جب تک ہم ضد نہیں چھوڑینگے،نہ ہدایت حاصل کر سکینگے اور نہ ہی امت میں اتحاد پیدا ہوگا۔

0
0

 

 

 

 

 

 

 

قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ، کمرہٹی، کولکاتا۔ ۵۸
موبائل: 6291697668

 

 

اگر دنیا کی قوموں کے درمیان یکجہتی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اہل اسلام میں اتحاد ویگانگت کی فضا نا پید ہورہی ہے ۔ مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے بجائے کفار سے اتحاد کررہے ہیں ، حالانکہ قرآن مجید میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ کفار کبھی اہل اسلام کے دوست نہیں ہوسکتے ۔
لہذا مسلمان کفار کے ساتھ دوستی کرکے ایک طرف احکام الہی کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں اور دوسری جانب کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں ۔ اس طرح مسلمانانِ عالم اپنی ہی زیاں کاری کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ عالم کفر تو چاہتا ہی یہی ہے کہ اہل اسلام آپس میں دست وگریباں ہوکر تباہی کے گڑھے میں دفن ہوجائیں۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم مختلف فرقوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں اور ہر فرقہ اپنے مسلک کو برحق گردانتا ہے۔ آج تک کبھی ہم نے حق کی تلاش کی پرُ خلوص کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی حق وصداقت کی تلاش میں باہم مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے مسلک کے واضح ترین دلائل کو بھی ہم سب ارادتاًتسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، کیوں؟ وہ اس لئے کہ جو تسلیم کریگا وہ شکست خوردہ کہلائیگا اور اسے ہار ماننا پڑیگی۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اختلافی مسائل پر کئے جانے والے مناظرے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے ۔ یاد رکھیں ! جب تک ہم ضد نہیں چھوڑینگے اوربغض و عناد ، حسد اور لالچ کو چھوڑ کر دین کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرینگے ، غیر مثبت فکر کہن پر اڑے رہینگے ، قرآن واحادیث کے مطالب ومعنی میں تحریف کرنا نہیں چھوڑینگے، حقائق کی تلاش کیلئے غیر جانبداری اور اعتدال پسندی کا مظاہرہ نہیں کرینگے اور صبر وتحمل سے دوسروں کی بات نہیں سنینگے اس وقت تک نہ تو صحیح معنوں میں ہدایت حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی امت میں اتحاد پیدا ہوگا ۔ ہم اختلاف بھی ایسے مسائل پر کرتے ہیں کہ جن پر امت کا اختلاف ہونا ہی نہیں چاہئے ۔ کبھی ہم نبی ﷺکی ذات مقدس سے متعلق اختلاف کرتے ہیں ، کبھی ہم عبادات کی ادائیگی کے طریق میں اختلاف کرتے ہیں ، ہم اپنے فروعی اختلافات میں اس قدر متعصب ہوجاتے ہیں کہ عقائد میں اختلاف کی بناپر اپنے کلمہ گو بھائیوں کو بلا جواز کافر قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ،اور آج کل کے یہ جاہل ، مفاد پرست اور مسلکی علما اپنی تقاریر وخطابات میں دیگر مسالک کی تحقیر وتذلیل کرنے اور فلاں فرقہ کافر ، فلاں فرقہ مشرک کی تشہیر کرنے کو نیکی سمجھتے ہیں۔ ایک مسلک سے تعلق رکھنے والا مسلمان دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھائیوں کی مساجد میں عبادت کرنا گناہ سمجھتا ہے ، حالانکہ مسجد کا تو کوئی مسلک نہیں ہوتا ، لیکن ان مسلکی مولویوں نے ملک کے نام پر اللہ کاگھر یعنی مسجد کو بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ ایک مسجد کا پیش امام دوسری مسجد سے تعلق رکھنے والے پیش امام کی اقتدامیں نماز نہ ہونے کا فتویٰ دیتا ہے ، ایک مسلک کا عالم دوسرے مسلک کے پیروکار کے ذبیحہ کو حرام قرار دیتا ہے ۔ الغرض مسلمانان عالم جن کو ایک جسم اور جان کی مانند ہونا چاہئے تھا اور عالم کفر سے نبرد آزماں ہونا تھا وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہوکر ایک طرف اپنی اجتماعی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں تو دوسرے جانب انفرادی قوت کو بھی تباہ وبرباد کررہے ہیں۔
آج کے مسلمان عقائد کے اختلافات کے ساتھ ساتھ سیاسی ، لثانی اور علاقائی تعصبات کا بھی شکار ہیں ، ان اختلافات میں باہمی منافرت ، تعصب اور تشدد کی فضا پیدا کردی ہے ، عالم کفر سے ہم کیا برسرِ پیکار ہونگے ہم تو آپس ہی میں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور تو اور دوسرے فقہی مسالک سے تعلق رکھنے والے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرنا بھی کارِ ثواب سمجھتے ہیں ۔وہ مسلمان جو کبھی دوسرے مسلمان کو کانٹا چبھنے کی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے آج اہل کفر کے ساتھ ملکر اہل اسلام کی تکالیف میں اضافہ کا باعث بنتے جارہے ہیں اور انہی کا سا طرزِ عمل اختیار کرنا باعث کامرانی سمجھتے ہیں۔ مقامِ افسوس وحیرت ہے کہ آج مسلک کے نام پر امت کے مختلف گروہوں کو آپ میں لڑایا جارہا ہے ، صرف اسلام دشمن عناصر ہی نہیں ہمارے علمائے سو بھی اپنے مفاد کی خاطر مسلمانوں کو مسلک کے نام پر آپس میں لڑاکر مسلمانوں کے وسائل اور توانائیاں ضائع کر کے انہیں ہمیشہ کیلئے دوسروں کو محتاج بنانے کی سازش پر عمل کررہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی سازشوں کو پہچانا جائے اور ان کے مذموم عزائم کو ناکام بنادیا جائے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے والے کون ہیں ؟کون سے ایسے عناصر ہیںجو ہمارے یکجہتی کے دشمن ہیں؟ ان اسلام دشمنوں کو تلاش کرنا مشکل نہیں ، ہم اگر خود کو متحد کرلیں تو دشمن خودبخود شکست کی دلدل میں جاگرینگے۔
قارئین حضرات ! ایسے دگرگو حالات میں اگر قرآن وحدیث سے رہنمائی حاصل نہ کی گئی تو ان مفاد پرست مولویوں کی چکر میں ہم اپنا تشخص کھوبیٹھینگے اور ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں کہ مصداق ہم آہستہ آہستہ ختم ہوجائینگے اب وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلمانانِ عالم میں جذبہ مواخات محمدﷺکو بیدار کیا جائے ، انفرادی طور پر ، اجتماعی طور پر ، ملکی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی اتحاد ویگانگت کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا جائے۔ انفرادی طور پر ہر شخص اپنے آپ کو متعدل مجازی کے ساتھ دوسرے شخص کی بات سننے کا عادی بنائے اور دوسروں کو برا کہنے کی بجائے صحت مند دلائل کے ساتھ اپنا موقف کو اجاگر کرے۔ دینی سطح پر ہماری تبلیغ کا یہ حال ہے کہ ہم نے آج تک صحیح معنوں میں دین کی کبھی تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ ہم سب تو گذشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے اپنے اپنے مسلک کی تبلیغ کرنے میں بھی سخت رویہ اختیار کرتے چلے آرہے ہیں اور ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچاہی نہیں کہ ہم اس طرح سے فرقوں میں بٹ کر عالم کفر کے عزائم پورے کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہورہے ہیں۔ ہم اللہ کے رسولﷺ کی فضیلت ومرتبہ کو بڑی شان سے بیان کرتے ہیں مگر اسلام اور صاحب اسلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں ہمارے اختلافات کی موجودگی سے دشمن بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اخیر میں میں علمائے حق سے گذارش کرونگا کہ ایسے موقعے پر امت کی رہنمائی کریں اور مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند بنانے کی تعمیری کوشش کریں تاکہ مسلمان ایک دوسرے کا درد محسوس کرسکیں ۔ علما ومفکرین کی ذمہ داری ہے کہ کمزوری ، سستی اور خاموشی کا لبادہ اتار کر عزم وہمت سے کام لیں، لگی لپٹی رکھے بغیر کلمۂ حق کہیں، اللہ کے دین کو غلوپسندوں کی تحریف ، جاہلوں کی تاویل اورباطل پرستوں کی کجی سے پاک کریں کیونکہ ہماری امت کو آج انتہائی نازک تاریخی مرحلہ در پیش ہے۔ تاریخ ان لوگوں کے نام ضرور محفوظ رکھے گی جنہیں امت اسلامیہ میں انتشار ،پھوٹ ڈالنے اور خالص اسلام کی تصویر مسخ کرنے کیلئے دشمن اپنے آلہ کار کے طور پر کررہے ہیں۔ امت کے نوجوانوں سے بھی التماس ہے کہ بیدار ہوجائیں، گمراہ کن اور بے مقصد نعروں اور تحریکوں کے دھوکے میں نہ آئیں، ان لوگوں سے بچیں جو ہمیں دھوکہ دے کر مسلکی کھائیوں اور جہنم کے گڑھوں میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں۔ ایسے گروہ کی حماقتوں سے ہمیں کیا حاصل جس نے دین کا لبادہ اوڑھا اور امت کو گمراہیت کی راہ پر لگادیے۔
میرے ملت کے نوجوانو!آخر میں نصیحت یہ ہے کہ کتاب وسنت کو لازم پکڑو اور صحیح فہم کے ساتھ ان پر عمل کرو، اگر کسی پیچیدہ نص کا سمجھنا تمہارے لئے دشوار ہو تو ایک طالب علم کی طرح اہل علم سے پوچھ لیا کرو کیونکہ امت مسلمہ کا وہی اتحاد مفید وپائیدار ہوگا کتاب وسنت پر عمل کے جذبے اور صحیح نیت سے ہو ، شرک وبدعت پر مسلمانوں کے متحد ہونے کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اسلام کو ایسے اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس نوعیت کے اتحاد سے اگر عارضی طور پر کوئی مقصد حاصل بھی ہوگا تو بعد میں امت کو اس سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑیگا۔لہذا امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنے آپسی نزاعات اور مسلکی وجماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد واتفاق کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا