حافظ کرناٹکی : ادب اطفال کے ایفل ٹاور

0
0

خاکہ

منظور وقار گلبرگہ

9731428416

جنوبی ہند کے د وامجد ایک امجد حیدرآبادی دوسرے امجد حُسین حافظ کرناٹکی اپنی مخصوص رنگ و آہنگ کی شاعری کا جھنڈا جنوبی ہند پر لہرا چکے ہیں امجد حیدرآبادی اُردو رُبا عیات کے شہنشاہ تھے تو امجد حُسین حافظ کرناٹکی "ادب اطفال کے ایفل ٹاور”ہیں حافظ کرناٹکی ادب اطفال کے میدان میں اتنی محنت دلچسپی دلجوئی اور لگن کے ساتھ کاکم کیا ہے کہ اس کام کو دیکھ کر خود کام کی پیشانی پر پسینہ آگیا لیکن مجال ہے حافظ کرناٹکی کی پیشانی پرپسینہ تو کیاتھکن کی ایک لکیر تک اُبھر آئی ہو حافظ کرناٹکی کی قلمی خدمات خصوصاََ بچوں کے لئے تخلیق کردہ انکی قلمی کاوشوں کا اعتراف دُنیا بھر کے ادباء شعراء اور نقادان ادب تو کر چکے ہیں اعتراف کرنے والوں میں کشمیر کے جواں سال نقاد ادیب و صحافی غلام نبی کمار کا نام سر فہرست ہے انہوں نے اپنی ضخیم کتاب "قدیم و جدید ادبیات”میں حافظ کرناٹکی کی شاعری اور رباعیات کا دل کھول کر ہی نہیں جم کا اعتراف کیا ہے ملاحظہ فرمایئے مضمون کا ایک چھوٹا سااقتباس۔
"امجد حُسین حافظ کرناٹکی کو اکیسویں صدی میں ادب اطفال کا امام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا جنہوں نے بچوں کے لئے کم و بیش ستر (70) کے قریب کتابیں لکھی ہیں جس میں مختلف موضوعات مثلاََ غزل کہانی رباعی دوہے گیت و منقبت اور مضامین وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے ” (اقتباس ختم)
ہم کرناٹک میں رہتے ہیں کرناٹک کی ہو ا میں سانس لیتے ہیں کرناٹک کا پانی پیتے ہیں کرناٹک کا گانا گاتے ہیں اس کے باوجود ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ حافظ کرناٹکی بچوں کے لئے کتنی تصانیف لکھ چکے ہیں ہمار خیا ل تھا حافظ کرناٹکی تیس چالیس کتابوں کے مصنیف ہوں گے غلام نبی کمار کا مضمون ملاحظہ کیا تو ہمارے ہوش اُڑگئے کے ہم کتنی غفلت میں تھے حافظ کرناٹکی ستر کتابوں کے مصنیف بن گئے اور ہم غافل کے غافل رہے بقول علامہ کاروباری
"بڑے لوگوں کے کارناموں کو انکے شہروں اور گلیوں میں نہیں
محققین کے مقالوں اور مضامین میں تلاش کر و”
حافظ کرناٹکی کے قلمی کارناموں کا ثبوت انکی ستر کتابیں ہیں ۔ انکے لکھنے اور کتابوں کو زیور طباعت سے آراستہ کرنے کی برق رفتاری کو دیکھ کر ممکن ہے ہمارا یہ خاکہ مکمل ہونے تک انکی تصانیف کی تعداد 100 کے آکڑے کو پار کرگئی ہو گی۔
حافظ کرناٹکی قلمی ، تعلیمی ، علمی اور عملی میدان میںجو کارہائے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں اسکی شہرت کرناٹک کی سرحدوں کو پھلانگ کر عالمی سرحدوں کو چھو رہی ہے حالانکہ حافظ کرناٹکی یہ سوچ کر میدان ادب اور میدان عمل میں نہیں اترے تھے کہ شہرت اور مقبولیت انکے قدم چومے گی جو لوگ مضبوط ارادوں اور عزائم کے ساتھ عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں ایک دن کامیابی اور شہرت انکے قدم چوم ہی لیتی ہے حافظ کرناٹکی بچوں کے لئے تو لکھتے ہی ہیں یہ انکا خاص میدان ہے مگر بڑوں کے لئے بھی بڑی عمدہ شاعری کرتے ہیں غزل نظم اور رباعی کے فن میں بھی انہیں ایسی دسترس حاصل ہے آج کل انکا مقام کہنہ مشق شاعروں اور استاد شعراء میں ہونے لگا ہے انکی غزلیں نظمیں اور رباعیات ملک اور بیرونی ملک کے ادبی و نیم ادبی رسائل میںانکی تصانیف کے اشتہارات کے ساتھ چھپتی ہیں نہ صرف چھپتی ہیں داد وتحسین کے تحفے بھی بٹورتی ہیں ۔
حافظ کرناٹکی کو ہم نے دو تین بار کبھی دور سے تو کبھی قریب سے دیکھا ہے ان سے ہاتھ ملانے یا گلے ملنے کا موقع تا حال نہیں ملا ہم نے جب بھی انکے قریب جانا چاہا ان سے ہاتھ ملانا چاہا وہ اس وقت اتنے مصروف تھے اس سے پہلے کہ ہم ان سے ہاتھ ملاتے انکے آگے انکی کاراستادہ ہو جاتی اور وہ یہ جا وہ جا اور ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے غالباََ آج سے آٹھ دس برس پہلے انجمن ترقی اُردو گلبرگہ کی جانب سے منعقدہ ایک سمینار میں شرکت کے لئے حافظ کرناٹکی گلبرگہ تشریف لائے تھے حافظ کرناٹکی ڈائس پر تشریف فرما تھے اور ہم سامعین کی صف میں بیٹھے انکے چہرے مہرے اور سراپے کا جائزہ لے رہے تھے جب بھی ہم علم و ادب سے وابستہ کسی بڑی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہماری آنکھیں کیمرے کا کام کرنے لگتی ہیں حافظ کرناٹکی کا چہرہ اور سراپا ہمارے سامنے تھا۔
سفیدو سُرخ چہرہ سیاہ رنگ کی قدرے لمبی داڑھی چوڑا سینہ اونچا قد گھٹا ہو جسم ذہانت اور فراست کی غماز آنکھیں سر پر جناح کیپ سفید کُرتے پر گہرے رنگ کی جاکٹ آپ کو دیکھ کر کبھی مولانا آزاد کی یاد آئی تو کبھی مولانا محمد علی جوہر کی بہت زیادہ غور کیا تو انکے اندر سر سید اور انکی درس گاہ علی گڑھ یونیورسٹی کو پایا سر سید خاں کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ سرسید نے اپنے بعد کئی سر سیدوں کو پیدا کیا ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ اس یونیورسٹی نے کئی یونیورسٹیوں کوجنم دیا ہے سر سید کی ایک جھلک دیکھنا ہے تو حافظ کرناٹکی کو دیکھئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جھلک دیکھنا ہے تو شکاری پور (ضلع شموگہ) میں موجود انکی درس گاہوں کو دیکھئے انجمن اطفال ‘مدرسہ مدنیتہ العلوم’ مدرسہ زبیدہ البنات ، اسامہ اسکول ، زبیدہ پی۔یو کالج ان تعلیمی اداروں کے ناظم کوئی اور نہیں حافظ کرناٹکی ہیں ہم نے جن تعلیمی اداروں کا ذکر کیا ہے یہ تو پُرانی باتیں ہیں ممکن ہے ان تعلیمی اداروں میں مزید چند اسکول اور کالجوں کا اضافہ ہوا ہوگا۔ (حافظ کرناٹکی کی سیما ب صفت شخصیت کہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والی ہے) ہم لوگ اپنا ایک گھر نہیں سنبھال سکتے گھر کے ہزاروں مسائل گھر کے اندرآے دن مہا بھارت داد دیجئے حافظ کرناٹکی کے حوصلوں اور قوت ارادی کی اتنے سارے تعلیمی اداروں کو نہ صرف سنبھالتے ہیں ان اد اروں میں کام کرنے والے ملازمین کی روٹی روزی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں حافظ کرناٹکی کو ہم نے دوسری بار جولائی 2019ء میں کرناٹک اُردو اکاڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ جشن اُردو میں دیکھا تھا کرناٹک اُردو اکاڈمی بنگلور کے چیرمین مبین منور نے بنگلورکے امبیڈکر بھون میں دوروزہ جشن اُردو کا شاندارپیمانے پر انعقاد عمل میں لایاتھا جشن میں ریاست کرناٹک کے تقریباََ تمام شعراء ادباء او فنکار جمع تھے اس فنکشن کے دوران اُردو اکاڈمی کی جانب سے کوئی پچاس سے زائد ادباء شعراء کی تصانیف کو اکاڈمی نے زیور طباعت سے آراستہ کیا تھا اسی جشن اُردو میں پچاس سے زائد ادباء شعراء اور فنکاروں کو مختلف میدانوں میں انکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اکاڈمی ایوارڈ سے نوازگیا تھا وہ قلم کا اور فنکار جو ایوارڈز کے مستحق نہیں تھے یا کسی وجہہ سے انہیں ایوارڈ نہیں مل پایا تھا وہ لوگ اُردو اکاڈمی اور انکے چیرمین کے خلاف اخبارات میں مراسلے شائع کر رہے تھے جشن اُردوپروگرام کے دوران مبین منور نے حافظ کرناٹکی کو مخاطب کرنے کے لئے کہا تو حافظ کرناٹکی ڈائس پر پہنچ گئے مائیک سنبھالا اپنی پُرجوش ولولہ انگیز اور شعلہ بیان تقریر کے ذریعہ تنقید کرنے والوں کو ایسا دندان شکن جواب دیا کہ نام نہاد نقاد دان کے دانت کھٹے کر دئیے اگر انکا غصہ کچھ اور بڑھ جاتا تو ممکن ہے دانت ہی توڑ ڈالتے جہاں تک حافظ کرناٹکی کی تعلیمی قابلیت کا معاملہ ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اسکا ثبوت تین تین یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے چکے ہیں ۔ حافظ العلماء کورس کی ڈگری مدراس یونیورسٹی سے ادیب کامل فاضل کی ڈگری پنچاب یونیورسٹی سے ایم،۔اے کی ڈگری میسور یونیورسٹی سے آپ کو ایک دو نہیں پانچ پانچ زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اُردو زبان آپ کے لئے گھر کی مرغی دال برابر نہیں گھر کی بیٹی ہے۔ عربی زبان سے واقفیت قرآن مجید کے پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کا ذریعہ ہے۔فارسی زبان سے واقفیت مرزا غالب کی فارسی شاعری کوگھول کر پینا کنڑا زبان پر دسترس ریاستی زبان کا حق ادا کرنا ہے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے کی وجہہ انگریزوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرنے کی خواہش اکثر ادباء اور شعراء ایوارڈ حاصل کرنے کی خواہش دل میںدبائے پھرتے ہیں اس طرح کی خواہش ہونی بھی چاہیئے برسوں قلم گھسنے کاغذ کالے کرنے کا فائدہ کسی نہ کسی شکل میں تو سامنے آنا چا ہیئے بھلے ہی ایوارڈ کی شکل میں ایک مومنٹو شال اور پھولوں کا ہار ہی مل جائے اگر ریاستی اور مرکزی حکومت کا ایوارڈ ملتا ہے تو کیا کہینے ایوارڈ کے ساتھ نقد رقم بھی ہاتھ لگتی ہے ایوارڈ اپنے ہم عصر قلمکاروں پر رعب جھاڑنے کے کام آتا ہے تورقم قرض کے بوجھ کو کسی قدر کم کرنے کے کام آتی ہے بعض ادباء شعراء اور فنکاروں کا کام اتنا مستند اور معیاری ہوتا ہے کہ خُدا خود فنکاروں سے پوچھتا ہے بتاو تمہاری رضا کیا ہے حافظ کرناٹکی نے داد و تحسین شہرت اورایوارڈسے بے نیاز اپنے کام سے کام رکھا مطلب کام میں لگے رہے لہٰذا انہیں ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے پاپڑ بیلنے کی ضرورت پڑی اور نہ کاڑی ہلانے کی درجن بھرایوارڈزانکے گھر تک پہنچ گئے۔ چنانچہ حافظ کرناٹکی کو ایوارڈ دیکھا کہ انکے ہم عصر قلمکاروں پر رعب جمانے کی ضرورت بھی نہیں پڑی انکے کام اور کارنامے ہی انکے ہم عصروں کو مرعوب کرنے کے لئے کافی ہیں جہاں تک سرکاری ایوارڈ کے ساتھ ملنے والی رقم کا معاملہ ہے یہ رقم تو حافظ کرناٹکی کے لئے ہاتھی کے منھ میں زیرہ کے برابر ہے کیونکہ حافظ کرناٹکی مالی اعتبار سے ماشاء اللہ اتنے خوشحال ہیں دس بیس مستحق قلمکاروں کی نہ صرف مدد کر سکتے ہیں انہیں خوشحالی کی ہریالی پر چہل قدمی کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں حافظ کرناٹکی کرناٹک اُردو اکاڈمی بنگلور کے "ون مین چیرمین”رہ چکے ہیں آپ لفظ ون مین چیرمین پڑھ کر چونک گئے ہوں گے ہم جو آپ کی حیرانی کو دور کرتے ہیں غالباََ سال 2012ء میں کرناٹک اُردو اکاڈمی بنگلور کے چیرمین کے طور پر حافظ کرناٹکی کا انتخاب عمل میں آیاتو کسی نے آڑی ٹانگ اڑا دی مطلب عدالت سے حکم التواء (Stay) لے آیاحافظ کرناٹکی گھبرائے اور نہ پیچھے ہٹے اراکین اکاڈمی کے بغیر ہی بہ حثیت چیرمین اُردو اکاڈمی کئی کتابوں کی اشاعت عمل میں لائی کئی قلمکاروں شعراء اور فنکاروں کو اکاڈمی ایوارڈ سے نواز ا ریاستی اور کُل ہند سطح کے مشاعروں اور سیمیناروں کا انعقاد عمل میں لایا کئی بزرگ اور بیمار شعراء ادباء اور فنکاروں کی مالی امداد فراہم کی ۔حافظ کرناٹکی کو پتہ نہیں کیوں ادب اطفال سے دلہانہ محبت ہے سوتے ہیں تو ادب اطفال کا خواب دیکھتے ہیں جاگتے ہیں تو بچوں کی کتابیں ہاتھ میں ہوتی ہیں ادب اطفال سے انکی محبت کا یہ ثبوت کیا کم ہے کہ انہوں نے شکاری پور میں سال 2014ء میں "کرناٹک اُردو چلڈرنس اکاڈمی”کا قیام عمل میں لایا دیکھتے ہی دیکھتے اس اکاڈمی کی 20سے زائد شاخیں پورے ملک میں پھیل گئیں اس اکاڈمی کے تحت اب تک دس سے زائد سالانہ جشن شاندار پیمانے پر منعقد ہو چکے ہیں انکے اس کام سے متاثر ہو کر کرناٹک اُردو اکاڈمی بنگلور نے سال 2019ء میں انہیں ادب اطفال کا خصوصی اکاڈمی ایوارڈ سے نوازا حافظ کرناٹکی شعر و ادب کا ہی نہیں سیاسی ملی مذہبی تعلیمی اور تنظیمی شعور بھی رکھتے ہیں وہ بیک وقت بچوں کے ادیب بھی ہیں ملی قائد بھی سیاسی اور سماجی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت بھی انکی ہفت رنگ پہلو شخصیت میں شاید یہ پیغام پوشیدہ ہے ۔
ہم اپنے فکر و فن سے اس میں گل بوٹے کھلائیں گئے
زمین کچھ سخت ہے تو نا سمجھ بنجر سمجھتے ہیں

Manzoor Viqar
Yadulla Colony, Gulbarga 585 104 (Karnataka State)
Email : [email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا