حافظ کر ناٹکی اور بچوں کا ادب

0
0

ڈاکٹر پریمی رومانی
حافظ کر ناٹکی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ وہ شاعر بھی ہیں اور نثر نگار بھی ۔ بچوں کے ادب سے وہ خاص دلچسپی رکھتے اور اس سلسلے میں کئی چھوٹی بڑی تصانیف ضبط تحریر میں لا چکے ہیں جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔حا فظ کرناٹکی قومی یکجہتی، حب الوطنی اور انسان دوستی کے موضوعات پربھی وقتناً فوقتاً خامہ فرسائی کر چکے ہیں اور اس شعبے میں بھی انہوں نے اپنے خیالات کی فراوانی اور جذبات کی شدت سے کارنامے انجام دئے ہیں ۔ ان کی نمائندہ غزلوں کا مجموعہ شان غزل کے نام سے بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔جس کی علمی و ادبی دنیا میں کا فی پذیرائی ہوچکی ہے۔ اس طرح سے ان کی گوناگوں موضوعات پر لکھی گئی کتابوں نے ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی علم و ادب، تہذیب و تمدن اور قومی اور وطن پرستی کا پیغام پہنچا دیا ہے ۔ حافظ کرناٹکی سچے اور بیباک ادیب اور شاعر ہیں ۔ وہ پڑھنے لکھنے کے کام میں ہر وقت منہمک رہتے ہیں اور علم وادب کی خدمت کرتے رہتے ہیں ۔ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی ، حافظ کرناٹکی کی محنت ،جذبہء شوق، ان کی انسان دوستی ،تصانیف و تالیفات سے ان کی بے پناہ محبت اور شغف کے بارے میں لکھتے ہیں ۔۔
حافظ کر ناٹکی آج کے ادبی منظر نامے کا سب سے جانا پہچانا نام ہے زبان و ا دب سے ان کا عشق غیرمشروط اور نہایت والہانہ ہے۔ وہ رکے اور تھکے بغیر تصنیف و تالیف سے ہمہ دم مصروف و منہمک ہیں ۔ انہوں نے بہت کم عرصے میں اردو زبان و ادب کو تقریباً ۸۰کتابیں دی ہیں ۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے قلم کی روانی کا مقابلہ کرنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسے بھی اہم بات یہ ہے کہ حافظ کرناٹکی زود نویس ہونے کے باوجود تخلیقی وفور سے سرشار ہیں ‘‘
جیسا کہ درج بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ حا فظ کرناٹکی کثیر التعداد کتابوں کے مصنف ہیں اوریہ کتابیں نظم و نثر میں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ان کتابوں میں ساز وطن ، صحن مسرت ، گلپوش جھروکے، فریاد نامہ ،چمکتے ستارے ، چاند گگن ، مہکتی کلیاں ، بلبلوں کے گیت جیسے بچوں کے لئے نظموں کے مجموعے ہیں اور نثر میں سبھاش چندر بوس ، معماران وطن ، سب رنگ مضامین، رابندر ناتھ ٹہگور ، نور جہاں، بچوں کا ادب ، حضرت ٹیپو سلطان ، فخر وطن ،اور چا چا نہرو وغیرہ جیسی مفید اور سبق آموز کتابیں قابل ذکر ہیں ۔جو بچوں کے ادب میںاضافے کی حثیت رکھتی ہیں۔ حافظ کرناٹکی علامہ اقبال سے گہرے طور پر متاثر ہیں۔ وہ حالی اور شبلی کی تحریروں کے بھی دلدادہ ہیں ا ن کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف ان اکابرین کے نظریات سے متاثر ہیں بلکہ انہوں نے ان نظریات سے فیض بھی اٹھایا ہے ۔حافظ کرناٹکی کی شاعری میں کہیں کہیں علامہ اقبال کے خیالات ان کی تشبہات و استعارات اور علایم کا عکس بخوبی پہچانا جا سکتا ہے۔ ان کی نظم پرندے کی فریاد کا وہ بچپن میں ہی مطالعہ کر چکے تھے اور اس نظم نے ان کے دل و دماغ پر گہری چھاپ ڈال دی تھی۔ ایک جگہ وہ خود فریاد نامہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
فریاد نامہ ایسا شعری مجموعہ ہے جسے میں اپنے دل کی آواز کہہ سکتا ہوں ۔ یہ نظمیں ان تجربات و مشاہدات کی دین ہیں جو میرے لئے کافی اہمیت رکھتے ہیں ۔۔۔۔ مجھے اس بات کے اعتراف میں باک نہیں ہے کہ میں نے علامہ اقبال کی نظم’’ پرندے کی فریاد‘‘ جب بچپن میں پڑھی تھی تو اس کا آہنگ اور اس کا لحن میرے وجود میں رچ بس گیا تھا اس نظم میں جو ایک خاص طرح کا سوز ہے وہ اس طرح قلب پروارد ہوا کہ وہ میری زندگی کے لحن میں ایک بنیادی لہر بن کر زندہ رہ گیا،غالبا ً اسی پرندے کی فریاد کا اثر ہے‘‘
اس میں کو ئی شک نہیں کہ بچوں کے بارے میں لکھنے سے قبل بچوں کی شخصیت اور ان کی نشوو نما ان کی زبان ، کھیل کود کے طور طریقے اور ان کے مزاج کو پرکھنے کے بعد ا ن میں مدغم ہوجانالازمی بن جاتاہے۔ پروفیسر عبدالحق اپنے ایک مضمون میں انسانی سماج میں بچوں کی اہمیت اور افادیت کا جایزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں ؛۔
انسانی سماج کا پہلا تعمیری نقش بچوں سے بنا ہے اور ہماریمعاشرے کا عکس و اظہار انہیں بچوں کے ذہن میں مرکوز ہوتا رہتا ہے۔ چونکہ یہ تہذیب کے امین اور نگہبان ہوتے ہیں اسلئے ان کی تربیت کا مسلہ ہمارے علوم میں بنیادی توجہ اور ترجیح کا حامل رہا ہے‘‘
اس اقتباس کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو حافظ کرناٹکی کی بچوں کے لئے لکھی گئی تصانیف نے بچوں کی جذبات کو سمجھنے کے لئے نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ مختلف عمر کے بچوں میںرہے ہیں ۔ اسی لئے وہ ان کے طور طریقے اور مزاج اور ان کے خیالات سے واقفیت رکھتے ہیں۔ حافظ ایک عرصہ تک مدرس بھی رہے ہیں ۔ اس لئے انہوں نے بچوں کی حرکات و سکنات کا باریک بینی سے مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے ۔ وہ بچوں کی نفسیاتی کیفیت، ان کی جبلت اور ان کے شعور و ادراک کو سمجھنے میں بھی بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ قلم کو زبان دے کر اس میدان میں نت نئے پھول کھلانے میں منہمک رہتے ہیں ۔ شبہنہ طلعت ، حافظ کرناٹکی کے اس دور کی تصو یر کھینچتے ہوئے ایک جگہ پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
ایک عرصہ سے ڈاکٹر حافظ کرناٹکی درس و تدریس سے منسلک ہونے کی وجہ سے بچوں کی نفسیات اور ان کے مزاج سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ بخوبی واقف ہیں کہ قوم و ملک کی ترقی کا انحصار بچوں پر ہے اور بچوں کی تعلیم و ترقی کا انحصار زبان و ادب میں مہارت حاصل کرنے میں اور اخلاق حسنہ کے اختیار کرنے میں ہے اسی لئے انہوں نے نو خیز نسلوں کی ، نگہہدا شت ، تعلیم و تربیت ، مقصدیت کو اپنی شاعریکا حصہ بنایا‘‘
( ماہنامہ شاعر گوشہ حافظ کرناٹکی ص۳۷)
حافظ کرناٹکی زود نویس ہیںانہوں نے اردو شاعری کی بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ وہ اپنے نت نئے خیالات سے شعر و ادب کے گلستان کو سیراب کرتے ہیں۔ چندشعر ملاحظہ فرما کیجئے۔
یاد ماضی مجھے ستاتی ہیں

یاد بچپن کی مجھے آتی ہے
اپنا بچپن نہیں ہوں میں بھولا

جھولتا رہتا تھا سدا جھولا
چھوٹے بچوں کو میں کھلاتا

چھیڑتا اور انہیں رلاتا
(بچپن
دیکھو بدلا ہوا زمانہ ہے

اب ہمیں کر کے کچھ دکھا نا ہے
کیا زمانہ ہے کیا حماقت ہے

بے وقوفوں کی اب حکومت ہے
چیز مہنگی ہے نوٹ جعلی ہے

اپنی ہر بات سچ سے خالی ہے
( نئے اوراق)
سچی بات ہمیشہ کہنا

اچھی صحبت میں تم رہنا
باتیں بھی ہیں ان کی سچی

نیکوں کی ہے صحبت اچھی
حافظ سے تم جیناظ سیکھو

بوئے گل تم بن کر مہکو
(اچھی صحبت)
اس بات میں شک نہیں کہ حافظ کرناٹکی علامہ اقبال سے کافی متاثر ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انہوں نے اقبال کی نظم پرندے کی فریاد سے متاثر ہو کر بچوں کی شاعری کی شروعات کی ۔ اس میں انہوں نے بچوں کے عادات و اطوار ،ان کے ماحول کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور بچوں کے ادب کا سنجیدگی سے مشاہدہ اور مطالہ کر کے انہی کی زبان بروئے کار لا ئی ہے ۔یہ زبان ان کو تخلیقی سطح پر بچوں سے ہم آہنگ کرتی ہے ۔چونکہ وہ بچوں کے ایک عمدہ شاعر ہیں ۔اس لئے انہوں نے بچوں کی سطح پر اتر کو ان کی ہی زبان میں تعلیمی اور اخلاقی نیز کھیل کود، اور سائینسی علوم سے وابستہ دلنشین نظمیں کہی ہیں ، ان میں بچوں کو طور طریقے سکھانے والی دلچسپ نظمیں بھی شامل ہیںجو یقینا بچوں کی نشو و نما کو فروغ دینے میں ممد ثابت ہو سکتی ہیں اور ان کی دماغی صلاحیت کی نشو و نما کرنے میں بھی فایدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں ۔ اردو کے معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی، حافظ کرناٹکی کی کاوشوں کی داد ان الفاظ میں دیتے ہیں؛۔
’’’آپ نے بچوں کے لئے مفید موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں جن میں بچوں کی نفسیات کا بھی پورا لحاظ رکھا ہے۔ بچوں کے لئے لکھنا زبان وادب کی سچی خدمت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اردو پڑھنے والی آئندہ نسل کی تربیت کا کام کررہے ہیں۔ میں بچوں کے لئے لکھنے والوں کی دل سے قدر کرتا ہوں اور انہیں ادب کی دوسری اصناف میں طبع آزمائی کرنے والوں پر ترجیح دیتا ہوں۔ اگر چہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے والوں کیوہ قدر نہیں کی جاتی ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں ‘‘
حافظ کرناٹکی نے بچوںکے لئے نظموں کے ساتھ ساتھ بہت سی کہانیاں اور مضامین لکھے ہیں جن سے اخلاقی و سائنسی ، درسی و کھیل کود اورذہنی و دماغی نشو و نما ہوتی ہے ۔ یہ کہانیاں نہ صرف بچوں کو فرحت و انبساط فراہم کرتی ہیں بلکہ ان کے دل و دماغ میں تازگی عطا کرتی ہے ۔ان کی نثری تصانیف میں سبھاش چندر بوس، نور جہاں، سب رنگ مضامین، چاچا نہرو، معماران وطن، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، صد رنگ مضامین ،علامہ اقبال، جنگ آزادی کا پہلا مجاہد، کون کرے انصاف وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ان میں سے کچھ کتابیں نسبتاً بڑے عمر کے بچوں کے لئے لکھی گئی ہیں۔ جو نہایت ہی مفید ، سبق آموز، اور قابل مطالعہ ہیں ۔ حافظ صاحب کی یہ تصانیف نہ صرف ہر عمر کے بچے شوق سے پڑھتے ہیں بلکہ ان سے گو نا گوں تجربات بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ان کی بعض نظمیں مختلف اسکولوں میں مارئینگ اسیمبلی میں پڑھی جاتی ہیں ۔ حافظ کرناٹکی اپنے دینی ، علمی و ادبی کارناموں کی وجہ سے بچوں میں بہت مقبول ہیں اور وہ بچوں میں حافظ جی کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ۔ وہ اس پر خود روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
’’ ہاں یہ درست ہے کہ میں نے حسب استطاعت، توفیق خداوندی ، بچوں کے لئے نظم و نثر میں کئی کتابیں پیش کی ہیں جنہیں لوگوںح نے اور بالخصوص بچوں نے پسند بھی کیا ہے مگر بچوں کے حافظ جی کے لقب سے آپ جیسے مشفق و مہربان لوگوں نے نوازا اور یاد کیا ہے۔ اس میں میری صلاحتوں سے زیادہ آپ جیسے نیک دل مشفقوں کی محبت کا دخل ہے‘‘
حافظ کرناٹکی کی نثری تصانیف میں پیارے نبی ایک اہم اور قابل مطالعہ تصنیف ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کتاب نہ صرف مذہبی تصنیف ہے بلکہ یہ تاریخی نوعیت کی تصنیف بھی ہے اور کافی اہمیت کی حامل ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے اسلام کے بانی نبی کریم صلی اللہ وسلم کی سیرت پاک بڑے آسان عام فہم اور سلجھے ہوئے انداز میں رقم کی ہے ۔ یہ کتا ب پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں اور پڑھنے والا دل ہی دل میںحضور کے دربار میں پہنچ کرسربہ سجود ہوجاتا ہے۔ حا فظ کرناٹکی کی یہ کتاب سیرت نگاری کی بہترین مثال ہے جس کو انہوں نے دلنشین انداز میں لکھا ہے ان کی ایک اور کتاب خلیفہء سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اسی نوعیت کی کتاب ہے۔ یہ دونوں تصانیف اسلامی ادب کی تاریخ میں سنگ میل کی حثیت رکھتی ہیں اور خاص طور پر بچوں کے ادب میں اضافہ کرتی ہیں حافظ کرناٹکی کی دیگر نثری تصانیف میں، سبھاش چندر بوس ، چاچا نہرو ،ملکہ ہندنور جہاں ،اور حضرت ٹیپو سلطان شہید تاریخی شخصیات سیریز کے تحت بڑی اہم اور معلومات افزا کتابیں ہیں جن کی اہمیت نہ صرف اردو ادب میں خاص اہمیت رکھتی ہیں بلکہ یہ کتابیں ہرمکتبہ فکر کے لوگوں کے لئے قابل مطالعہ ہیں
حافظ کرناٹکی کے درج بالا کتابوں کے مطالعے سے ان کی علم دوستی کے ساتھ ساتھ ان کی حب الوطنی ، انسان دوستی قومی ایکتا ، مساوات ، اور مذہبی رواداری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔
حافظ کر ناٹکی کی زبان نہایت ہی ملائم، صاف ستھری ، اور سلیس و سادہ ہے ۔ وہ کبھی کبھی محاورات کابھی استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلئے کو صاف اور سادہ الفاظ میں بیان کرنے کے قایل ہیں ۔ بچوں کے لئے لکھنے کے وقت وہ بچوں کی زبان کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اپنے انداز سے اپنی تحریروں کو ادبی چاشنی سے مزین کرتے ہیں اور بچوں سے دوستی کا حق نبھانے کا فرض انجام دیتے ہیں ۔ نہ صرف بچوں کے ساتھ بلکہ انہیں یتیموں ، مفلسوں ، بے سہاروں اور کمزور طبقہ کے لوگوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی ہے ۔ اور یہی کیا کم اہم ہے ۔
٭٭٭

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا