محمدیوسف رحیم بیدری ، بیدر، کرناٹک۔ موبائل
:9141815923
۱۔جہدکار
وہ وقف بورڈ کی اراضی کو قابضین سے بچانا چاہتاتھا۔اراضی پرقبضہ کی تفصیلات جمع کرنے کیلئے مسلسل محنت کرتارہا پھر اچانک پتہ چلاکہ اس پر کالاجادو کردِیاگیاہے۔ وہ مسلسل بیمار رہنے لگا۔علاج معالجہ پر لاکھوں روپئے خرچ کرنے کے بعد وہ صحت مند ہوگیا۔ یہ چھ سات ماہ اس کی زندگی کے اہم ترین دن تھے، وہ موت وحیات کی کشمکش کے درمیان نئی زندگی حاصل کرچکاتھااور جب وہ پوری طرح صحت مندہوگیاتو اِس دفعہ نئی طاقت کے ساتھ اللہ کے لئے وقف کی گئی اراضی کو بچانے کے لئے صدفیصد مخلص ہوکراس نے قابضین پرمقدمہ دائر کردِیا۔
آج بھی اس کی جان خطرے میں ہے لیکن وہ موت سے بے پروا وقف اراضی کے قابضین کے خلاف لڑائی جاری رکھاہواہے۔
وہ کہاکرتاہے ’’میں تنہاضرور ہوں لیکن میرے ساتھ خدا ہے اور میں خداکیلئے وقف کی گئی اراضی کوقابضین سے بچانے لڑرہاہوں ۔ اگر مربھی گیاتو شہیدکہلاؤں گااور اگر مقدمہ جیت گیاتو یہ میرے لئے انتہائی سعادت اور مسرت کی بات ہوگی کہ رب العالمین نے اپنے لئے وقف کی گئی اراضی کو بچانے کامجھ سے کام لیا، مجھے یقین ہے میں یہ مقدمہ جیت جاؤں گا‘‘
سناہے کہ اس کے دشمن اس سے تنگ ہی نہیں ہیں ،بلکہ اس کانام سنتے ہی تھرتھر کانپتے ہیں، ان سے کھانا تک نہیں کھایاجاتا ۔ وقف اراضی کے قابضین کو لگتاہے کہ ان کے کالے کرتوت طشت ازبام ہوکر رہیں گے اور جیل کی سلاخیں ایک دِن اُن کامقدر ہوں گی۔
۲۔ کھڑا ہونا
مغرب کے رہنے والے ، زلفوں کے پیچ وخم کو سلجھانا ترک کئے زمانہ گزرا۔ آج وہ اپنی جیسی دیگر مخلوق کی ایجاد میں لگے ہیں ۔جبکہ مشرق ہے کہ زلفیں سنوارنے
کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے گوشت پوشت کے انسانوں کی بھیڑ کو خالص انسان بنانے پر مصر ہے۔ پسند اپنی اپنی ہے کہ کون کس طرف جائے گا،تمہیں مغرب کاسفر درپیش ہے یاتم مشرق کے ساتھ کھڑے ہو ؟
۳۔طالب علم کی موت
اسکول جانے سے لڑکا گھبراتاتھا۔ والدین اس پر ڈانٹ ڈپٹ کرتے اورپھر اسکول بھیج دیتے۔ اس زور زبردستی کے درمیان طالب علم بیمار رہنے لگا۔پھرایک دن وہ فوت بھی ہوگیا۔
والدین کی سمجھ ہی میں نہ آسکاکہ اُن کے لڑکے کی موت کس وجہ سے ہوئی۔ زندگی میں اتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ غور کرسکتے۔
۴۔غضبناکی
’’راشن گھوٹالہ ، فور جی اسکام، سڑک گھوٹالہ، شراب اسکام، اس طرح جانے کتنے گھوٹالوں اور اسکام میں وزیر اورمشیرگرفتار ہوگئے اور ہورہے ہیں ، لیکن یہ اسکول اور کالج والوں کی گرفتاری کب ہوگی ؟ ‘‘ دنیش کمار نے پوچھا۔
رتیش چوہان نے دنیش کمار سے سوال کیا’’اسکول والوں کی گرفتاری کیوں چاہتے ہو؟‘‘ دنیش کمار کوغصہ آگیا۔ اس نے غصہ سے رتیش چوہان کودیکھتے ہوئے کہا’’ کیاتم سمجھتے ہو، اسکول اور کالج والوں سے میری کوئی دشمنی ہے ؟‘‘
دنیش بولا ’’ تمہاری دشمنی نہیں ہوگی لیکن تمہارا پوچھنا مجھے ایسا لگا جیسے کوئی دشمنی ہو ‘‘
رتیش چوہان کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ اس نے کہا’’ لگتاہے ، تمہاری آزادی کے دن پورے ہوگئے ہیں ؟‘‘ دنیش نے تمسخر اڑانے والے انداز میں پوچھا’’وہ کیسے مہربان دوست ؟‘‘
چوہان نے کہا’’وہ ایسے کہ کچھ پوچھتے ہی تم گھبرارہاہے ۔ تمہیں کیا لگتاہے کہ اسکول اور کالج والوں پر گاج نہیں گرے گی؟‘‘
دنیش سمجھ چکاتھاکہ رتیش چوہان چھوڑے گانہیں ، اس نے اپنے موقف اور مزاج کونرم کرتے ہوئے ٹھنڈی سانس چھوڑتے ہوئے کہا’’گاج تو سبھی پر گرے گی ، کوئی بھی بچے گانہیں، بچے گاوہی جس کو اُوپر والا بچاناچاہے ، آج کل اُوپر والا سبھی پر غضبناک ہے ،اس کے علاوہ اور کیاکہاجاسکتاہے ؟‘‘
تصویر منسلک ہے