توبہ آدم ؑکی پہلی سنت  نافرمانی پر اڑے رہنا ابلیس کا عمل 

0
0
مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
حیدرآباد دکن۔ تلنگانہ اسٹیٹ
فون نمبر:  9849099228
ای میل:  [email protected]
توبہ کا عمل اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب کرتا ہے اور تکبر و نافرمانی اور ضد پر اڑ جانا خدا ئے تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا باعث ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ جب حضرت آدم کی تخلیق فرمائی اور سارے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں’سارے فرشتوں نے اللہ کے اس حکم کو بجالاتے ہوئے آدم کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کیونکہ اس نے تکبر میں مبتلا ہوکر اپنے کو آدم سے افضل جانا اس لئے کہ اللہ نے اسے آگ سے پیدا کیا تھا۔ اس معلون نے نہ دیکھا کہ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم کون دے رہا ہے بلکہ اسے اس بات کا غرہ تھا کہ میںآگ سے بنایاگیا ہوں اور آگ اوپر کی طرف اٹھتی ہے اور آدم مٹی سے بنائے گئے ہیں مٹی کو جب اوپر کی طرف چھوڑا جائے تو وہ زمین کی طرف آتی ہے، اس طرح یہ حکم خدا وندی میں اپنے کو نہ جھکا کر اللہ کا باغی بن گیا اور دربار الٰہی سے دھتکار دیا گیا اس کے بالمقابل حضرت آدم علیہ السلام کا عمل دیکھئے کہ جب اللہ نے حضرت آدم اور ان ہی سے پیدا کی گئی حضرت حوا کو جنت میں داخل فرمایا اور کہہ دیا گیا کہ تم دونوں یہاں مزے سے رہو اور خوب یاد رکھنا فلاں درخت کے قریب نہ جانا لیکن ابلیس نے پہلے ہی آدم کا دشمن بن چکا تھا،اس نے خیر خواہا انداز میں آدم اور حوا کے قریب ہوا جس درخت کے قریب اللہ تعالیٰ نے آدم کو جانے سے منع فرمادیا تھا،اس کے قریب جانے اور اس کا مزہ چکھنے کا مشورہ دیا چنانچہ وہ دونوں اس کی جال میں پھنس گئے جس کی گواہی قرآن اس طرح دیتا ہے۔
آخر کار شیطان نے ان دونو ں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا۔ (سورہ بقرہ آیت 36 )
اس کے بعد آدم علیہ السلام اپنے قصور پر نادم ہوئے اور اپنے رب سے رجوع کرلیا اور انہوں نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی اور ان کی یہ توبہ قبول ہوگئی کیونکہ اللہ تبارک تعالیٰ بڑا معاف کرے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
آدم اور حوا کی یہ ایسی بھول تھی،اب توبہ کے بغیر کوئی راستہ نہیں تھا اور اللہ نے ان پر واضح کردیا اور انہوںنے بھی اپنی غلطی پر فوری توجہ دی اور اس احساس و ندامت کے ساتھ یہ کلمات اپنی زبان پر لائے جس کا ذکر قرآن میں یوں آیا۔
’’اے رب،ہم نے اپنے اوپر ستم کیا،اب اگر تونے ہم سے در گذرنہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘۔ (ترجمانی آیت 23،سورہ الاعراف )
اس طرح اللہ تبارک نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور پھر اپنے منشا کے عین مطابق زمین پر اتار دیا اور ساتھ ساتھ یہ ارشاد فرمایا کہ ’’تمہارے لئے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامان زیست ہے اور فرمایا وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اوراسی میں سے تم کو آخر کار نکالا جائے گا‘‘ (ترجمانی سورہ الاعرف، آیت 25 )
اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان پھیلا دیئے اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے اور اللہ کی نافرمانی کرچکا تھا جس کی پاداش میں اسے دھتکار کر زمین پر اترنے کو کہا گیا تو اس وقت وہ جو کچھ اللہ سے کہا تھا۔
جس کا ذکر قرآن اس طرح کرتا ہے :
(ابلیس ) بولا،’’ مجھے اس دن تک مہلت دے جب کہ یہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے (اللہ نے )فرمایا ’’تجھے مہلت ہے ‘‘ (سورہ الاعراف آیا14 تا 15 )
جیسے ہی ابلیس کو مہلت مل گئی وہ اللہ سے کہنے لگا اب میں اس مہلت سے فائدہ اٹھاکر تیرے بندوں کو راہ حق سے ہٹاکر رکھ دونگا اور انہیں ہر طرف سے گھیر کر ان کی حالت ایسی کروں گا کہ تو ان میں سے اکثر کو شکر گذار نہ پائے گا۔ لیکن ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اولاد آدم پر اتنا احسان فرمایاکہ اگر انسان شیطان کی چکر میں آکر کوئی غلط کام کر بیٹھے تو توبہ کار دروازہ کھلا رکھا ہے او ریہ موت کا فرشتہ نظر آنے سے پہلے پہلے تک یہ موقع ہے کہ اس کے بندے اگر غلطی سے کبھی کچھ گناہ کر بیٹھیں تو وہ توبہ کے ذریعہ اپنے مالک و آقا کو راضی کرلیں تا کہ عذاب جہنم سے بچ جائیں۔
سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے کچھ اوصاف گِنوائے اور ان میں سب سے اول نمبر پر ’’التا ئبون ‘‘ جس کا تشریحی ترجمہ صاحب تفہیم القرآن نے یوں کیا ہے ’’اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے‘‘۔
اللہ تعالیٰ مومنوں کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے توبہ کو جو اولیت دی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ توبہ کرنا اپنے آپ کو اللہ کی طرف رجوع کرلینا اگر گناہ ہوجائے تو اس سے پلٹ کر اللہ کے حضور اپنی معافی کی درخواست پیش کردینا وغیرہ وغیرہ یہ اہل ایمان کی مستقل صفات میں سے ہے۔
سورۃ آل عمران میں مومنوں کے نیک اعمال کا ذکر فرماتے ہوئے ان کی توبہ کا بھی تذکرہ فرمایا گیا جس کی ترجمانی اس طرح ہے۔’’اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے۔ اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیسے پر اصرار نہیں کرتے۔ (آیت 135 کی ترجمانی)
توبہ کو کھیل بنانا خسران آخرت کا باعث ہیلہٰذ آدمی ہمیشہ سچی و پکی توبہ کرے اور اس بات کی پوری کوشیش کرے کہ نافرمانی اور گناہ کے کاموں کا اعادہ نہ ہو اور ایک اہم بات بھی اس سلسلہ کی ہمارے ذہنوں میںرہنی چاہئے کہ اگر کبھی کوئی گناہ ہوجائے تو فوری طور پر توبہ کی طرف ہمیں چل پڑنا چاہئے کیونکہ شیطان یہ تھپکیاں دیتا ہے کہ ’’میاں ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے بعد میں توبہ کرلو اس طرح کے دھوکے میں کبھی نہ آتے ہوئے اپنے مالک اور آقا کو فوری راضی کرلینا چاہئے کیونکہ آثار موت طاری ہوجانے کے بعد اس کا موقع نہیں رہتا۔ دوسری چیز یہ کہ اللہ سے جب بھی توبہ کی جائے خالص توبہ ہونی چاہئے،اپنے ہاتھوں سے گالوں پر مارلینایہ توبہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یوں ارشاد فرمایا کہ
’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،اللہ سے توبہ کرو خالص توبہ بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی‘‘۔ (سور ۃ الترحیم آیت 8 کے جز کی ترجمانی) آیت مبارکہ میں ’’توبۃ نصوحا‘‘کے الفاظ آتے ہیں۔
حضرت علامہ پیر محمد کرم شاہؒ اپنی تفسیر ضیا القرآن میں ’’توبۃ نصوحا‘‘ کے سلسلہ میں یوں تحریر فرمایا ہے: ’’آیت میںاہل ایمان کو ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر اس سے پہلے جہالت،کم فہمی یا بشری کمزوری کی وجہ سے تم سے غلطیاں سرزد رہی ہیں تو وقت ضائع نہ کرو۔ توبۃ نصوحا کی تشریح میں علماء  کے کم و بیش بائیس 22 تیئس 23 اقوال منقول ہیں جن سے چند پیش خدمت ہیں اور آپ کے لئے انہی میں کفایت ہے‘‘
’’پھٹے ہوئے کپڑے کو مرمت کرنا، چاکوں کو رفو کرنا،نصام الشوب کہلاتا ہے۔ اگر نصوحا کا یہ ماخذ ہو تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح گناہوں سے تم نے اپنے ایمان کا لباس تار تار کردیا ہے اور اپنے تقوی کے پیرہن میں چاک ڈال دیئے ہیں،اب ایسی توبہ کرو کہ وہ چاک رفو ہوجائیں اور ان کا کوئی نشان بھی باقی نہ رہے ‘‘
’’نصوحا کی اصل نصیحت ہے۔ اس وقت اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ایسی توبہ کرو کہ اس کے آثار تم میں نمایاں ہو جائیں۔ تم میں نمودار ہونے والی خوش آئند تبدیلی کو دیکھ کر دوسرے گناہ گار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور وہ بھی اپنی غفلت و عصیاں سے آلودہ زندگی کو ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں یہ تشریح لغوی معانی کے اعتبار سے ہے۔ اب زبان نبوت سے اس کا مفہوم سنیے۔
حضرت معاذ ابن جبلؓ نے عرض کیا رسول اللہ ’’ما التوبۃ النصوح ‘‘
اے جان عالم! توبہ نصوح کس کو کہتے ہیں۔ ارشاد فرمایا۔
یعنی جو گناہ بندے سے سرزد ہو اس پر نادم اور شرمسار ہوبارگاہ الٰہی میں معذرت طلب کرے۔ جس طرح دودھ کھیری میںدوبارہ داخل نہیں ہوسکتا پھر اس سے یہ گناہ صادر نہ ہو۔ (ضیا القرآن جلد 5 صفحہ 302تا 303)
حضرت مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒ نے توبۃ النصوح کی شرعی تشریح کو پیش کرتے ہوے رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حوالے سے یوں تحریر فرمایا :’’رہا اس کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زر بن حبیش کے واسطے سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اْبی بن کعبؓ سے توبہ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہو ںنے کہا میں نے رسول اللہﷺ سے یہی سوال کیا تھا۔ آپ نے فرمایا ’’اس سے مراد یہ کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو،پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو ’’یہی مطلب حضرت عمرؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی منقول ہے۔او رایک روایت بھی کہ حضرت عمرؓ نے توبہ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار،اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے۔ (ابن جریر )
حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ ’’توبۃالکذابین‘‘ ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟فرمایا،اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہیں۔ (۱) جو کچھ ہوچکا ہے اس پر نادم ہو،(۲) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کرے۔(۳) جس کا حق مارا ہو اس کو ادا کرے (۴) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ۔ (۵) آئندہ کیلئے عزم کرلے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا۔ (۶) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھلا دے جس طرح تونے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتو ںکی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے۔ (کشاف ‘‘تفہیم القرآن جلد ششم صفحہ 31)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں گناہوں سے بچائے رکھے اور کبھی کچھ گناہ ہوجائیں تو فوری طور پرتوبۃالنصوح سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم عذاب جہنم سے محفوظ رہ سکیں آمین۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا