تین مرحلوں کی پولنگ نے ہی لب و لہجہ بدل ڈالا!

0
0

 

 

جاوید جمال الدین

ملک میں تیستے مرحلے کے انتخابات کے بعد اہم اتحاد این ڈی اے اور انڈیا الائنس کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی پارٹیوں نے ایک دور پر الزامات لگانا تیز کرفیا ہے، جبکہ اس پورے معاملہ میں قومی الیکشن کمیشن سب سے زیادہ الزامات کے گھیرے میں نظرآتا ہے بلکہ کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور جانبداری کاالزام بھی لگایاجارہاہے۔اس درمیان اگر سو شل میڈیااور عوام کے بارے میں آزاد ذرائع کے سروے کاجائزہ لیاجائے تواس بار 400 پار کے نعرے کے باوجود بی جے پی پیچھے نظر آرہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اپنے دس سالہ’وکاس’کے دعووں کوبھْلا کردوسرے مرحلہ سے مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا ہیاوروہ ان کے خلاف ہاتھ دھوکرپیچھے پڑگئے ہیں۔انہوں نے اب تو بہکی بہکی باتیں کرنابھی شروع کردیاہے۔اس دوران راہل گاندھی ان کے سب سے پہلے نشانہ پر تو ہیں،دوسرے سنئیر لیڈروں کو بھی وہ بخش نہیں رہے ہیں۔
انہیں راہل کے بعد سب سے زیادہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی ) کے صدر شرد پوارکو ذلیل وخوار کیااور بھٹکتی اتما بھی کہہ دیاہے۔بلکہ تیسرے مرحلہ کے بعدجوخبریں باہر نکلی ہیں،تو چوتھے مرحلہ کی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اب بوکھلاہٹ میںاپوزیشن لیڈران کے ساتھ ساتھ اقلیتی فرقے کواپنی حالیہ تقاریرمیں نشانہ بنارہے ہیں اور اس کا حوالہ دیتے ہوئے شردپوارنے بڑی پتہ کی بات کہی ہے انہوں نیصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ’’ووٹنگ کے ان تین مرحلوں کے بعد وزیر اعظم مودی کا لہجہ بدل گیا ہے۔ مودی اپنی تقریروں میں مسلمانوں کا کھل کر ذکر کر رہے ہیں۔ ان کاانداز بالکل منفی ہے ،بلکہ مودی کا خیال ہے کہ فرقہ وارانہ خیالات کو سامنے لانے سے حالات بدل جائیں گے،لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کی پارٹی کے چندلیڈروں کو لگتا ہے کہ جیسے جیسے ووٹنگ کے مراحل مکمل ہو رہے ہیں، انہیں اپنی پوزیشن خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ دریں اثنا، شرد پوار نے اندازہ ظاہرکیاکہ مہاراشٹر میں لوک سبھا کیے کل 48 میں سے 35_30 سیٹوں پر مہا و کاس اگھاڑی (ایم وی اے) کی جیت درج کرنے کی امید ہے۔ان تین مراحل کی ووٹنگ سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں اور 4 جون کو جب لوک سبھا انتخابات کے نتائج جاری کئے جائیں گے تو یہ نظر بھی آجائے گا
۔عوام تبدیلی کی امید کر رہے ہیں اور رجحانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس، این سی پی ( شرد چندر پوار) اور شیو سینا ( یو بی ٹی) کوووٹروں کی بھاری حمایت حاصل ہوگی۔‘‘
انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں پر رکیک حملوں کے بعد چوطرفہ مذمت کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی اپنے اقلیت مخالف بیانات سے باز نہیں آرہے ہیں۔انہوں نے ایک بات پھر دعویٰ کیاہے کہ "اقلیت خطرے میں ہے” کا بیانیہ جھوٹا ہے اور اس کا پردہ فاش ہو گیا ہے اورجان بوجھ کر وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی طرف سے رپورٹ کو لیک کروادیاگیا،بلکہ عین انتخابات کے موقع پر شائع کرکے۔ (EAC-PM) کوجھوٹ کو اجاگر کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جو تاثر پیدا کیا گیا ہے وہ "غلط ثابت ہو رہا ہے۔”جس میں دعوی کیاگیاہے کہ "1950 اور 2015 کے درمیان ہندوستان میں ہندوؤں کی تعداد میں تقریباً 8 فیصد کمی آئی ہے، جب کہ اقلیتوں کی تعداد میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جو تاثر پیدا کیا گیا ہے وہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔ غلط بیانیہ کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔ ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے مودی نے منفی رخ اپنایا ہے اور کہاکہ اگر یہ حقیقت پر مبنی ہے تو ہندوستان میں اس اقلیت کی طرح کے تاثرات کو دبایا جا رہا ہے، ملک میں اقلیتوں کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھتی… یہ تمام بیانیے جو بنائے جا رہے ہیں، ہندوستان پر یہ تمام الزامات،غلط وبے بنیاد ہیں۔براہ کرم سچائی کو قبول کریں۔ اور اس داستان سے باہر آؤ،”اپنی باتوں اور دعووں کے درمیان مودی جی کہتے ہیں کہ "بھارت سروجن ہٹے، سرواجن سوگھائے، واسودیو کٹمبکم بھوانے کو لیکر چلنے والا دیش ہی” یعنی ہندوستان سب کی ضروریات اور فلاح و بہبود اور ‘واسودیو کٹمبکم’ کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے عہدہ کا کعئی بھرم نہیں رکھا ہے بلکہ سخت تبصرے کیاہے۔ EAC-PM رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان میں 1950 اور 2015 کے درمیان اکثریتی ہندو آبادی کا حصہ 7.82 فیصد کم ہوا (84.68 فیصد سے 78.06 فیصد) جبکہ مسلم آبادی کا حصہ۔ جو کہ 1950 میں 9.84 فیصد تھا، 2015 میں بڑھ کر 14.09 فیصد ہو گیا–
ان کے حصہ میں 43.15 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق، مسیحی آبادی کا حصہ 2.24 فیصد سے بڑھ کر 2.36 فیصد ہو گیا – جو کہ 1950 اور 2015 کے درمیان 5.38 فیصد کا اضافہ ہے۔سکھ آبادی کا حصہ 1950 میں 1.24 فیصد سے بڑھ کر 2015 میں 1.85 فیصد ہو گیا – ان کے حصے میں 6.58 فیصد اضافہ۔ یہاں تک کہ بدھ مت کی آبادی کا حصہ بھی 1950 میں 0.05 فیصد سے 0.81 فیصد تک نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ملک کے انتخابات کی مہم کے دوران فرقہ واریت کو بڑھاعا دینے والے مودی نے کہا، "ہمیں ہندوستان کو آگے لے جانا ہے۔ اور جو منتر میں اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں وہ ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس”۔ جب میں نے 2014 میں اپنا کام شروع کیا تو میں نے اس میں سب کا وشواس اور سب کا پریاس بھی شامل کیا۔
حکومت کی طرف سے کئے جانے والے کاموں میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے چاہے وہ ذات، جنس یا مذہب ہو۔”کی حالانکہ ان کے دعوے جھوٹ کاپلندہ ثابت ہورہے ہیں۔
اقلیتی فرقے کے خلاف زہر اگلنے کے بعد مودی کہہ رہے ہیں، میں نے نہ تو مسلمانوں کے خلاف بات کی ہے اور نہ ہی میں اسلام کے خلاف بول رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکولرازم کے نام پر ملک کو تباہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔جبکہ ان کاایک ایم پی انتخابی مہم میں کہتاہے کہ `ئین کے پہلے صحفہ سے بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد سیکولرزم لفظ ہٹادے گی،یوپی کے یوگی اور آسام کے سرماکے بیانات مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔امت شاہ ہروز مسلمان مسلمان کہتے پھر رہے ہیں۔دراصل ہم جوکچھ دیکھ رہے ہیں،وہ حقیقت ہے،سیک کالم نویس نے اس کااظہار کیاہے کہ "وزیراعظم مودی نے اپنے بنیادی کردار اورمبینہ گھٹیا پن کے بارے میں تمام ڈھونگیں بہا دی ہیں۔ سیاسی فائدے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ان کے حالیہ انتہائی جارحانہ بیانات نے ہندوؤں سمیت آبادی کے وسیع حصوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بدتمیزی صرف اس نظریے سے نہیں ہوتی جس سے وہ گریز کرتا ہے بلکہ خود انسان کے کردار سے ہوتا ہے۔مودی جی نے دھوکہ دہی، بربریت اور جرائم کی پیدائشی خامیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کی کمی کے ساتھ سب سے زیادہ زرخیز چیز فراہم کی اور جو اب ہمارے پاس موجود ہے یعنی شرانگیزی۔تاہم، جس چیز نے ان کی حالیہ انتہاپسندی کو جنم دیاہے، وہ محض ان کا کردار نہیں ہے۔ بلکہ، یہ ان کے کردار سے کارفرما خوف ہے۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک خوفزدہ، دنگ اور متحرک خرگوش ہے جو ایک شکاری کی طاقتور اسپاٹ لائٹ کی زد میں ہے جو کہ اس معاملے میں ووٹر اور انڈیا الائنس ہے۔وہ اسی بات سے خوف زدہ ہوکر بوکھلاہٹ میں بڑبڑارہاہے۔”
9867647741
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا