جی ٹونٹی کے اسٹیج پر محمد بن سلمان ، جو بائیڈن اور نریندر مودی کا مصافحہ

0
0

 

 

 

 

عالمی سیاست میں ایک نیا اشارہ
فیصل عزیز عمری
استاد جامعہ امام ابن تیمیہ
دہلی میں ہونے والی جی 20 چوٹی کانفرنس میں شرکت کے بعد سے ہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے مختلف اقدامات کی وجہ سے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ جی 20 کی میزبانی انڈیا نے ضرور کی اور دنیا کی طاقتور ممالک کی قیادتیں بھی جمع ہوئیں مگر جو کوریج محمد بن سلمان کو ملا شاید ہی کسی کو ملا ہو ۔ یوں لگ رہا ہے جیسے جی 20 کا اصلا دلہا بن سلمان ہی تھے ۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین اور تجزیہ نگار مختلف پہلوؤں پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ہندوستان میں ان کے شاندار استقبال کا کوئی تذکرہ کر رہا ہے تو کوئی جی 20 کی کامیابی میں ان کے عظیم الشان کردار کا جائزہ پیش کر رہا ہے ۔ کوئی ان کی سحر آفریں شخصیت کا گن گا رہا ہے تو کوئی انہیں عالمی سیاست کو طے کرنے والا ہیرو بتا رہا ہے ۔ جی ٹونٹی کے اسٹیج پر وزیراعظم نریندر مودی نے ایک طرف ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی نشست رکھی تھی تو دوسری طرف جو بائیڈن کو بٹھایا تھا۔ محمد بن سلمان اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جب سٹیج پر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا تو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ان کا ہاتھ تھام لیا۔ تینوں رہنماؤں کی ایک ساتھ یہ تصویر سفارت کاری کی دنیا میں موضوع بحث بن چکی ہے اور اس کے کئی معنی نکالے جا رہے ہیں۔ کوئی اسے نئے عالمی اتحاد کی علامت سمجھ رہا ہے تو کوئی اسے سعودی عرب اور امریکہ کے بیچ بڑھتی دوریوں کا خاتمہ کے لئے مودی پلان کا حصہ بتا رہا ہے ۔ اس تصویر کو دیکھ کر ایک مسلم صحافی نے لکھا کہ وزیراعظم مودی ‘ ولی عہد محمد بن سلمان اور صدر جوبائیڈن میں زبردستی مصافحہ کرا رہے ہیں۔ دونوں کے مصافحہ کو وزیراعظم مودی نے زبردستی سے پکڑا ہوا ہے‘ اس تصویر میں صدر جوبائیڈن کا منہ صرف مودی کی طرف ہے۔ وہ گویا ولی عہد سے مصافحہ کرنے کے باوجود ان کی طرف بزرگانہ محبت و شفقت سے دیکھنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں جبکہ میرا محبوب ولی عہد اور معشوق سعودی ‘ مشرق وسطیٰ سیاست اور عالمی سیاست میں صدر جوبائیڈن سے کہیں بلند و بالا قدوقامت رکھتا نوجوان محمد بن سلمان فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا ہے۔ فوٹو گرافر نے باڈی لینگوئج کو محفوظ کرکے تاریخ مرتب کر دی ہے۔ عرب عزت نفس زندنہ باد۔
درحقیقت سعودی عرب کئی دہائیوں تک امریکہ کے قریب رہا لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں۔
پروفیسر فضل الرحمٰن صدیقی کہتے ہیں کہ ’ایک نئی قسم کا کثیر الجہتی عالمی نظام ابھر رہا ہے، جس میں سعودی عرب اپنی جگہ بنا رہا ہے اور وہ امریکہ سے ہٹ کر چین، روس، انڈیا کے علاوہ ایس سی او، برکس جیسی تنظیموں میں اثرورسوخ بنانے کی کوشش میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب نہیں چاہتا کہ دنیا اسے صرف تیل بیچنے یا مکہ اور مدینہ کی وجہ سے جانے۔ وہ عالمی برادری کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
رابندر سچدیو کا کہنا ہے کہ ’ایسی صورتحال میں سعودی عرب انڈیا کو ایک قابل اعتماد دوست کے طور پر دیکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک نیا ورلڈ میٹرکس بن رہا ہے۔ سعودی عرب اپنے لیے مختلف شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔ پہلے وہ صرف امریکہ کے ساتھ ہوتا تھا لیکن محمد بن سلمان کے آنے کے بعد حالات بدل رہے ہیں۔
بہت سارے لوگوں کی جانب سے یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ سعودی عرب جب امریکہ پر سے اپنا انحصار ختم کرے گا تو چین پر انحصار کرے گا مگر جی 20 کے بعد اس بات کی مکمل نفی ہوگئی ہے۔ اس سمٹ میں ہندوستان-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری بنانے کا اعلان کیا گیا۔ یہ نیا کوریڈور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا متبادل ہوگا۔ اگر سعودی عرب کو چین پر کلی انحصار کرنا ہوتا تو وہ ہر گز اس پروجیکٹ میں شامل نہیں ہوتے ۔ اس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب اب نئے عہد میں داخل ہوچکا ہے ۔وہ کسی پر انحصار نہیں کرے گا بلکہ برابری کی سطح پر تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے گا ۔ جو ایک نیا کثیر الجہتی عالمی نظام ابھر رہا ہے ،اس میں وہ کینگ میکر کی حیثیت سے ہوگا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا