جنگل سے قبائلیوں کی بے دخلی کے حکم پر سپریم کورٹ کی روک

0
0

یواین آئی

نئی دہلیسپریم کورٹ نے ملک بھر کے قبائلیوں اور جنگل کے باشندوں کو جمعرات کے روز بڑی راحت دیتے ہوئے انہیں بے دخل کرنے کے اپنے سابقہ حکم پر فی الحال روک لگا دی۔جسٹس ارون کمار مشرا، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے 13 فروری کے اپنے حکم پر روک لگائی ہے ۔ اس سلسلے میں عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو پھٹکار بھی لگائی۔ اس معاملے کی آئندہ سماعت 10 جولائی کو ہوگی۔ عدالت عظمی نے اپنے حکم پر روک لگانے کا فیصلہ مرکزی حکومت کی جانب سے قبائلیوں کو جنگلوں سے ہٹانے کے حکم پر روک لگانے کے معاملے میں سماعت کے دوران دیا۔ دراصل مرکز اور گجرات حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے بدھ کے روز اس معاملے کا خاص طور سے ذکر کیا تھا، جس پر عدالت نے متعلقہ درخواست کی سماعت کے لئے آج کی تاریخ مقرر کی تھی۔واضح ر ہے کہ 13 فروری کو جسٹس مشرا، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس اندرا بنرجی کی بنچ نے 16 ریاستوں کے قریب 11.8 لاکھ قبائلیوں کے جنگل کی زمین پر قبضے کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے قوانین کے مطابق زمینیں خالی کرائیں۔ عدالت عظمی نے 16 ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو حکم جاری کر کے کہا تھا کہ وہ 24 جولائی سے پہلے حلف نامہ دائر کرکے بتائیں کہ انہوں نے مقررہ وقت میں زمینیں خالی کیوں نہیں کرائیں؟ ریاستوں کی جانب سے دائر حلف نامے کے مطابق، جنگل کے حقوق ایکٹ کے تحت قبائلیوں اور دیگر روایتی باشندوں کی طرف سے کئے گئے زمین کی ملکیت کے دعووں کو مختلف بنیادوں پر مسترد کر دیا گیا ہے ۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو اس کا ثبوت نہیں دے پائے کہ کم از کم تین نسلوں سے زمین ان کے قبضے میں تھی۔ یہ قانون 31 دسمبر 2005 سے پہلے کم از کم تین نسلوں تک جنگلاتی زمین پر رہنے والوں کو زمین کے حقوق دینے کا التزام فراہم کرتا ہے ۔ دعووں کی تحقیقات ضلع کلکٹر کی صدارت والی کمیٹی اور محکمہ جنگلات کے حکام کے ارکان کے ذریعہ کی جاتی ہے ۔ ان میں مدھیہ پردیش، کرناٹک اور اڈیشہ میں سب سے بڑی تعداد ہے ۔ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے ) حکومت کی طرف سے جنگل ایکٹ، 1927 کے تحت جنگل کے باشندوں کے ساتھ نا انصافی کو ختم کرنے کے لئے قانون بنایا گیا تھا جس میں نسلوں سے رہنے والے لوگوں کو جنگل کی زمین پر ‘تجاوز’ قرار د یا تھا۔ عدالت عظمی نے خاص طور پر 17 ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ان تمام معاملات میں جہاں زمین کی ملکیت کے دعوے مسترد کر دیئے گئے ہیں، انہیں 12 جولائی، 2019 تک بے دخل کیا جائے ۔ ایسے معاملات جن میں توثیق / نظر ثانی کی درخواستیں زیر التوا ہیں، ریاست کو چار ماہ کے اندر کارروائی مکمل کرنی چاہئے اور ایک رپورٹ پیش کرنی چاہئے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا