جموں و کشمیر کے بعد لداخ میں بھی بیلٹ بیکس کے ذریعے بی جے پی کا بیانیہ مسترد

0
0

ارشد چوہان

ملک میں بر سر اقتدار بی جے پی کا قومی و بین الاقوامی فورمز پر یہ دعویٰ رہا ہے کہ جموں و کشمیر کی عوام پانچ اگست دو ہزار انیس اور اسکے بعد جموں و کشمیر اور لداخ ہونے والی انتظامی و آئینی تبدیلیوں کے اسکے فیصلے سے خوش ہیں – یہ بات حقیقت نہیں ہے اور جموں و کشمیر کی عوام کے بعد لداخ کی عوام نے بھی بیلٹ بیکس کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے – جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور ریاست کو ڈی گریڈ کر کے دو یونین ٹریٹریز (یعنی مرکز کے زیر انتظام اکائیوں ) میں تقسیم کرنے کو چار سال مکمل ہو چکے ہیں – آیا جموں و کشمیر کی خصوصی حثیت بحال ہونی چاہئے یا نہیں، پانچ اگست کا مرکزی حکومت کا فیصلہ درست تھا یا غلط اس پر سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چود کی سر براہی میں پانچ رکنی بنچ نے سنوائی مکمل کر لی ہے جس پر فیصلہ آنا باقی ہے –
ایک طرف جہاں یہ کیس سپریم کورٹ آف انڈیا میں سب جوڈیس ہے وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت ان دونوں علاقوں کے متعلق قانون سازیوں کے ذریعے انتظامی تبدیلیوں میں مصروف ہے – ایک طرح سے دیکھا جائے تو لیفٹیننٹ گورنروں کے ذریعے ان چار سالوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ان دونوں اکائیوں میں سیاست کر رہی ہے – بھارتیہ جنتا پارٹی میدان میں اکیلے کھیل کر بھی لوگوں کے دل جیتنے میں بری طرح ناکام رہی ہے – چار اکتوبر کو لداخ میں، ‘لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل، کرگل’ کے انتخابات ہوئے جن میں بی جے پی کے بیانے عوام نے مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد پر بھروسہ کیا ہے – آٹھ اکتوبر بروز اتوار کو ووٹ گنے گئے – دو ہزار انیس میں علاقے کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد لداخ میں یہ پہلی انتخابی مشق تھی – اس سے پہلے بھی یہاں نیشنل کانفرنس ہی اکثریتی جماعت تھی – بی جے پی نے پچھلے انتخابات میں صرف ایک ہی نشست جیتی تھی – اس بار صرف ایک کا ہی اضافہ ہوا ہے –
کانگریس اور نیشنل کانفرنس ان انتخابات میں اتحادی ہیں – مختلف حلقوں میں نیشنل کانفرنس نے سترہ جبکہ انڈین نیشنل کانگریس نے کل 22 امیدوار میدان میں اتارے تھے – اب تک کے نتائج کے مطابق بیس حلقوں پر گنتی کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور ان میں نیشنل کانفرنس بارہ ، انڈین نیشنل کانگریس دس ، بی جے پی دو اور دو آزاد امیدوار کونسلرز کامیاب ہوئے ہیں – لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل، کرگل کا قیام سال 2003 میں مفتی محمد سعید کے دور میں ہوا – یہ کونسل کل 30 ممبران پر مشتمل ہوتی ہے جس میں 26 ممبران کو براہ راست لوگ منتخب کرتے ہیں، چار ممبران نامزد ہوتے ہیں – کسی بھی جماعت کو چیف ایگزیکٹو بنانے کے لئے چودہ ممبران درکار ہوتے ہیں –
انتخابات سے قبل لداخ الیکشن کمیشن نے نیشنل کانفرنس کے امیدواروں کو پارٹی کا انتخابی نشان آلاٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا – اس کو این سی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے امیدواروں کو پارٹی انتخابی نشان جو کہ ‘ہل’ ہے آلاٹ کرنے کا حکم دیا تھا –
ادھر انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سیکرٹری جے رام رمیش نے ان نیشنل کانفرنس – کانگریس اتحاد کی اس جیت کا سہرا راہل گاندھی کی کنیا کماری تا کشمیر اور لداخ ‘بھارت جوڑو یاترا’ کے سر باندھا دیا ہے –
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ایکس پر پوسٹ کرتے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کی جیت پر کہا کہ یہ انتخابات ان طاقتوں اور جماعتوں کے لئے واضح پیغام ہیں جنہوں نے جموں و کشمیر اور لداخ کو غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے سے عوام کی مرضی کے بغیر تقسیم کیا – بی جے پی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ راج بھون (گورنر ہاؤس) کے پیچھے چھپ کر غیر منتخب لوگوں کے ذریعے سیاست کرنا بند کرے اور جنتا کے فیصلے کو قبول کرے – جمہوریت تقاضا کرتی ہے کہ لوگوں کی آواز کو سنا اور عزت دی جائے – پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی قائد محبوبہ مفتی نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ کرگل میں سیکولر پارٹیوں کی جیت دیکھ کر خوشی ہوئی – طویل خاموشی کے بعد لداخ بھی بولا ہے –
نریندر مودی حکومت قوم کو یہ غلط بیانی کرتے آئی ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کی عوام حکومتی فیصلے سے خوش ہیں – بین الاقوامی فورمز پر بھی حکومت کا یہی مؤقف رہا ہے کہ وہاں سب اچھا ہے – اس سلسلے میں اکتوبر دو ہزار انیس میں بی جے پی نے یورپین یونین کے تئیس ہم خیال ممبران کا دورہ بھی کروایا جن پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی – ہم خیال ممبران کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا تھا جب ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمنٹ ممبران کو جموں و کشمیر جانے کی اجازت نہیں تھی –
اب جو بھی انتخابات ہو رہے ہیں ان میں عوام بی جے پی کے خلاف اپنا فیصلہ سنا رہے ہیں – عوام کے رد عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس جماعت کی جموں و کشمیر سے متعلق پالیسیوں سے قطعی خوش نہیں ہیں – ا س سے قبل جموں و کشمیر کی عوام نے بھی بیلٹ بیکس کے ذریعے بی جے پی کے بیانیے کو مسترد کیا تھا – جموں و کشمیر کے تمام بیس اضلاع میں دسمبر 2020 میں ضلعی لیول پنچائیتی الیکشنز (دسٹرکٹ ڈیولوپمنٹ کونسل) کرائے گئے تھے جن میں بھی بی جے پی کو گپکار آلائنس نامی اپوزیشن اتحاد سے شکست ہوئی تھی – بہت جدو جہد اور کھلا میدان ملنے کے باوجود بیس میں سے صرف پانچ اضلاع میں ہی اپنا ڈی ڈی سی چیئر پرسن بنا سکی تھی اور کل 280 میں سے 75 ہی سیٹیں جیت پائی تھی –
پانچ اگست دو ہزار انیس کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے آئین ہند میں جموں و کشمیر کو دی گئی نیم خود مختاری ختم کر دی تھی – اس تبدیلی کو چار سال مکمل ہو چکے ہیں – جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ دو ہزار انیس کے تحت جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو الگ الگ اکائیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا – خصوصی حثیت تبدیل کرنے سے ایک سال قبل ریاستی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی-جس ڈرامائی انداز میں ایک منتخب اسمبلی تحلیل کی گئی وہ آزاد انڈیا کی جمہوری تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر درج ہو چکا ہے – اسمبلی کیسے جان بوجھ کر توڑی گئی اور اسکے اغراض مقاصد کیا تھے یہ ایک الگ کتھا ہے – اسمبلی توڑنے سے پہلے یہاں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط سرکار تھی – محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ تھیں – انیس جون دو ہزار اٹھارہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسوقت کے نیشنل سیکریٹری رام مادھو نے اچانک پریس کانفرنس کر کے اعلان کیا بھارتیہ جنتا پارٹی جموں و کشمیر سے اپنی سرکار واپس لیتی ہے –
اس کے بعد ریاست میں چھ ماہ کے لئے گورنر راج نافذ کر دیا جاتا ہے – گورنر راج ختم ہونے ایک روز قبل جموں و کشمیر کی دو بڑی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے اختلافات پس پشت رکھ کر حکومت بنانے کے لئے گورنر ستیا پال کے آفس فیکس کرتی ہیں – وہاں سے کوئی جواب نہیں آتا اور یوں صدارتی راج نافذ ہو جاتا ہے – بعد میں گورنر مؤقف اپناتے ہیں کہ انکی فیکس مشین خراب تھی – آزاد انڈیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ جب کسی ریاست کو ڈی گریڈ کر کے مرکز کے زیر انتظام یونین ٹیریٹری میں بدل دیا ہو -جموں و کشمیر کی منتخب اسمبلی کو تحلیل ہوئے پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک اسمبلی کے انتخابات نہیں ہو سکے ہیں – اسکی ایک وجہ بی جے پی کو اپنی ہار کا ڈر بھی ہے – ٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا