جانوروں پر مبنی ملک میں جانوروں کے لیے ہی سہولیات کا فقدان

0
0

پرتیبھا
لنکرنسر، راجستھان

ہندوستان کو زراعت اور جانوروں پر مبنی ملک سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی دیہی علاقوں میں جانوروں کی بہت اہمیت ہے۔ خاص طور پر گائے، بیل اور بکری جیسے جانوروں کی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں گائے کا ایک خاص مقام ہے۔ اس سے نہ صرف دودھ ملتا ہے بلکہ اس کی عبادت بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں گائے کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کے لیے خاص جذبات رکھتے ہیں۔ ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں گایوں کے لیے پناہ گاہوں (گوشالہ)کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جہاں بیمار، لاچار اور آوارہ گایوں کی نہ صرف حفاظت کی جاتی ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کی جاتی ہے۔ راجستھان کے بیکانیر ضلع کے لنکرنسر بلاک کے دھانی بھوپالارام گاؤں میں بھی اسی طرح کا گاؤ شیلٹر بنایا گیا ہے۔ جہاں بیمار، لاچار اور آوارہ گایوں کی نہ صرف دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کی جاتی ہے۔ جہاں انہیں وقت پر چارہ اور پانی دیا جاتا ہے اور ان کے علاج معالجے کے بھی مکمل انتظامات کیے جاتے ہیں۔اس علاقے میں بہت سے بھاماشاہ (مددگار)ہیں جو ان گایوں کی خدمت میں مالی مدد کرتے ہیں۔ بہت سے مقامی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے گائے کی دیکھ بھال کے لیے ذاتی طور پر اپنی زمین پر گایوں کے لئے پناہ گاہوں کا انتظام کیا ہے۔ اس کے لیے ویٹرنری ڈاکٹروں کو بھی مستقل طور پر تعینات کیا جاتا ہے جو وقتاً فوقتاً ان بوڑھی اور بیمار گایوں کا علاج کرتے ہیں۔
آرتی شرما بھی ان میں سے ایک ہیں۔
جس نے گایوں کی خدمت کے لیے اپنی ذاتی زمین پر گائے کا شیڈ تعمیر کر رکھا ہے۔ یہاں گایوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ جن کے چارے کا انتظام کیا جاتاہے۔ ان کے لیے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بھی تعینات ہے جو وقتاً فوقتاً ان کا علاج کرتی ہے اور ضرورت کے مطابق ان کے لیے ادویات تیار کرتی ہے۔ آرتی شرما بتاتی ہیں کہ انہیں شروع سے ہی گائے بہت پسند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کے لیے اپنی ذاتی زمین وقف کردی ہے۔ جہاں گائے کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نہ صرف وہ بلکہ آس پاس کے علاقوں کے بچے بھی بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں اور گایوں کو روٹی یا دیگر چارہ کھلاتے ہیں۔
اسی طرح تقریباً 25 سال قبل سیتارام شرما نے گائے کی دیکھ بھال کے لیے ایک گوشالا بنایا تھا۔ جہاں گائے کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ سیتارام شرما کے بعد اب بھاگیرتھ شرما اس گائے کی پناہ گاہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس کاؤ شیڈ میں تقریباً تیرہ سو گائیں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے تین ڈاکٹر ہر وقت تعینات رہتے ہیں۔ اس گائے خانہ میں راجندر کمار، لال چند اور پربھو دیال جیسے نوکر ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے اس گوشالا میں رہ کر گایوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ جہاں پربھو دیال دس سال سے وہاں رہ رہے ہیں، وہیںلال چند پچھلے 22 سالوں سے اس گاؤ شیلٹر میں گایوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ لال چند کا کہنا ہے کہ انہیں گایوں کی خدمت کرنے میں بہت خوشی ہوتی ہے۔ اس گوشالا کی ساری گائیں انہیں پہچانتی ہیں ۔لال چند کے لیے بھی یہ ساری گائیں ان کے بچوں کی طرح ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان گائیوں پر ہر ماہ تقریباً 70 کنتل چارہ خرچ ہوتا ہے جس کی ماہانہ قیمت تیس لاکھ روپئے ہے۔ یعنی ایک دن میں تقریباً ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کاؤ شیلٹر میں 20 عملہ کام کرتا ہے۔ جو ان گائیوں کی دن رات خدمت کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس طرح گاؤں کے لوگوں کو پانی کی پریشانی کا سامنا ہے، اسی طرح اس کاؤ شیلٹر میں موجود گایوں کو بھی پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لیے روزانہ پانی کا ٹینکر منگوانا پڑتا ہے تاکہ گایوں کے لئے پانی کی کمی کو دور کیا جا سکے۔
لال چند نے بتایا کہ اس کاؤ شیلٹر میں کئی معذور اور شدید بیمار گائیں بھی رہتی ہیں۔ جن کے علاج کا مناسب انتظام کیا گیا ہے۔ گوشالا میں تقریباً 100 نابینا گائیں ہیں۔ جس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ملازمین کو 24 گھنٹے تعینات کیا جاتا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ کچھ گائیں ایسی ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لیکن گاؤں میں کوئی ویٹرنری اسپتال نہیں ہے، اس لیے انھیں ناگور کے ویٹرنری اسپتال لے جایا جاتا ہے۔ جس پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ مقامی لوگ اور نوجوان اس کاؤ شیڈ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ مقامی بچے یہ جگہ بہت پسند کرتے ہیں۔ اکثر بچے یہاں آتے ہیں اور گایوں کو چارہ کھلاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یہاں صرف گائے کا علاج کیا جاتا ہے ۔ فصل کی کٹائی کے بعد اس کی باقیات کو ان گایوں کے چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کسان بھوسے کو نہیں جلاتے اور اسے گائے کے شیڈ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس طرح جہاں ایک طرف ان بے سہارا اور بے آواز گائیوں کو چارہ فراہم ہو جاتا ہے تو وہیںدوسری طرف آلودگی کا مسئلہ بھی ختم کرتا ہے۔
بہرحال ان بے زبان جانوروں کے لئے جانے والے انتظام قابل تعریف ہے ۔لیکن جس طرح سے ان کی سہولیت کا فقدان ہے وہ تشویش کا بائس ہے۔اس جانب مقامی انتظامہ کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ریاستی حکومت کا محکمہ حیوانات کو بھی اہم قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میںجانوروں پر مبنی اس ملک میں گائے جیسے مقدس جانور کے لیے ہی سہولیات کا فقدان نہ ہو۔(چرخہ فیچرس)
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا