جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زمین کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دینے کا فیصلہ غلط

0
0

مجلس عاملہ کا فیصلہ شکوک و شبہات کے گھیرے میں،تین اراکین نے فیصلے کی مخالفت کردی
یو این آئی

نئی دہلی؍؍ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مجلس عاملہ نے حال ہی میں بیش قیمتی آراضی کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دینے کا فیصلہ کیاہے جس پر شدید قسم کے شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ جب کہ صدر جمہوریہ کے نامزد کردہ تین اراکین مجلس عاملہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ذرائع کے مطابق سات رکنی مجلس عاملہ (ایگزیکیوٹو کونسل) میں سے چیر پرسن اور وائس چانسلر کے علاوہ چار ممبران نے ادارے کی زمین کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔اس کے برعکس مجلس عاملہ کے تین ممبران جو صدر جمہوریہ کے نامزد کردہ ہیں انہوں نے اسے غیر قانونی اور ادارے کے لیے بہت بڑے خسارے کا باعث قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی مجلس عاملہ کے اس فیصلے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ مجلس عاملہ کے جن ممبران نے جامعہ کی زمین کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دینے کی سفارش کی ہے ان میں خاص طور پر چیئر پرسن وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کے علاوہ فیکلٹی آف لاء کے ڈین پروفیسر اقبال حسین اور پروفیسر ابراہیم (ڈی ایس ڈبلیو) پیش پیش ہیں۔ اس فیصلے کی حمایت کرنے والوں میں فائن آرٹس کے ڈین پروفیسر مامون نعمانی اور سینیئر موسٹ اسسٹنٹ پروفیسر راجیش بھاگوت (ڈیپارٹمنٹ آف اپلائڈ سائنس اینڈ ہیومینٹیز) بھی شامل ہیں۔صدر جمہوریہ کے نامزد کردہ جن تین اراکین مجلس عاملہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے ان میں پروفیسر سنجے سریواستو وائس چانسلر سینٹرل یونیورسٹی آف موتیہاری، ڈاکٹر محمد ریحان اور پروفیسر ایس این داس شامل ہیں۔ ان اراکین مجلس عاملہ نے مذکورہ فیصلے کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اسے ادارے کے لیے عظیم خسارے کا باعث قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ذکیہ ظہیر زوجہ سید کاظم ظہیر کو بیش قیمت آراضی کا حق شفعہ دیا جانا سراسر غیر قانونی ہے۔ یہ حق جامعہ کا ہے۔ اس سے دست بردار ہونا ادارے کو شدید نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہ جامعہ جیسے مرکزی تعلیمی ادارے، یہاں کے طلبہ اور ساتھ ہی ملک کے عوام کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ پروفیسر سنجے سریواستو، ڈاکٹر محمد ریحان شکیل اور پروفیسر ایس این داس نے اپنے ‘نوٹ آف ڈیسنٹ’ میں واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ذکیہ ظہیر کو وراثت میں ملی آراضی کے ایک حصے کو جامعہ نے پہلے ہی خرید کر اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور وہ اس وقت جامعہ کے قبضے میں ہے، جس قطعہ آراضی کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کا حق شفعہ صرف جامعہ کے پاس ہے۔ جامعہ کے علاوہ اس زمین کو کوئی بھی فرد نہیں خرید سکتا ہے۔ اس لیے مجلس عاملہ نے اس کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ سراسرغیر قانونی ہے۔ مجلس عاملہ کے اس فیصلے کی سرکاری ایجنسی جانچ کرے اور اس کی تہ تک جانے کی کوشش کرے کہ وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کے علاوہ پروفیسر اقبال حسین، پروفیسر ابراہیم، پروفیسر مامون نعمانی ودیگر نے جو یہ فیصلہ کیا ہے اس کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ اس لیے کہ یہ زمین بے حد قیمتی ہے۔ اگر اس کا حق شفعہ جامعہ کی مجلس عاملہ ذکیہ ظہیر کو دے دیتی ہے تواس سے ادارے کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔واضح رہے کہ زکیہ ظہیر نے اپنی یہ زمین جس کا حق شفعہ جامعہ کے پاس ہے اسے فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور کسی تیسرے فرد کے ہاتھوں 17 کروڑ روپے میں وہ اسے فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ اسی مقصد سے انہوں نے جامعہ سے درخواست کی تھی کہ انہیں یہ حق شفعہ جامعہ دے دے اور جو حق جامعہ کا ہے اس سے وہ دستبردار ہو جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ادارے کے شدید خسارے کو مجلس عاملہ کے چار اراکین اور چیئر پرسن پروفیسر نجمہ اختر نے برداشت کرتے ہوئے اس کا فائدہ ایک فرد ذکیہ ظہیر کو پہنچا نے کا فیصلہ کیا ہے جس پر جامعہ برادری کو شدید حیرانی ہے اور بڑے پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق مجلس عاملہ نے جب یہ فیصلہ کیا تو جامعہ کے المنائی یعنی یہاں کے فارغین بے چین ہو کر یہ بیش قیمت زمین سرکل ریٹ پر جامعہ کو خرید کر دینا چاہتے ہیں، تاکہ ادارے کا خسارہ نہ ہو لیکن موجودہ وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر اور ان کے چار اراکین مجلس عاملہ بالخصوص پروفیسر اقبال حسین اور پروفیسر ابراہیم اس امر پر آمادہ ہیں کہ جامعہ کے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دے دیا جائے۔واضح رہے کہ 1952 میں کے جی سیدین نے جامعہ سے ایک زمین کا تبادلہ کیا تھا،جس کے عوض جامعہ نے انہیں دو بیگھہ اور 10 بسوا زمین مجلس عاملہ میں منظوری کے بعد تبادلے کے طور پراس شرط کے ساتھ دی تھی کہ اسے خریدنے کا اختیار صرف اور صرف جامعہ کے پاس ہوگا۔ تبادلے کے دستاویز میں صاف طور پر درج ہے کہ کے جی سیدین یا ان کے وارثین میں سے کوئی اس زمین کو نہ تو فروخت کر سکتے ہیں، نہ ہی کسی کو تبادلے پر دے سکتے ہیں، اس کا حق شفعہ یعنی اسے خریدنے کا حق صرف اور صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ہوگا، جب تک جامعہ تحریری طور پر اس حق شفعہ سے دستبردار نہ ہو جائے اس وقت تک وہ اسے نہ تو فروخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو تبادلے پر دے سکتے ہیں، اس کے باوجود جامعہ کی مجلس عاملہ نے چار اگست کو اپنی میٹنگ میں اسے فروخت کرنے کا اختیار کے جی سیدین کے ایک وارث ذکیہ ظہیر کو دینے کا فیصلہ کیا ہے جو سراسر غیر دانشمندانہ اور جامعہ کے لیے شدید خسارے کا باعث ہے۔اس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے صدر جمہوریہ کے نامزد کردہ تین معزز اراکین مجلس عاملہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کی جانچ ہونی چاہیے، تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے کہ آخر یہ فیصلہ کیوں یا گیا ہے۔ اس طرح یہ زمین پرائیویٹ بلڈروں اور زمین مافیا کے چنگل میں جانے سے بچ سکتی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ جب جامعہ کے الومنائی یہ زمین اپنی طرف سے خرید کر جامعہ کو دینا چاہتے ہیں تو موجودہ وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر اور پروفیسر اقبال حسین و دیگر اراکین مجلس عاملہ اس کا حق شفعہ ذکیہ ظہیر کو دینے پر کیوں بضد ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ ذاتی مفادات ہیں جن کا سامنے آناضروری ہے۔جامعہ برادری کا خیال ہے کہ اس طرح کی بہت سی چھوٹی چھوٹی زمین جامعہ کے پاس ہے۔ اگر ایک مرتبہ یہ فیصلہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں جامعہ کو بہت سی زمین سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، جس سے جامعہ کابہت بڑا نقصان ہوگا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا