بینام گیلانی
ساحر لدھیانوی ہندوستان کے ایک معروف و مقبول ترقی پسند شاعر واقعی گزرے ہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موصوف جس قدر ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے مشہور و مقبول رہے ہیں۔اسی قدر ایک فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے بھی ہر دلعزیز رہے۔اب چونکہ یہ ایک فلمی نغمہ نگار رہے۔فلموں میں وقت و ماحول کے تقاضے کے مطابق نغمہ بہت کم ہی ہوتا ہے۔بلکہ فلم کی کہانی اور مناظر کے لحاظ سے نغمہ نگاری کی جاتی ہے۔چنانچہ ان نغموں کو نہ وطن عزیز کے منظر ناموں کے مطابق خلق کیا جاتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی حالات و معاملات کے مطابق۔چنانچہ ان فلمی نغموں کو مبنی بر حقیقت نہیں کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ بیشتر فلمی کہانیاں فکشن یعنی خیالی ہی ہوتی ہیں۔ساحر کے ساتھ مزید ایک تضاد رہا ہے کہ فلموں میں بیشتر عشقیہ و رومانی نغمے ہوتے ہیں۔ساحر نہ صرف ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔بلکہ کئی مقام پر انقلابی شاعر بھی نظر آتے ہیں۔ایسے خالص احتجاجی شاعر کو گل و بلبل اور لب و رخسار کی شاعری کرنے کی دعوت دینا واقعی پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی جرائ ت و جوکھم کی داد دینی ہوگی۔۔چونکہ ساحر لدھیانوی ایک کامل شاعر واقعی گزرے ہیں اور آپ کی زاتی زندگی میں رومانی لمحے بھی آ چکے ہیں۔چنانچہ ان سے کامیاب رومانی شاعری کی توقع نہ کرنا حق بجانب نہیں ہوگا۔موصوف نے فلموں میں خوب خوب رومانی نغمے کہے۔یہ بھی ایک بلا تردید حقیقت ہے کہ آپ کے رومانی نغموں میں بھی کہیں نہ کہیں ترقی پسندی کا عنصر پایا جاتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ آپ فطری طور پر ترقی پسند شاعر ہی رہے ہیں۔وہ تو پیشہ ورانہ مجبوریوں کے باعث رومانی شاعری کر لیا کرتے تھے۔بہر کیف ساحر ایک شاعر رہے اور بہت ہی بلند قد شاعر رہے۔آپ کے افکار و خیالات مقتضائے حالات سے ہم آہنگ تھے ۔آپ جو بھی کہتے تھے وہ دل کی آواز ہوا کرتی تھی۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شاعر بھی ایک انسان ہی ہوا کرتا ہے۔اس کے افکار و خیالات ہر دور کے لئے موزوں ہوں یا ہر دور میں اس دور کے حقائق کے ترجمان و عکاس ہوں۔یہ ممکن نہیں ہے۔وقت تغیر پسند ہے۔حالات بھی کروٹیں بدلتے رہتے ہیں،واقعات و معاملات میں بھی تغیرات ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔چنانچہ کسی شاعر کی شاعری تمام ادوار کی نمائندہ شاعری ہو یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی کی بھی شاعری ہو۔وہ اپنے عہد کی نمائندہ ضرور ہوتی ہے۔چنانچہ معاصر عہد سے بہت قبل ساحر لدھیانوی نے ہند و پاک جنگ سے متاثر ہو کر ایک نظم "اے شریف انسانو”کہی تھی جس کے دو مصرعے یوں ہیں۔
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
اس میںں کوئی شبہ نہیں کہ جنگیں صرف تباہیاں ہی لاتی ہیں۔وہ انسانی ہوں یا اقتصادی۔اس جنگ میں سب سے زیادہ تباہ تعمیرات ہوتی ہیں۔لیکن یہ صدیوں سے مشاہدے میں آرہا ہے کہ صیہونیوں نے اسی بیت المقدس کے لئے کئی دفعہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کیں۔1948سے مسلسل مسلمانوں کو بیسبب قتل کر رہے ہیں۔اسی فلسطین کی سر زمین پر مسلمانوں کے آشیانوں کو منہدم کر کے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا اور ان آشیانوں کے حقیقی مالکان کو بیگھری و شہر بدری کو مجبور کر دیا۔یعنی مسلمانوں کی حربی کمزوری کا بہت بڑے پیمانے پر ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔یہ جبر و مظالم صیہونی قوتیں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے بل پر ڈھاتی رہی ہیں۔کیونکہ وہ صیہونیوں کے ساتھ اگر مسلمانان عالم ذرہ برابر بھی نمبرد آزما ہوتے ہیں تو وہ سارے میدان جنگ میں خود کود پڑتے ہیں۔نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کے حق میں صرف اور صرف اموات اور بربادیاں و تباہیاں ہی رہ جاتی ہیں۔متذکرہ بالا تمام حقائق مسلم لیکن کبھی کبھی جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔تب ہی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی دفعہ جنگ کرنا پڑی۔ایسی بھی جنگ کرنا پڑی جس میں آب صلعم بہ نفس نفیس شامل ہوئے۔ایسی جنگوں کو ہی غزوہ کہا جاتا ہے۔اب یہ قابل فہم امر ہے کہ ایسے نبی کو بھی میدان جنگ میں اترنا پڑا جو انتہائی نرم خو،نرم گو،،صابر و شاکر اور رحمتہ اللعالمین بن کر آئے۔ایسے انسان کو بھی میدان جنگ میں کیوں اترنا پڑا۔ظاہر سا امر ہے کہ معاملہ قوت تحمل سے تجاوز کر گیا اور جز جنگ کے کوئی چارہء کار نہیں بچا۔
آج جو فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ جاری ہے۔یہ بھی کچھ اسی نوع کی جنگ ہے۔ویسے ہی حالات سے پیدا شدہ جنگ ہے۔علامہ اقبال نے کبھی اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ کے تعلق سے یہ کہا تھا۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے اور نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں جلوہء یہود میںں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
یہاں سر محمد اقبال جنیوا اور لندن پیکٹ کا ذکر خیر جس تناظر میں کرتے نظر آتے ہیں اس سے ہر ذی علم و شعور انسان واقف ہے۔کیونکہ اس جنیوا و لندن پیکٹ کا مقصد ہی اہل مغرب کو تحفظ عطا کرنا تھا۔جس طرح آج یو این او کے ذریعہ اہل مغرب کے گناہوں کو چھپانے اور اہل مشرق خصوصاً اسلامی ممالک کو مجبور کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔۔اب جب عالمی پیمانے پر حقوق مسلمانان کا تحفظ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔اس لئے اب نہایت ضروری ہو گیا ہے کہ یو این او سے کھلے طور پر بغاوت کی راہ اختیار کی جائے۔جب فلسطینیوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کیا تو اس کا کوئی اثر نہ امریکہ پر ہوا نہ اہل مغرب پر اور نہ ہی یو این او پر۔اہل مغرب نے دو قومی فارمولے کو کبھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ حتیٰ البساط موخر کرنے کی سعی بلیغ فرمائی۔اس تاخیر میں بھی ایک گہری سازش پنہاں تھی۔وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ فلسطین ایک آزاد و خود مختار ملک قائم ہو۔انہیں یہ علم تھا کہ اسرائیل یعنی صیہونی عظیم اسرائیل کے قیام کے لئے یہ سارے ظالمانہ عمل انجام دے رہا ہے۔اگر آزاد و خود مختار فلسطین وجود پزیر ہوا تو صیہونیوں کا عظیم اسرائیل کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔یہی سبب ہے کہ صیہونی مکمل فلسطین پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔اہل مغرب کا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں کے تو اتنے ممالک ہیں۔یہودیوں کا کوئی خاص ملک نہیں ہے۔چنانچہ فلسطین یہودیوں کو دے دینا چاہئے۔یہاں ناچیز کو علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا
اس کا یہ معنی ہوا کہ اہل مغرب فلسطینی مسلمانوں کو اپنے وطن عزیز سے دست بردار کرا کے انہیں مہاجر کے طور پر کسی دوسرے ملک میں اقامت گزیں ہونے کا حکم صادر کر رہے ہیں۔اس طرح ان کی خوشیوں میں آگ لگا کر ان کے زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لینا چاہتے ہیں۔اس معاملے میں اہل مغرب اپنے زرخرید غلام اقوام متحدہ کو بھی استعمال کریں گے۔کیونکہ اقوام متحدہ کا وجود ہی اہل مغرب خصوصاً امریکہ کے ہر منصوبے کو عملی جامہ دلوانے کے لئے ہوا ہے۔فلسطین میں اتنے بیگناہ و معصومین کے قتال کے بعد امریکہ اور اہل مغرب کا درج بالا موقف کس قدر ظالمانہ اور شیطینت سے پر ہے اسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔اب جب ہجرت اور دربدری کی نوبت یا پھر شہادت کی نوبت آ جائے گی تو کمزور سے کمزور قوم بھی سینہ سپر ہوکر میدان جنگ میں مقابلے کو اتر جائیگی۔چنانچہ تمام اسلامی ممالک کو چاہئے کہ اس جاری جنگ کو فیصلہ کن جنگ میں تبدیل کر دیں۔بار بار کی قسطوں میں اموات سے بہتر ہے کہ اس دفعہ فیصلہ ہی ہو جائے۔کم از کم دو قومی نظریہ پر کامل طور پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔جو اسی اہل مغرب کی زرخرید تنظیم اقوام متحدہ سے بہت قبل ہی پاس ہو چکا ہے۔اسے اب حقیقی روپ دینے کا وقت آچکا ہے تاکہ ایک آزاد و خودمختار ملک فلسطین کے باشندے پر امن طور پر اپنی زندگی گزار سکیں۔حالانکہ اس کی قوی امید ہے کہ یہ سازشی یہود و نصارٰی اس کے باوجود نہیں مانیں گے اور اپنی سازشی حرکت کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھیں گے۔تاکہ وہ مکمل فلسطین کو ہڑپ سکیں۔اگر اس دفعہ بھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تو یہ صیہونی بعد میں بھی فلسطینیوں کو اسی طرح قتل کرتے رہیں گے۔انجام کار کچھ سالوں بعد خود بخود ارض فلسطین مسلمانوں سے خالی ہو جائے گی اور مسجد اقصیٰ کو منہدم کر کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنے کا صیہونیوں کا دیرینہ خواب تعبیر سے ہم کنار ہو جائیگا۔ابھی حالیہ دنوں میں یو این او کے جنرل سکریٹری گوٹریس نے بیان دیا ہے کہ حماس کا حملہ یک بیک عمل میں نہیں آیا ہے بلکہ فلسطینی 56 سالوں سے اسرائیل کی بربریت کے شکار ہو رہے تھے۔اس دفہ وہ بھی کمربستہ ہو گئے۔سننے میں تو یہ باتیں بڑی اچھی معلوم ہو رہی ہیں۔کتنے مسلمانان گوٹریس کی مدح سرائی کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔لیکن اس گوٹریس سے یہ استفسار کوئی کیوں نہیں کرتا ہے کہ اتنے خون خرابے کے بعد بات فہم میں آئی کہ حماس کا حملہ یوں ہی نہیں تھا۔اسی یو این او میں یہ قضیہ کئی دفعہ گیا ہے۔لیکن ہر دفعہ وہی ٹال مٹول والا رویہ جاری رہا۔ارض فلسطین پر مسلمانوں کے مکانات بارہا منہدم کئے گئے۔ان زمینوں کو خالی کرا کر صیہونیوں کی کالونی بنائی گء اور یو این او تماشائی بنا بیٹھا رہا۔اگر کبھی اس نے اس تعمیر نو پر انگشت نمائی کی تو صیہونیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا۔عین ویسے ہی جیسے امریکہ نے یو این او کے منع کرنے کے باجود عراق پر حملہ کر دیا تھا۔اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس یو این او کی یہود و نصارٰی کی نگاہ میں کیا قدر و قیمت ہے۔اگر امریکہ یا اسرائیل کے جیسا کسی مسلمان ملک نے کیا ہوتا تو اس پر کتنی پابندیاں عائد ہو چکی ہوتیں۔یا پھر یو این او کی فوج اس پر ٹوٹ پڑتی۔امریکہ یا اسرائیل نے مسلمانوں پر کیا کیا ستم نہیں ڈھائے لیکن کبھی کسی قسم کی پابندی ان پر عائد ہوئی۔اس دہرے کردار کا ذمہدار کون ہے۔یہ وہی یو این او ہے جس نے امریکہ کے اس الزام کو تسلیم کرتے ہوئے کہ عراق کے پاس ایسا کیمیکل بم ہے جس سے پوری دنیا ختم ہو سکتی ہے۔عراق پر نہ صرف بیشمار پابندیاں عائد کر دیں بلکہ زمانے نے وہ دن بھی دیکھا کہ اسی الزام کی بنیاد پر صدام حسین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہی حشر لبیا کے صدر کرنل قذافی کا بھی ہوا۔یعنی امریکہ کے اشارے پر قتل تک کروانے والی بین الاقوامی تنظیم کا نام ہے یو این او۔۔ابھی چونکہ ایران امریکہ کے مد مقابل سینہ سپر ہوکر کھڑا ہے تو اس پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔تا کہ وہ اقتصادی طور پر کمزور ہو۔چونکہ روس ،چین اور شمالی کوریا امریکہ مخالف ممالک ہیں تو وہ سب بھی کئی قسم کی پابندیاں جھیل رہے ہیں۔یہ سب امریکہ کی ایما پر اسی یو این او کے ذریعہ انجام دیا جا رہا ہے۔یو این او کی یہ کھلی دھاندلی زمانہ دہائیوں سے دیکھ رہا ہے اور تماشائی کی طرح خموشی سے دیکھنے کے علاؤہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ان حال میں وہ صلیبی قوتیں مزید ظالم و جابر ہو رہی ہیں۔اس لئے اب ان کی کمر ٹوٹنی ضروری ہے۔المختصر یہ کہ یہ جنگ جب بدقسمتی سے چھڑ ہی چکی ہے۔خون کا دریا بہ ہی رہا ہے۔مسلمانان عالم اب آزاد فلسطین کی بنیاد ڈال ہی دیں۔حالانکہ یقینی طور اس مسئلے کو اہل مغرب پھر یو این او کے توسط سے مؤخر کرنے کی کوشش کریں گے تا کہ یہ قضیہ ختم نہ ہو۔لیکن ہر حال میں مسلمانوں کو فلسطینی کی مکمل آزادی پر ہی مصر رہنا ہے۔ناچیز سمجھتا ہے کہ اس حصول میں ابھی مزید خون خرابہ ہونے کے امکانات غالب ہیں۔لیکن اس سے خوفزدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔لیکن جنگ کے مقاصد کو حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ورنہ یہ صلیبی جنگ کبھی نہیں بند ہوگی۔یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جائے گا۔
[email protected]