عالمی ادارہ صحت ،ڈبلیو ایچ او کے مطابق، ہر سال جذام کے تقریباً دو لاکھنئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن کی اکثریت بھارت، برازیل اور انڈونیشیا میں ہوتی ہے۔جبکہ جذام کا عالمی دن ہر سال جنوری کے آخری اتوار کو منایا جاتا ہے، جس کا مقصد جذام کے بارے میں بیداری پیدا کرنا، اس بیماری سے جڑے سماجی بدنما داغ کا مقابلہ کرنا اور حکومتوں اور تنظیموں پر زور دینا ہے کہ وہ اس کے خاتمے کیلئے کام کریں۔ جذام، جسے ہینسن کی بیماری بھی کہا جاتا ہے، ایک متعدی بیماری ہے جو بیکٹیریا مائکوبیکٹیریم لیپری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ قابل علاج ہونے اور صحت عامہ کیلئے خطرہ نہ ہونے کے باوجود، جذام دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔جبکہ جذام ایک دائمی بیماری ہے جو بنیادی طور پر جلد، پردیی اعصاب اور اوپری سانس کی نالی کی چپچپا جھلیوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ قدیم ترین معروف بیماریوں میں سے ایک ہے، اور اگرچہ اس کے کنٹرول میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، لیکن یہ دنیا کے بعض حصوں میں ایک مستقل چیلنج بنی ہوئی ہے۔وہیں وطن عزیر میں ہر سال کثیر تعداد میں جذام کے کیسز سامنے آتے ہیں ۔ جبکہ اس کے خاتمے کیلئے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں ۔ یوٹی جموںو کشمیر سمیت ملک کے کئی علاقوں میں گزشتہ ماہ کے آخری ایتوار کے دن عالمی یوم جذام منایا گیا ۔ اس موقع پر محکمہ صحت کی جانب سے کئی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں لوگوں کے اس بیماری کے تئیں بیداری اور خاتمے پر حساس بنایا گیا۔ لیکن یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ جذام کے خاتمے میں سب سے اہم رکاوٹوں میں سے ایک بیماری سے جڑی گہری جڑوں والا سماجی بدنما داغ ہے۔ تاریخی طور پر، جذام کا تعلق خوف، تنہائی اور امتیاز سے رہا ہے ۔جذام سے متاثرہ افراد کو اکثر سماجی اخراج، روزی روٹی کے نقصان، اور یہاں تک کہ اس بیماری کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے ان کے خاندانوں کی طرف سے ترک کرنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہیں جذام کا عالمی دن ان خرافات کو دور کرنے اور جذام سے متاثرہ افراد کیلئے شمولیت اور قبولیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ بیماری جس کے ہزاروں کیسیز سال بھر میں صرف ہندوستان میں رپورٹ ہوتے ہیں، اس کی طرف کتنی توجہ دی جاری ہے اور کس حد تک کنٹرول ہوا ہے وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ جبکہ سب سے بڑی ضرورت یہ کے اس بیماری کی وجہ سے جو سماجی امتیاز کیا جاتا ہے ۔ یا اس سے متاثرہ مریضوں کو بری نظر سے دیکھا جا تا ہے ، اس پر بھی توجہ دینا نہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ سماج کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور فلاحی اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سماجی امتیاز کے تئیں عوام الناس کو بیدار کریں تاکہ اس سے جڑے مریضوں کی بھی سماج میں عزت برقرار رہے ۔