۔ایسے مسالی خاندان مسالی معاشرے کی بنیاد بن سکتے ہیں ۔دنیا میں اِنسان کے سکون اور خوشی کا اغصار اچھے تعلقات پر ہے ۔کوئی آدمی اپنے قریب کے لوگوںسے بگاڑکر خوش نہیں رہ سکتا۔رشتے دار آپس میں سب سے قریب ہوتے ہیں ۔پڑوسی بھی سب سے قریب ہوتے ہیں ۔بعض دوست اور ساتھی بھی عزیزوں کی طرح ہوتے ہیں ۔پھر رشتے داروں میں بھی کئی درجے ہوتے ہیں ۔ماں باپ،میاں بیوی،بیٹا بیٹی،بھائی بہن،اور دوسرے رشتے دار اپنی جگہ محبت اور تعلق رکھتے ہیں ۔اِن سب کا خق ایک دوسرے پر ہوتا ہے ۔اِس خق کو ادا کرنے کا مسالی جذبہ اور رشتوں کا احترم لازمی ہونا چاہیے۔جو عزیزرشتے دار جس سکوک کا مستحق ہے اِس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جانا چاہیے۔ حسن اخلاق بہتر کرنے کیلئے نبی کریم محمدؐ کی تعلیمات نہایت (جامع اور متم ہیں)ضروری ہے۔جن پر عمل کرنے میں دُنیا وآخرت یعنی دونوں جہانوں کی کامیابی ہے ۔بہت سی احادیث مبارکہ میں پاک پغمبرمحمدؐ نے بتلایاہے کہ حسن اخلاق کے ساتھ آچھی زندگی کیسے گذاری جا سکتی ہے۔نبی کریم محمدؐ کا ارشاد پاک ہے کہ تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اُس شخض کا ہے ۔جس کے اخلاق سب سے آچھے ہوں اور جو اپنے گھر والوںکے ساتھ اچھے سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔ایک بار نبی کریم محمدؐ نے صحابہ اکرام سے پوچھا جانتے ہو تم میں مفلس کون ہے ؟صحابہ نے جواب دیا جس کے پاس نہ تودرہم ہوں نہ کوئی سامان ۔نبی کریم محمدؐ نے فرمایا میری اُمت کا مفلس وہ شخض ہے جو قیامت میں آپنی نماز،روزہ اور زکوہٌ کے ساتھ تو اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہو گا۔مگر اِس کے ساتھ اُس نے دُنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہو گی،کسی کا مال دبایا ہو گا،کسی کو ناخق مارا ہوگا ۔ آج کے اس دور میں اخلاقی اغطاط اور انتشار میں ُمبتلا ہمارا معاشرہ ایک عجیب بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔افراتفری کے اَس دور میں عدم برداشت اور عدم رواداری کے باعث نہت سے مسائل جنم لے رہے ہے۔آج اپنے خقوق تو ہر کوئی مانگ رہا ہے ۔مگر اکثریت اپنے فرئیض اور حسن اخلاقی سے غلفت برتے ہوئے ہے۔اِس صورتخال کے باعث معاشرے میں آئے دِن طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ایک مسلہ حل ہونے نہیں پاتا کہ دوسرا پیدا ہو جاتا ہے۔بلکہ بعض وقت توکسی مسلہ کا حل ہی نئے مسائل کی وجہ بن جاتا ہے ۔بلاشبہ یہ صورت اس وقت رہے گی جب تک معاشرے کی بنیاد اور اخلاقیات کی اقداروں کو مستحکم اور استوار نہیں کیا جاتا ۔خاندان مواشرے کی پہلی اکائی ہے ۔جبکہ بہت سے خاندانون کا مجوعہ معاشرے کہلاتا ہے ۔ایک شہر یا ایک مُلک کے لوگ مل کر معاشرہ بناتے ہیں ۔کسی شہر کے لوگوں کی عادتیں ،اخلاق،طور طریقے ،مزاج،رسمیں،رہنے سہنے اور کھانے پینے کے طریقے آپس میں ملنے جلنے کے انداز ،اِس شہر کی زندگی کو آسان یا مشکل بناتے ہیں ۔اِس شہر میں رہنے والا ہر شخض معاشرے پر ااثر ڈالتا ہے اور اثر لیتا بھی ہے ۔جس گھر کے لوگ آپس مین میل محبت سے رہتے ہیں ایک دوسرے کے کام بڑھ چڑھ کے کرتے ہوں تو اِس خاندان کے لوگ آرام سے زندگی گزرتے ہیں ۔ایسے مسالی خاندان مسالی معاشرے کی بنیاد بن سکتے ہیں ۔دنیا میں اِنسان کے سکون اور خوشی کا اغصار اچھے تعلقات پر ہے ۔کوئی آدمی اپنے قریب کے لوگوںسے بگاڑکر خوش نہیں رہ سکتا۔رشتے دار آپس میں سب سے قریب ہوتے ہیں ۔پڑوسی بھی سب سے قریب ہوتے ہیں ۔بعض دوست اور ساتھی بھی عزیزوں کی طرح ہوتے ہیں ۔پھر رشتے داروں میں بھی کئی درجے ہوتے ہیں ۔ماں باپ،میاں بیوی،بیٹا بیٹی،بھائی بہن،اور دوسرے رشتے دار اپنی جگہ محبت اور تعلق رکھتے ہیں ۔اِن سب کا خق ایک دوسرے پر ہوتا ہے ۔اِس خق کو ادا کرنے کا مسالی جذبہ اور رشتوں کا احترم لازمی ہونا چاہیے۔جو عزیزرشتے دار جس سکوک کا مستحق ہے اِس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جانا چاہیے۔ حسن اخلاق بہتر کرنے کیلئے نبی کریم محمدؐ کی تعلیمات نہایت (جامع اور متم ہیں)ضروری ہے۔جن پر عمل کرنے میں دُنیا وآخرت یعنی دونوں جہانوں کی کامیابی ہے ۔بہت سی احادیث مبارکہ میں پاک پغمبرمحمدؐ نے بتلایاہے کہ حسن اخلاق کے ساتھ آچھی زندگی کیسے گذاری جا سکتی ہے۔نبی کریم محمدؐ کا ارشاد پاک ہے کہ تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اُس شخض کا ہے ۔جس کے اخلاق سب سے آچھے ہوں اور جو اپنے گھر والوںکے ساتھ اچھے سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔ایک بار نبی کریم محمدؐ نے صحابہ اکرام سے پوچھا جانتے ہو تم میں مفلس کون ہے ؟صحابہ نے جواب دیا جس کے پاس نہ تودرہم ہوں نہ کوئی سامان ۔نبی کریم محمدؐ نے فرمایا میری اُمت کا مفلس وہ شخض ہے جو قیامت میں آپنی نماز،روزہ اور زکوہٌ کے ساتھ تو اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہو گا۔مگر اِس کے ساتھ اُس نے دُنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہو گی،کسی کا مال دبایا ہو گا،کسی کو ناخق مارا ہوگا ۔اِن تمام مظلوموں میں اِس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی ۔پھر اِس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی۔اور مظلوموں کے خقوق باقی رہیں گئے تو اِن مظلوموں کے گناہ اِس کے حساب میں ڈال دیے جائیں گئے۔اور پھر اِسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔جس طرح آپس میں لوگاں سے آچھے تعلقات رکھنا اخلاقی خوبی ہے ۔اسی طرح لوگاں سے لڑنا جھگڑنا یا بُرا بھلا کہنا بھی اخلاقی عیب ہے ۔لیکن جو لوگ دوسروں کے آپس کے تعلقات خرب کرتے یا کرواتے ہیں ۔لوگوں کے دلوں میں رنجش پیدا کرتے ہیں اور وہ اپنی عبادتوں کا ثواب بھی ضایع کر دیتے ہیں ۔حضرت آمنہ کے گلشن کے مہکتے تارے یعنی تاجدارِمدینہ کا فرمان ہے میں تمہیں بتائوں کہ روزے،صدقے اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟وہ ہے؟وہ ہے بگڑے ہوئے تعلقات میں اصلح کروانا۔اور لوگوں کے تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے ۔سرکارِدوعالم حضرت محمدؐ کا فرمان ہے ۔اپنے بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ ہی ایسا مذاق کرو جس سے اُسے تکلیف ہو اور نہ ہی ایسا وعدہ کرو جسے پورا نہ کر سکو اور یہ بھی فرمایہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخض مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کیلئے وہی بات پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔خضور اکرم محمدؐ نے جو ہدایات دی ہیں اور حود اپنی دندگی میں اپنے عمل سے جو نمونہ یا معیار ہمیںعطا کیا ہے ۔اِس پر عمل کیا جائے تو خاندان اور مواشرے کے سب لوگوں کو سکون اور خوشی میسر ہو سکتی ہے ۔آپ ؐ کی زندگی ہمارے لیے راستہ اور بہترین منزل ہے ۔جس پر چل کر ہمیں دو جہانوں کی زندگی میں کامیابی  مل سکتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا