ڈاکٹر شکیل احمد خان، ڈائریکٹرٖ،فیکلٹی ڈیولپمینٹ سینٹر، متسیودری شکشن سنستھا، جالنہ۔8308219804
یونان کے عظیم تہذیبی مرکزاتھینس Athens کے مشہور تھیٹر میں ایک پروگرام میں شرکت کے لئے لوگوں کا ہجوم موجود ہے۔ گنجائش سے ذیادہ افراد کے مجموعے میں ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھنے کے لئے کسی جگہ کی تلاش میں سرگرداںہے۔نشستوں پر براجمان اس کے ہم وطن اتھینین اسے اور اس کے بڑھاپے کونظر انداز کر رہے ہیں۔لکڑی ٹیکتے ٹیکتے وہ اگلی نشستوں کی طرف جا نکلتا ہے جہاں غیر ملکی اسپارٹن مہمانوں کے لئے نشستوں کا انتظام کیا گیا ہے۔اس عام اتھینین باشندے کو دیکھ کر فوراً کئی اسپارٹن عہدیدار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اسے اپنی جگہ پر بیٹھنے کی درخواست کرتے ہیں۔اسپارٹنس کے اس احسن برتائو پر نہ صرف عمر رسیدہ شخص حیرت ذدہ رہ جاتا ہے بلکہ تمام لو گ متا ثر ہوتے ہیں۔ اتھینینس جو ابھی تک اپنے ہم وطن بوڑھے سے بے اعتنائی برت رہے تھے، اسپارٹنس کے خوش اخلاقی کے اس مظاہرے کی تعریف کرتے ہوئے تالیاں بجانے لگتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر ایک اسپارٹن جو جملہ ادا کرتا ہے وہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔یہ جملہ نہ صرف سارے اتھینین باشندوں کو آئینہ دکھاتا ہے بلکہ ان کے کردار کا یک سطری تجزیہ بھی ہوتا ہے۔وہ جملہ یوں ہے کہ ’’ These Athenians know what good behaviour is, but they don’t practice it ( یہ اتھینینس جانتے تو ہیں کہ اچھا رویہ کیا ہوتا ہے ، پر وہ اُس پر عمل نہیں کرتے)۔ مشہور رومن فلسفی Marcus Tullius Cicero نے اپنی کتابDe Senectute میں اس واقعہ کاذکر کرتے ہوئے بڑے معنی خیز نتائج اخذ کئے ہیں ۔ شاید اہل ایتھینز کے کردار کی اسی کمزوری کے باعث اسپارٹنس Peloponnesian War (431–404 BC) میں ایتھینز کو شکست دے سکے۔Athens کوئی معمولی سٹی اسٹیٹ نہیں تھا بلکہ قدیم یونان کا نہایت اہم علمی و تہذیبی مرکز تھا جہاں سقراط اور افلاطون جیسے جید عالم موجود رہے۔ اور جن کے ذریعہ اتھینس کے لوگ بہت کچھ ’’ جانتے ‘‘ تھے ۔ لیکن صرف جاننا کبھی بھی کافی نہیں رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عہدِ قدیم سے ’جاننے اور کرنے‘ میں تفاوت کی اسی کمزوری کے باعث کئی افراد و اقوام ناکام و نامراد ہوتی رہی ہیں۔ کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ آج ڈھائی ہزار سال بعد بھی یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ کیا آج بھی ایک ایسی عظیم قوم شکست و ریخت سے دوچار نہیں ہے جس میں جید عالم و دانشور پیدا ہوتے رہے جن کے ذریعے اٰس کے افراد بہت کچھ ’’ جانتے‘‘ رہے اور جانتے ہیں؟کسی بات کا معلوم ہونا ایک چیز ہے اور اُسے اپنانا
د وسری چیز۔ جیسے اہل ایتھینز یہ بات جانتے تو تھے کہ بزرگی کا احترام کیا جانا چاہئے، لیکن ان کا یہ جاننا صرف معلومات کی حد تک محدود تھا۔ عمل نہ ہونے کی صورت میں کسی چیز کا معلوم ہونا یانہ ہونا برابر ہوتا ہے۔علم اور عمل ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ تیر اگرعلم ہے تو تیر اندازی عمل، قلم اگر علم ہے تو لکھنا عمل۔ وہ تیر کس کام کا جو چلایا ہی نہ جائے؟وہ قلم کس کام کا جس سے کبھی لکھا ہی نہ جائے؟ وہ معلومات کس کام کی جس کا استعمال ہی نہ ہو؟ وہ جانکاری کس کام کی جس سے فائدہ ہی نہ اٹھایا جائے ؟ مرزا غالب بھی کہہ گئے
کہ ’’ فائدہ کیا سوچ آخرتُو بھی دانا ہے اسد‘‘۔ لیکن آج بر صغیرکے ممالک اور خصوصاً ملت کے افراد اسی کرائسس سے گزررہے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں شائد ہی کسی کو تامل ہو کہ آج ملت کے بیشترافراد کا حال اُن اہلِ ایتھینزکی طرح ہو چکا ہے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہThese Athenians know what good behaviour is, but they don’t practice it ” ۔عہد حاضر کو انفارمیشن ایج بھی کہا جا رہاہے۔ہر فرد پر ہر لمحہ ہر قسم کی معلومات کی بوچھار ہو رہی ہے۔ ہر نوعیت کی معلومات ایک کلک کی دوری پر موجود ہے۔ اچھے برے میں تمیز کر پانا اب چندا ں دشوار نہیں۔ ان معنی میں آج کوئی بھی شخص ، جس کے پاس موبائل فون موجود ہے بھولا، لاعلم اور معصوم نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجو د ہماری اکثریت کاحال یہ ہے کہ بقول میر تقی میر، ’’ پھرتے ہیں میر خوار ، کوئی پوچھتا نہیں‘‘ ۔ معلومات کی فراوانی کے باوجود ملت سیاسی بے وقعتی اور تہذیبی اضمحال کا شکار ہے۔ اسی لئے مشہور مصنف ڈیل کارنیگی کا تجزیہ صد فیصد درست محسوس ہوتا ہے کہ Our problem is not ignorance but inaction. یعنی ہمارا مسئلہ لاعلمی نہیں بلکہ لا عملی (بے عملی) ہے۔جاننا آج مسئلہ نہیں ،ہاں عمل ضرور مسئلہ ہے۔ یعنی کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے، یہ ہم جانتے تو ہیں پر اس لحاظ سے عمل نہیںکرتے ۔مثلاً آج ہر کوئی جانتا ہے کہ شکر کا استعمال نہایت مضیر ہے لیکن ہمارے محلوں میں فجر کے بعد سے تہجدتک چائے خانوں میں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ میدے سے بنی اور تلی ہوئی چیزیں بیماریوں کی جڑ قبض اور تیزابیت کا باعث ہوتی ہیں لیکن ہمارے محلوں میں ہر پانچویں دوکان بیکری اور چائنیز فوڈ کی ہوتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ ورزش ا ور مارننگ واک طویل و صحتمند زندگی کے لئے لازمی ہے پر ہماری بڑی آبادی رات دیر گئے تک جاگنے اور صبح دیر تک سونے کی عادی ہے۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ آدھی آدھی رات تک جاگ کر واٹس ایپ پر حفظانِ صحت اور طبِ نبوی کے ویڈیوذ دیکھے اور شئیر کیے جاتے ہیں۔علم اور عمل (جاننے اور کرنے) میں تفاوت کی اور کتنی مثالیں پیش کی جائیں۔جمعہ کے خطبوں کے باعث ہر کوئی اسلامی اخلاق اور اسوہ رسول سے واقف ہے لیکن اس کے بائوجو د ایسی کون سی اخلاقی خرابی ہے جس میں ہمارا معاشرا لتھڑا ہوا نہیں ہے ۔سب جانتے ہیں کہ رشوت لے کر غبی و ناخواندافراد کا اسکولوں میں تقر ر ہماری نسلوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے پرہمارے اکثر نمازی و حاجی مالکانِ مدرسہ اس رویہ کو بدلنے کا عمل نہیں کرتے۔اب تک ہر کسی نے اسلام میں عورتوں کے حقوق پر پچاسوں ویڈیوز دیکھ لیے ہونگے۔ پر آ ج بھی کمزور و مجبور والدین کی بیٹیاں سسرال میں ستائی و جلائی جا رہی ہیں۔وہیں عالمیت کا کورس کر چکی لڑکیوں نے بھی سسرال کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ملت کی ترقی کے لیے عصری و دینی تعلیم کی ضرورت اور علم کی اہمیت پر ہر کوئی دو چار حدیثیں سنا سکتا ہے لیکن کتابیں تو چھوڑیے اخبار تک خریدنے کی زحمت نہیں کرتا۔حالاں کہ ہر مسلمان جانتا ہے سورہ الصف کی دوسری آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ’’ایمان والو،تم و ہ
با ت کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟اللہ کے نزدیک بہت ناراضگی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں‘‘۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۲۷ میں فضول خرچ کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن شادی بیاہ اور تہواروںمیں اپنی استعداد اور قوم کی حالت کے لحاظ سے خرچ کرنے کا عمل ندارد ہے۔ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے احکامات کے ساتھ ا نہیں احسن طریقے سے (سلیقہ سے)انجام دینے کی بھی تلقین کی ہے۔لیکن ہماری ازدواجی اور گھریلوزندگیوں میں سلیقہ اور نظم و ضبط دور دور تک نظر نہیں آتا۔ نہ کسی مقصدکا تعین ہے نہ ہی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی آمدنی و خرچ کا بہی کھاتا۔ یعنی علم و عمل میں تال میل کا شدید فقدان ہو چکا ہے۔ اس طرح ہماری نئی نسلیں دو پانٹوں کے بیچ پسی جا رہی ہیں۔ ایک طرف غیروں کا سیاسی جبر اور مخالفت ہے تو دوسری طرف اپنوں کی بے حسی اور منافقت۔ اسی منافقت اور بے عملی نے ملت کو اندر سے کھوکھلا کر کے مخالفین کے لیے اسے لقمہ تر بنا دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ علم بھی کم اہم نہیں ہے۔ علم ہوگا تو کبھی عمل کی توفیق بھی ہوگی۔علم حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کرنا بھی ایک عملِ صالح ہے۔لیکن جس طرح صرف ایک طرف سے چھپی ہوئی نوٹ بازار میں نہیں چلتی، اسی طرح عمل سے جدا علم بھی دنیا و آخرت کے بازار میں کھوٹا سکہ ہی ثابت ہوگا ۔ عمل کے بغیر علم کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔عمل خواب اور حقیقت کے درمیان فاصلے کا نام ہے ۔آپ کیا جانتے ہیں اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا،ہاں آپ کیا کرتے ہیں اس سے دنیا کو بھی واسطہ ہے اور دنیا بنانے والے کو بھی۔یہ عمل کی دنیا ہے۔ یہاں عمل سے ہی ترقی ہے۔ وہ ممالک اور وہ قومیں ،جو بقول ہمارے صحیح دین نہیں جانتی، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں۔ کیوں؟ اپنے عمل اور رویہ کے باعث۔جاپانیوں کی اکثریت تو ملحد ہے۔ انھیں یہ حدیث تو نہیں معلوم کہ ’’ صفائی آدھا ایمان ہے‘‘۔ پر چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ وہاں سڑکوں پر تنکا تک نظر نہیں آتا، کوئی تھوکتا ہوا نظر نہیں آتا، سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کے لیے ڈبی جیب میں ساتھ لیے گھومتے ہیں۔امریکی عوام یہ تو نہیں جانتے کہ نبی نے کسی کا مال غلط طریقہ سے کھانے کو منع فرمایا ہے، پر وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔مذہبی وضع قطع بنا کر ایک پلاٹ چار چار لوگوں کو نہیں بیچتے۔راستوں پر انکروچمینٹ نہیں کرتے، وقت کی پابندی کرتے ہیں ، بدزبانی نہیں کرتے ، وعدہ خلافی نہیں کرتے، دھوکے سے خراب اشیاء نہیں بیچتے، ملازمت پوری ایماندازی اور ذمہ داری سے کرتے ہیں۔یعنی حرام مال نہیں کھاتے۔ اور ہماری اکثریت حلال و حرام کے بارے میں جاننے کے باوجود یہ سب کرتی ہے۔ ہم نے تو حرام کو صرف شراب پینے، سور کھانے اور غیر محرم سے جسمانی رشتہ تک محدود کر لیا ہے، باقی سب چلتا ہے۔ یہ تو ہوئے دنیاو ی تر قی کے معاملات، اور جہاں تک دنیا بنانے والے کا تعلق ہے تو بقول عادل سہیل(اردو محفل: اسلام میں عمل کی اہمیت)’‘ اللہ کی کتاب میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں ایمان لانے کا حکم ہو اوراس کے ساتھ ہی کام کرنے کا حکم نہ ہو‘‘۔ آج حالات ناگفتہ بہ ہیں، ان کا سامنا کرنے اندرونی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اور یہ علم کے ساتھ عمل کو جوڑنے سے ہی ممکن ہے۔ ملت کی کئی تنظیمیں اور کئی دردمند افرادایسا کر بھی رہے ہیں۔ اس کا اعتراف نہ کرنا بھی ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ملت کے جو لوگ ایسا کر رہے ہیں اللہ انھیں کامیابی اور عزت سے نواز بھی رہا ہے۔ہمارے باعمل نوجوان کلکٹر بن رہے ہیں، ایس پی بن رہے ہیں ، ججس بن رہے ہیں۔ہندوستان میںاسروکے سورج مشن کی سربراہ نگار شاجی ـ’’ یقیں محکم، عمل پیہم ‘‘ کی روشن مثال ہے۔بس ہماری اکثریت کو بھی عمل کی طرف زیادہ توجہ دینے کی اور اس رویہ سے پیچھا چھوڑانے کی ضرورت ہے کہ:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اد ھر نہیں آتی