اُردو ،ڈوگری ،پنجابی ،سنسکرت ،ہندی ،فارسی ،عربی اور دیگر زبانوں کوختم کرنے کی انتظامیہ کی سازشیں عروج پر
لازوال ڈیسک
جموں جموں یونیورسٹی کے زیر انتظام کالجوں میں اردو ،ڈوگری ،پنجابی ،سنسکرت ،ہندی ،فارسی ،عربی اور دیگر زبانوں کو ختم کرنے کی انتظامیہ کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔2014 سے اب تک جہاں ہمارے ملک کے وزیراعظم زبانوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور ہمارے ملک ہندوستان کو وشو گرو بنانے کی دنیا بھر میں باتیں کرتے ہیں ایسے میں جموں یونیورسٹی اور محکمہ ہائر ایجوکیشن ان زبانوں کو ختم کرنے میں جی جان سے مکمل کوششیں کر رہے ہیں جس کا نقصان آنے والے وقت میں ہمارے سماج سے ان زبانوں کا لٹریچر کہانیوں اور داستانوں سے بھی غائب ہوکر رہ جائے گا جبکہ دوسری طرف کشمیر یونیورسٹی نے زبان کے تحفظ کیلئے سوشل سائنسز کے سبجیکٹس کے ساتھ زبانوں کو بھی جوڑا ہے جس سے زبانوں کی بقاکا راستہ ہموار نظر آتا ہے ۔جموں کے سبھی کالجو ںسے ایڈمیشن ڈیٹ ملنے سے ہی پتہ چلا ہے کہ اگر ایسا ہی حال رہا تو مستقبل میں سنسکرت، ڈوگری، اُردو،پنجابی ،فارسی،ہندی ، عربی، جیسے سبجیکٹ جموں کالجوں سے ختم ہو جائیں گے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ آرٹس سبجیکٹ میں سوشل سائنسز کے سبجیکٹس بھی رکھے جائیں تاکہ جب کوئی بچہ کالج داخلہ کے لیے آئے تو ان کو اچھا کمنبینیش مل سکے۔ انتظامیہ نے جان بوجھ کر ایسے کمنبینیش بنائے ہیں جس سے مادری زبانوں، جدید ہندوستانی زبانوں کے ساتھ ساتھ فارن لینگویجز میں نہ کے برابر داخلہ ہو رہا ہے۔ جس سے کھلے عام نئی تعلیمی پالیسی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جموں صوبہ کے تقریباً تمام کالجوں کے پروفیسران نے اپنے اپنے طور پر احتجاج بھی کیا ہے اور بہت حد تک جموں یونیورسٹی کے شعبہ جات کے صدور نے بھی مداخلت کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن انتظامیہ کے جوابات اور سست اقدامات سے ہزاروں طلبا کے مستقبل داو¿ پر لگا ہے جو مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو دیگر بہتر مضامین کمنبینیش میں نہ ملنے کی بنا پر وہ ہندی ، اردو ، فارسی ،ڈوگری ، سنسکرت اور عربی میں داخلہ نہیں لے پا رہے ہیں۔ لہٰذا جموں یونیورسٹی انتظامیہ اور محکمہ ہائر ایجوکیشن سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی دلچسپی دکھاتے ہوئے سبجیکٹ کمنبینیش پر نظر ثانی کریں اور تمام کالجوں کے پرنسپلوں کو یہ ہدایت جاری فرمائیں کہ وہ آرٹس کمنبینیش کے ساتھ سوشل سائنسز کو بھی شامل کریں۔چونکہ جن زبانوں کے پڑھنے والوں کی تعداد سو دو سو ہوا کرتی تھی اب ان میں بیس پچیس بھی غنیمت سمجھا جا رہا ہے۔