آج مکمل ہڑتال کی جائے: مشترکہ تجارتی اتحاد
حکومت ہندوستان ہمیں احتجاج پر مجبور نہ کرے: یاسین خان
کے این ایس
سرینگرمعروف تجارتی اتحاد ٹریڈرس اینڈ منوفیکچررس ایسو سی ایش ، فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور ٹرانسپورٹروںنے مرکزی حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے اور دفعہ 35Aکے ساتھ چھیڑ چھاڑکے خلاف آج کشمیر بند کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے حکومت ہندوستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 35Aکا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ریاست کی ساری آبادی ایک ہی صفحے پر ہے لہٰذا کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جس سے ریاست جموں وکشمیر کا امن درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہو۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق معروف تجارتی اتحادد ٹریڈرس اینڈ منوفیکچررس ایسو سی ایش ، فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور ٹرانسپورٹروںنے مرکزی حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی پر 5سال تک پابندی عائد کرنے اور دفعہ 35Aمیں تحریف کئے جانے کے خلاف آج منگلوار کو کشمیر بند کا اعلان کیا ہے۔تجارتی انجمنوں کے متشرکہ اتحاد کے چیرمین محمد یاسین خان نے سرینگر میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ریاست جموں وکشمیر کے حالات نے بہت خطرناک رخ اختیار کیا ہے جس کے نتیجے میں وادی کشمیر کی تاجر برادری اس نتیجے میں پہنچی ہے کہ وہ اپنا کاروبار چھوڑ کر بیرون ریاست مہاجرت کریں گے۔انہوں نے بتایا کہ روز بروز مسائل بڑھتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں تاجر وادی کشمیر کو چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ حکومت ہندوستان آئے روز ریاستی عوام کے لیے نت نئے مسائل و مشکلات پید اکررہی ہے چاہے وہ یہاں کی دینی و فلاحی جماعتوں پر پابندی عائد کرنا ہے یا ریاست کو خصوصی پوزیشن فراہم کرنے والی دفعہ 35Aہو۔ یاسین خان کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس کی غرض و غایت بس اتنی ہے کہ ہم دنیا کے لوگوں تک اپنی بے کسی و بے بسی کو پہنچائے۔انہیں بتائے کہ ہم کن حالات کا سامنا کررہے ہیں اور کس حال میں ہے۔انہوں نے بتایا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان نے یہاں کے دینی و فلاحی ادارے جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر اگلے 5برسوں تک پابندی عائد کی جو کہ ریاستی عوام کے لیے تشویش ناک معاملہ ہے۔یاسین خان نے بتایا کہ ہم جماعت اسلامی کو دعوتی ، سماجی، دینی و فلاحی نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ سال 2005کا تباہ کن زلزلہ ہو یا 2014کا تباہ کن سیلاب ، جماعت اسلامی نے مثالی کام انجام دے کر لوگوں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کی۔ انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے ادارے قانون کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کی فلاح و بازآبادکاری کے لیے تگ و دو میں جٹے ہوئے ہیں۔خان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے تحت بہت سارے فلاحی ادارے کام کررہے ہیں جہاں مسکینوں، محتاجوں ، یتیموں اور بیواﺅں کی کفالت انجام دی جاتی ہے اور اگر آپ آج ان اداروں پر ہاتھ ڈالتے ہیں توخدارا ہمیں بتایا جائے کہ ان اداروں کے تحت زیر کفالت لوگ کن کے دروازوں پر جائیں گے۔یاسین خان کا کہنا تھا کہ ہمیں اُمید تھی کہ موسم بہار آنے کے ساتھ ہی وادی کشمیر کی تجارت، سیاحت، صنعت، باغبانی جیسے شعبوں میں کام کی رفتار بڑھے گی لیکن حکومت ہندوستان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے یہاں امن قائم ہونے کے بجائے اُلٹے نتیجے نکلتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک طرف ہندوستان یہاں امن کو قائم کرنے کے لیے اقدامات کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے تاہم دوسری طرف ایسے دعوے سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تجارتی انجمنیں، سیول سوسائٹی اور ٹرانسپورٹر بھی امن کے خواہش مند ہے اور اگر ہندوستان یہاں امن چاہتا ہے توہم اس معاملے میں اُن کا ساتھ دینے کو تیار ہے تاہم حکومت ہندوستان کی طرف سے آئے روز اب ریاست کی خصوصی پوزیشن 35Aپر حملے ہورہے ہیں۔ حکومت ہندوستان کی طر ف سے ہر روز یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں ریاست کو خصوصی پوزیشن فراہم کرنے والی دفعہ35Aکو ختم کرنا ہے، لوگوں کو پکڑکر جیلوں میں ڈالنا ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں امن کا قیام کہاں سے ممکن ہے؟ انہوں نے حکومت ہندوستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 35Aکا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ریاست کی ساری آبادی ایک ہی صفحے پر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہندستان کو دفعہ 35Aاور 370کے ساتھ چھیڑ خوانی کا سلسلہ ترک کرنا چاہیے اور کہا کہ اگر اس کے ختم ہونے سے سب سے پہلے کسی کا نقصان ہے تو وہ جموی اور لداخی عوام ہے۔ یاسین خان نے بتایا کہ ہم نہیں چاہتے کہ یہاں امن و قانون کی صورتحال درہم برہم ہو لیکن جو لوگ پرامن انداز میں اپنی بات کو سامنے رکھنا چاہتے ہیں انہیں حکومت ہندوستان خوف وڈر کے ذریعے پشت بہ دیوار کرانا چاہتی ہے۔خان نے بتایا کہ ہماری معیشت اور تجارت پہلے سے ہی انتہائی حد تک متاثر ہوچکی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ اس میں مزید نقصان ہو لیکن حکومت ہندوستان ہمیں احتجاج کرنے پر مجبور کررہی ہے جس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں۔