جرات و بے با کی ختم ہو نہیں سکتی

0
0

 

 

 

 

 

 

محمد اعظم شاہد
جمہوریت میں ذرائع ابلاغ کو چوتھا ستون کہا اور مانا گیا ہے۔ اگر جمہوری نظام میں ابلاغ عامہ کے بنیادی حق آزادی اظہارِ خیال پر پابندی لگائی جائے تو یہ جمہوریت کے رہنما اُصولوں کے خلاف ہے۔ خلاف ورزی کی روایت اب گو یا معمول سی بنتی جارہی ہے۔ عوام کی رائے دہندگی کے توسط سے منتخب حکومت سے اپنی کار کردگی اور طریقہ کار سے متعلق سوال قائم کرنا اور حکومت کو جوابدہ رکھنا یہ صحافت کی اہم ذمہ داری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج ملک میں کئی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلس حکومت کے قدموں میں جاگرے ہیں۔ حکومت کی آواز میں آواز ملانے والا گودی میڈ یا صحافت کے رہنما غیر جانبدارانہ اصول سے آنکھیں بند کیے ہوئے اپنے خود غرض مفادات کے حصول میں مشغول ہے۔ حکومت اور سرمایہ کاروں کی ملی بھگت سے میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس طرح زرخرید اور اپنے منصبی فرائض سے عاری میڈیا عوام کے مسائل کی ترجمانی کرنے اور حقوق حاصل کرنے، ا ن کی(عوام کی )جدو جہد اور کسی بھی تحریک یا مزاحمت سے خود کو علیحدہ رکھتا ہے۔ حکومت جو جھوٹ سچ کے نام پر جاری کرتی ہے۔وہ اپنی زبان سے رٹنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے میڈیا سے نہ ملک کے مفاد میں اور نہ ہی ملک میں بسنے والے کروڑوں عام شہریوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے کوئی اُمید رکھی جاسکتی ہے۔ اب مین اسٹریم میڈیاMain stream Media کم و بیش حکومت کا غلام بن گیا ہے۔ ایسے میں متبادل میڈیا alternative media کا وجود تقریباً پندرہ بیس برسوں پہلے عمل میں آیا۔ یہ متبادل میڈیا ڈجیٹل پلاٹ فارمس پر حقائق پر مبنی اور غیر جانبدارانہ خبریں اور تبصرے پیش کرتا آرہا ہے۔ حکومت سے اس کی کارکردگی پر سوال کرنا اور بے خوف و خطر مدلل طور پر حکومت کو آئینہ دکھانا اور عوام کو حقائق کی روشنی میں حالات سے روبرو کرنا اس متبادل میڈیا کا اہم مقصد رہا ہے۔ ایسے میڈیا کو من مانی کرنے والی آمرانہ رویہ کی حکومت اور ریاستی حکومتیں اپنی آنکھ میں چبھنے وا لا کانٹااور راستہ کا پتھر سمجھتی ہے۔ اور اس پر اپنی کڑی نظر بنائے رکھتی ہے۔ حکومت موقع کی تاک میں رہتی ہے کہ سرکاری قوانین اور تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ ان پر لگام کسی جائے اور اس طرح اپنی اجارہ داری کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ مگر راز دارانہ طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی کرنے والے چند ڈیجیٹل نیوز پورٹلس اور چینلس نے کبھی بھی اپنے مشن سے پیچھے بنے اور سچائی عام کرنے کی اپنی کوششوں میں ہار نہیں مانی۔ مگر یہ موجودہ حالات کا المیہ ہے کہ میڈیا میں سچ کی آواز کو بے اثر اور ختم کرنے کی سازشیں رچی جاتی رہی ہیں۔
News Clickنیوز کلک بھی ایک غیر جانبدار اور ذمہ دار ڈیجیٹل نیوز پلاٹ فارم ہے،جو پرنٹ اور نیوز چینل کے ذریعہ بے لاگ صحافت کے اصول پر قائم ہے۔ وطن عزیز میں 2014 کے بعد سے صحافت میں آزادی اظہار خیال کا دائرہ تنگ کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ نیوز کلک پر دو سال قبل ہی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور دِلی پولیس کے معاشی جرائم کی شاخ کی جانب سے چھاپے مارے گئے۔ متعلقہ احباب سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ مگر غیر قانونی طور پر سرمایہ کے تبادلہ یا پھر کوئی اور خامی کا ثبوت مل نہ سکا۔ اب جبکہ نیو یارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق بیرونی ملک کے غیر قانونی سرمایہ کے باعث چین کا ہندوستان کے خلاف منصوبوں اور عزائم کا مذکورہ چینل پرچار کر رہا ہے۔ اس الزام کی آڑ میں ملک سے غداری کی جارہی ہے۔ سفاکانہ قانون یواے، پی اے (انسداد غیر قانونی کارکردگی قانون )کے تحت 3؍اکتوبر 2023 کو اس نیوز چینل کے دفاتر اور ملازمین کے گھروں پر چھاپے گئے۔ اہم ذمہ داروں کو دِلی پولیس نے گرفتار کیا،پوچھ تاچھ کی گئی۔ ساتھ میں اس چینل پر فری لانسر کے طور پر پروگرام پیش کرنے والے سابقہ اور موجودہ نامور صحافیوں سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ ان صحافیوں کے لیپ ٹاپ، موبائل فون، اور دیگر اشیائے ضروری تحقیقات کے لیے ضبط کر لیے گئے ہیں۔ سال 2009 میں نیوز کلک کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مشہور بزرگ صحافی پرا بیر پر کا یا ستہ اس کے بانی سربراہ رہے۔ اس ادارے میں ملازمین کی تعداد ایک سو سے بھی کم ہے۔ اور نیوز کلک کے سبسکرائبرس کی تعداد 70 ہزار کے آس پاس ہے۔ نیوز کلک نے دِلی میں ہوئے کسانوں کے احتجاج، دِلی کے فسادات سی اے اے اور این آرسی احتجاج اور دیگر عوام مخالف سرگرمیوں کو حقائق کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ ان متعلقہ صحافتی کاوشوں پر بھی تفتیش کی جارہی ہے۔ متحرک عوام پر ور نیوز ویب سائٹ اور نیوز چینل نیوز کلک پر دِلی پولیس کے چھاپوں سے اور صحافیوں کے ساتھ مجرموں کی طرح باز پرس کرنے کے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر ملک بھر میں روشن خیال اور فرض شناس صحافیوں اور حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے پر زور مذمت کے ساتھ احتجاج کیا گیا۔ کئی نامور صحافیوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شری چندرا چوڈ کو لکھا ہے کہ اس پورے معاملے میں انصاف عدلیہ مداخلت کرے۔ کیونکہ جو نیوز چینل ہندوستان میں کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کے مسائل پر حکومت سے سوال کیا کرتا ہے اور مسائل کی یکسوئی کے لیے توجہ مبذول کروا تا آرہا ہے۔ اس پر سنگین وطن دشمن الزامات عائد کرنا حکومت اور پولیس کی غیر منصفانہ اجارہ داری ہے۔ پریس کلب آف انڈیا، ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، دی نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا اور صحافیوں کی کئی انجمنوں نے ہر ریاست میں احتجاج کرتے یہ فکر جتاتی ہے کہ صحافیوں کو بغیر خوف کے آزادانہ ماحول میں اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی کا ماحول قائم رکھا جائے۔ ویسے ہندوستان پریس کی آزادی کے لحاظ سے عالمی سطح پر 180رینکنگس (معیار و مقام کارکردگی) میں 140 سے گرتے ہوئے 161ویں مقام پر آگیا ہے۔ جو لاؤس، فلپائن اور پاکستان جیسے ممالک سے بھی کم تر مقام ہے۔ عالمی سطح پر صحافیوں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں نہ کیا جائے اور نہ ہی ان پر بلا وجہ الزامات عائد کیے جائیں بلکہ آزادانہ طور پر انہیں اپنا فریضہ نبھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ نیوز کلک نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ کسی بھی طرح کی غیر قانونی کارروائی یا کسی بیرونی ممالک کی حمایت سے اس کا واسطہ نہیں ہے۔ فرض شناسی اور حقیقت بیانی پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ موجودہ جمہوریت کی جارحیت ہے جو ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔
[email protected] cell: 9986831786

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا