جشنِ آزادی اور اپنا احتساب.

0
0

محمد خان مصباح الدین

ہندوستان نے آزادی کو تقریبا 76 سال مکمل کر لیے………!آزادی کتنا چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے پس پشت دامن دری کا افسانہ بڑا ہی کرب انگیز اورالم میں ڈوبا ہوا ہے،کتنی ہی لاشوں کو لانگنا پڑا،کتنے سروں کو پھانسی کے پھندوں،بندوق کی گولیوں اور توپوں کا نشانہ بننا پڑا،اور نہ جانے کتنے سپاہی کسی رہنماء کی قیادت میں لڑتے ہوئے گمنامی کے اندھیرے میں اس طرح غائب ہوئے کہ انہیں تاریخ کا کفن بھی نصیب نہیں ہوا،حقیقی محب وطن وہی تھے جنہوں نے شہرت اور نام سے پرے ملک کی آبرو و سالمیت اور نسلوں کی خوشگوار زندگی کے لیے ہر موڑ پر قیمتی جانوں کا نذرانہ لیے پیش پیش رہے اور اپنے لیے تاریخی زمین کی لالچ کبھی نہیں کی،مسلسل جہد اور جان ومال کی قربانی کے بعد آج ہی کے دن ہندوستانیوں کو راحت کی فضا میسر آئی,اسلاف نے آزادی کی فضا میں خوابوں کے نہ جانے کتنے ہی محل تعمیر کیے تھے،چشم تصور میں اپنے خوابوں کا محل،اسکا منظر،اسکی ہیئت ساری چیزیں سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے،شاید انہیں یقین تھا کہ اب انکی نسلیں غلامی کی زنجیروں سے نکل کر مکمل آزاد فضا میں سانس لیں گی اور اپنے مستقبل کو ہر روز کامیابی و ترقی کے منازل پر لاکر اپنے مٹے ہوئے نقوش کو زندہ کرکے دنیا کو اپنے کارناموں سے ایک مثال اور با اثر پیغام دینگی،لیکن افسوس ملک کی آزادی کے 76 سالوں بعد بھی ہندوستان کا ہر عام انسان ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے جو اسلاف نے کبھی دیکھے تھے،آزادی کا پروانہ ہاتھ آئے کتنے ہی مہ وسال گزر چکے،ہم جشن پہ جشن مناتے رہے مگر اب تک فیصلہ کن اثرات کا ثبوت دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا،یہ وقفہ ملک کی تعمیر وترقی کے لیے معمولی نہیں کیونکہ ہمارا پڑوسی ملک چین ہم سے دو سال بعد یعنی 1949ء کو آزاد ہوا مگر اس کی تعمیر وترقی کے آگے ہندوستان کیا دنیا کے بہت سے ممالک اس کے سامنے بونے ہیں،آزادی کے اس عرصے میں قوموں کی تاریخ بدلی گئی ہے،اس مسافت میں بچے بوڑھے،اور جوان عالمِ دگر کو پہونچ جاتے ہیں،لیکن ایک ملک اپنی ذرخیزی،اور استحکام کے باوجود اپنی ترقی اور اصل مقام کو پہونچنے سے قاصر ہے۔ آخر وہ عوامل کیا ہیں کہ آزادی کی فضا میں زندگی بسر کرنے والا عام ہندوستانی سر سے پاوں تک پسینہ بہا کر بھی شام کو ضرورت کی معمولی چیزیں خریدنے کے بعد اپنا ہاتھ مکمل خالی پاتا ہے،امیروں کے عیش وعشرت کا سامان مہیا کرنے والا مزدور آج بھی اپنی زندگی کا احتساب کرکے اپنے وجود اور اپنی ذات سے سوال کرتاہے کہ ان گزرے ہوئے ایام نے اب تک اسے کیوں نہیں اس لائق بنایا کہ اسے دو وقت کہ روٹی کے لیے سوچنا نہ پڑے،ایک حساس عام ہندوستانی ہر 15 اگست اور 26 جنوری کو کہیں نہ کہیں مجمع میں بیٹھ کر کرب والم میں ڈوبی آزادی کی سرگزشت سن کر اپنے اجداد کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور وہیں خود سے یہ سوال بھی کرتا ہے کہ آخر وہ آزادی ہے کہاں جو ہر 15اگست اور26 جنوری کو دہرائی جاتی ہے۔
"غلامی ایک ذلت تھی سراپا درد آزادی”
یوم آزادی کے اس خوبصورت موقعے پر آج پھر کہیں نہ کہیں کسی مجلس میں اپنے کانوں پر دبیز پردے ڈال کر ہمارا بیٹھنا ہوگا اس انتظار کے ساتھ کہ کب مٹھائیوں کا دور چلے اور ہم سارے احساس کو حلوائے شکر سمجھ کر پانی کےساتھ پی جائیں اور گھر جاکر ردائے غفلت تان کر لمبی نیند سو جائیں، وقتی طور پر وہ ساری باتیں ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہیں جو ہمیں سنائی جاتی ہیں،وہ سب کچھ لمحہ بھر کے لیے احساس بھی ہوتا ہے جو ہمارے چشم تصور کی نذر کیاجاتا ہے مگر چشم زدن میں سب ہوا ہوکر اڑ جاتے ہیں ،باقی ہمیں ذاتی طور پر فکر ونظر کی بصیرت سے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا،اس کا مطلب سوائے اس بات کے اور کچھ نہیں کہ جس غلامی کی چادر کو ہمارے اجداد نے لعنت سمجھ کر اپنے وجود سے اتار پھینکا تھا ہم نے دوبارہ اپنے احساسات کو کچل کر اسی غلامی کی چادر کو اپنے دامن سے مضبوطی کے ساتھ باندھ لیا ہے، ہم نےاس لعنت کو مجبورا اپنے سر نہیں اٹھا رکھا ہے بلکہ اسے فخر سمجھ کر عمدا اختیار کیا ہے۔
دوسری طرف ہمارا پڑوسی اور ہم سے دو برس چھوٹا ملک چین تعلیم وترقی میں ہم سے سو سال آگے ہے اور زندگی کی دوڑ میں دنیا کو اس قدر پیچھے چھوڑ چکا ہے کہ لوگ اس کے محتاج ہیں وہ دنیا کی نبض پکڑ کر لوگوں کی ضرورتوں کا ایسا سامان پیدا کرتا ہے کہ سب اس کے پیچھے بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں تمام ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے تعلقات بنانے پہ مجبور ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ عام لوگوں کی ضرورت بن چکا ہے،تجارت ومعیشت میں آج اس کا کوئی ثانی نہیں اور ہم اس کے سامنے دیگر ممالک کی طرح اس سے تجارت کرنے پہ مجبور ہیں کیونکہ ہم نے اپنے ملک میں ترقی کم تخریب زیادہ کی ہے یہی وجہ ہے کہ چین اپنی طاقت وقوت کے نشے میں ہماری سرحدوں کے ساتھ ہمیشہ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اس لیے کہ اسے پتہ ہے کہ ہم اس کے محتاج ہیں اور محتاج کسی کو آنکھ دکھانے کی ہمت نہیں رکھتا۔
ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے اس مٹی کی آبیاری کر کے ملک کو آزادی کا پروانہ بخشا تھا تاکہ ہم کھلی فضا میں سانس لے کر اپنے آپ کو ہر اعتبار سے مستحکم بنا سکیں اور ترقی کی راہ ہموار کر سکیں،لیکن ہم طوق سلاسل سے تو نکل گئے مگر آزادی ہمیں راس نہ آئی اور دوبارہ غلامی نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا اور اس بار ہماری عقلوں کو ہی محصور کرلیا گیا،آج اسے ہم اپنا مقدر سمجھ کر جیے جا رہے ہیں۔
کل تک ہماری لڑائی بندوقوں اور تلواروں کی فرنگیوں کے روبرو واضح لڑائی تھی لیکن آج ہماری جنگ فکری جنگ ہے،آستین میں چھپے ہوئے سانپوں سے جو اس ملک کی مٹی کو گندلا کرکے اسکا الزام ہماری بدقسمتی کے دامن پر لکھ دینا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے جس دن اس قوم میں احساس کا کانٹا چبھا یہ لوگ دوبارہ اس ملک کی تقدیر کے فیصل بن جائینگے جو انہیں کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہے،یہ ہمیں پست کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اپنانے کے لیے تیار ہیں جسکا تصور ہمارے احساس سے پرے ہے،اسی لیے ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ان 10 سالوں کی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ کھلے عام کیسا کیسا کھیل کھیلا جا رہا ہے،لو جہاد،موبلینچنگ،شہر بدر، مساجد پر ناجائز قبضہ،این۔آر۔سی۔این۔پی۔آر فرقہ وارانہ فسادات،بلڈوزر ،بے بنیاد ورادات اور چلتے پھرتے معصوم مسلمانوں کا قتل یہ دوہرا رویہ اور ظلم ہمیں خوف میں مبتلا کرنے اور ہمیں مجبور مقہور کرنے کے لیے ہے تاکہ ہم دوبارہ ابھر نہ سکیں لہذا ہمیں آج کے دن اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ آزادی سے لے کر اب تک ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے،کیا ہمیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ہندوستان کا آئین ہمارے لیے متعین کرتا ہے اگر نہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے حقوق کا علم ہونا بہت ضروری ہے،جسکے لیے محنت کی ضرورت ہے،مگر سب سے اہم بات یہ کہ بنا اتحاد کے کسی بھی طرح کا اثر و رسوخ نا ممکن ہے،اس کے لیے ہمیں تنگ نظری اور فرقہ پرستی سے نکل کر ایک ہی سائے تلے جمع ہونا پڑیگا ورنہ ساری باتیں سوائے فضول کے اور کچھ بھی نہیں۔
جو خواب آر ایس ایس نے آزادی سے قبل دیکھا تھا اسکے حصول اور اسکی تعبیر کے لیے انہوں نے بہت سی چالیں چلیں،جس میں وہ آج تک کامیاب صرف اس لیے ہیں کہ ہم نے اپنے مقاصد سے نظریں چرا رکھی ہیں،ہمیں خوبصورت باغ،اور سراب کا شکار بنایا گیا،برسوں تک حکومت کرنے کے باوجود آج ہم محکوم اسی لیے ہیں کہ ہمارے خیالات بدل چکے ہیں،ہم غلامانہ زندگی کے قائل اور عادی ہو چکے ہیں یہی وجہ کہ جنگ آزادی کے تماشائی آج ہم پر قابض ہیں اور ہم اس ملک کے لیے سب کچھ لٹا کر بھی انہیں اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں،کل جب ہماری آنکھ لگی تو دنیا اور تھی،نیند سے بیدار ہوئے تو دنیا اور ہے۔
راہ چلتے کسی نوجوان کو ایک گروہ اپنے گھیرے میں لیکر اسکا نام دریافت کرتا ہے اسے زدوکوب کرکے اسکا نام پوچھا جاتا ہے اگر وہ مسلم ہے تو اسی کی زبان سے قوم و مذہب اور اسکے خاندان کو مجبورا گالیاں دلوائی جاتی ہیں،جانوروں کے ایک تاجر کو راستے کے درمیان خون میں نہلا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے،معصوموں کے قاتلوں کی رہائی کے لیے صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے۔یہ کس طرح کے سماج میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں،کیسا ماحول،کیسی زہر آلود فضا بنا اس ہندوستان کی بنا دی گئی ہے کہ جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کبھی کہا تھا…!
"سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا”
جذبات کی آندھی میں بہہ کر جو لوگ غلط قدم اٹھاتے ہیں وہ منہ کی کھاتے ہیں اس لیے ہمیں ان خطرات کو متحد ہوکر ایک نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنےکی ضرورت ہے تاکہ اس پر فیصلہ کن کاروائی کی جا سکے،جو لوگ خوف و دہشت کا سایہ بنا کر فکری جنگ کرنا چاہتے ہیں انہیں انکی ہی چال سے مات دینی ہوگی،ایسی جنگ میں ہتھیار ہماری عقل ہے اسے کام میں لانا ہوگی،جذبات کی رو میں آکر کوئی بھی فیصلہ ہمیں ذلت وپستی میں ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ آزادی ہماری تاریخی،تہذیبی،سماجی اور معاشی اقدار کے تحفظ کا نام ہے،اس لیے جو قومیں ماضی اور حال کی روشنی میں احتساب کا فن جانتی ہیں وہ آزادی کی بقاء اور تحفط بھی خوب کر سکتی ہیں،تاریخ کو زمین کی تہوں میں دفن کرکے منزل کا حصول اور خوبصورت وپرسکون زندگی ناممکن ہے جسکی ہزاروں دلیلیں تاریخ کے دامن میں موجود ہیں جو ہماری عقل و بصیرت کو دعوت نطارہ دے رہی ہیں۔
ہمیں اپنا وقار محفوظ رکھنے کے لیے بذات خود محنت کرنی ہوگی۔
ملک میں برسوں سے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقعہ پر نمائش اور دکھاوے کے لیے خوب وعدے اور سچائی کے نعرے لگائے جاتے ہیں حالانکہ اس کے پس پردہ گول مال،خیانت،سازش اور غبن کا ماحول جاری ہے۔بچپن سے لے کر اب تک ملک کی تاریخ میں اپنے آباؤاجداد کے ایثار ومحبت اور انکی قربانی کا جو مقصد پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں اس کا نام ونشان بھلا دیا گیا یا اسے فضول سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اب تو بس نفرتی سیاست کے ذریعہ ملک کو نہیں بلکہ عوام کو بانٹنے کی مہم چل پڑی ہے۔اب تو جس طرف بھی نظر ڈالیے مندر ومسجد،ہندو مسلمان اور فرقہ وارانہ بازار گرم ہے۔یہ تشدد کی باتیں نہیں بلکہ اس ملک کی سچائی ہے،جس سے ہم بھاگ رہے ہیں،لیکن بھاگو کہاں تک بھاگ سکو گے جو قومیں غلامی سے بیدار ہونے میں جتنا وقت لگاتی ہیں انہیں اسکی دوہری قیمت چکانا پڑتی ہے،آج نفرت وعداوت لوگوں کی پسند ہے جسے ہم سب دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں شاید اسی لیے ہمارے اوپر مسلط لوگ یہی سب کچھ ہمیں دکھا رہے ہیں۔
ملک کی آزادی کے بعد سے اس ملک میں بھی نوجوانوں میں نئی امنگ اور جوش و خروش تھا کہ اعلی تعلیم کے ذریعہ ملک کے لیے بہت کچھ کرینگے لیکن جب باری آئی اپنے حوصلوں کو ملک پر نچھاور کرنے کی تو انہیں ہر چیز میں کھوٹ اور ملاوٹ کا سامان دکھائی دیا،پیار ،محبت،سلام دعا یہاں تک کہ فضاؤں میں ملاوٹ اسی لیے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور ماہرین اپنی قدر کھونا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو غیر ملکوں کے حوالے کردیا صرف اس لیے کہ انہیں دولت سے زیادہ عزت عزیز تھی جو انہیں اپنوں سے کبھی نہیں ملی۔
سیاسی تخریب،اور بیجا اصولوں کو کمزور انسانوں نے کبھی نہیں بدلا ہے بلکہ اس کے بدلنے والے طاقتور سمندری موجوں اور چٹانوں کے مانند وہ انسان تھے جنہوں نے کبھی بھی رات اور دن،نفع و نقصان کی پرواہ نہیں کی۔یہ جشن آزادی کی سنہری تاریخ ان لوگوں کی جد و جہد اور مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے جنہوں نے جلتے ہوئے آگ،تختۂ دار اور جیل کی سلاخوں کو قبول تو کرلیا مگر اپنے اصولوں کے ساتھ کبھی سمجھوتا نہیں کیا کیونکہ وہ آزادی اور غلامی کا فرق سمجھ چکے تھے،اسی لیے آنے والی نسلوں کو اس بدقسمتی سے نکالنے کے لیے آزاد فضا تیار کر رہے تھے،جفاکش وہ لوگ تھے،وہی حقیقی ہیرو اور ملک کے اصل خیرخواہ تھے ہم لوگ تو بس انکی قربانیوں کے ثمر کو گھر بیٹھ کر کھانے والے لوگ ہیں،ہم تو بس ان کی کارکردگی پہ فخر اور اپنی بے ہمتی کے سہارے سے پیٹ کے لیے دو نوالوں کا ایندھن اور غفلت کی نیند سونے کے لیے ایک چھٹ کا سایہ چاہتے ہیں۔ہمیں غلام بننا منظور ہے مگر اپنا احتساب کرنے کی فرصت نہیں،ہمیں غیروں کے رحم وکرم پہ ہتھیلیوں پر رینگنا قبول ہے مگر آزادی کا خواب دیکھنا منظور نہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا